... loading ...
دریا کنارے /لقمان اسد
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل سے 24نومبر کیلئے حکمرانوں کے خلاف حتمی کال دے دی ہے، اس کال کیلئے عمران خان نے ایک ایسی کمیٹی کو مذاکرات ،دھرنا دینے ،دھرنا ختم کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے جس کے نام ظاہر نہیں کئے گئے ،تاہم اس تحریک کی کامیابی اس لئے بھی حتمی سمجھی جارہی ہے کہ عوام کے منہ سے موجودہ حکمرانوں نے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ،محض ووٹوں کے حصول کیلئے الیکشن سے قبل 200سے 300بجلی کے یونٹ معاف کرنے کا جھوٹا وعدہ کیا گیا جبکہ پاکستانیوں کے بنیادی انسانی حقوق آج تک معطل ہیں اور ان کو احتجاج کا حق بھی نہیں تحریکِ انصاف کی لیڈر شپ کی جانب سے یہ کال ایسے موقع پرآئی ہے، جب حکومت کو معیشت کے بڑے چینلنجز کا سامنا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان میں جب احتجاج کی تاریخ پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو اس سے قبل پاکستانی تاریخ میں طویل ترین دھرنا عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)نے 2014 میں دیا تھا جو 126 روز تک جاری رہا تھا۔تاہم ماضی میں ہونے والے ان دھرنوں کے باعث بعض حکمرانوں کو اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ کبھی دھرنوں سے طاقت کے استعمال یا مذاکرات کے ذریعے بھی نمٹا گیا۔ لیکن ان دھرنوں کا مقصد حکومت پر دبائو بڑھانا ہوتا ہے اور اکثر اس دباؤ کے باعث طاقت کے مراکز اس کا فائدہ بھی اٹھاتے رہے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف 1990 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے 16 نومبر 1992 کو ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب نواز شریف کی حکومت حسب روایت اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ اپنی کشمکش شروع کر چکی تھی اور بے نظیر بھٹو نے عوامی رائے کا ادراک کرتے ہوئے نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کیا،انہی دنوں فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے اور جنرل وحید کاکڑ کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا تھا۔چھبیس مئی 1993 کو نواز شریف کی حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات پر بحال کیا گیا اور اسی سال 16 جولائی 1993 کو بے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کیا۔ تاہم، اس مرتبہ اُنہیں اسلام آباد خاردار تاروں سے بند ملا۔اس صورت حال میں فوجی سربراہ جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحاق اور وزیرِ اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔احتجاج کی تاریخ میں سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی کے ‘ملین مارچ’ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پرجوش کارکنوں کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی اور کارکنوں کے ہاتھوں پولیس کی پٹائی کے کئی عینی شاہدین آج بھی ان مظاہروں کو بھول نہیں پائے۔جماعت اسلامی نے پہلا احتجاج ، ستمبر 1996 میں قاضی حسین احمد کی قیادت میں ‘ملین مارچ’ کی صورت میں کیا تھا۔ جس کا مقصد بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ تھا۔اس وقت وزیر داخلہ کا چارج نصیر اللہ بابر کے ہاتھ میں تھا ،اسلام آباد پولیس نے مارچ کے شرکا کو تین روز تک آبپارہ کے قریب روکے رکھا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب اسلام آباد کے مکینوں نے آنسو گیس سے مکمل آشنائی حاصل کی اور اس دھرنے کے دوران آبپارہ مارکیٹ کے قریب گھروں میں شیل گرتے رہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی اور قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہ کرائے جانے کے خلاف 14 اگست 2014 کو اسلام آباد کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔لاہور سے شروع ہونے والا یہ مارچ دو روز میں اسلام آباد پہنچا۔ جہاں اُنہیں پہلے زیرو پوائنٹ اور پھر آبپارہ چوک رُکنے کی اجازت دی گئی۔آبپارہ چوک میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف الگ الگ اپنے جلسے کرتے رہے اور پھر انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جانے کا اعلان کیا،ہزاروں کی تعداد میں پولیس، ایف سی اور کنٹینرز کی دیواریں، لیکن سب رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عمران خان اور طاہر القادری 20 اگست کو ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔ اس دوران حکومت نے تمام فورس کو پیچھے ہٹا لیا۔اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 18 دسمبر تک ایک طویل دھرنا دیا گیا۔ جس میں دھرنے کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی طرف مارچ بھی کیا۔آنسو گیس کی برسات ہوئی، ہزاروں شیل فائر کیے گئے، سپریم کورٹ کے گیٹ پر کپڑے لٹکائے گئے۔ ڈی چوک میں جلیبی کی دکانیں بھی کھلیں۔ ڈی جے بٹ کے ترانے بھی چلے۔ لیکن بالاخر 70 دن کے بعد طاہر القادری اور 126 دن بعد عمران خان بھی دھرنا ختم کر کے روانہ ہوگئے۔اب ایک بار پھر عمران خان نے 24نومبر کی کال دیکر مخالفین کیلئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں ،حکمرانوں نے عمران خان کی بلاجواز قید سے لیکر اب تک ظلم کا کونسا حربہ ہے جو نہیں آزمایا ، عورتوں کو پابند سلاسل رکھا گیا ،چادر چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا ،لوگوں کو ان کے گھروں سے اُٹھا کر غائب کردیا گیا ،خوف اور جبر کی اس کیفیت میں موجودہ حکمرانوں نے من مرضی کے فیصلے کئے ،سپریم کورٹ میں دو چیف جسٹس بٹھا دیئے گئے ،اور مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں عوام کو پیس کر رکھ دیا گیا ،محض چند روز قبل گھی کی قیمتوں میں 100سے لیکر 140روپے تک کا اضافہ کرکے صنعت کاروں کو مفاد پہنچایا گیا، یہ ایک طرح کا انتقام ہے جو عوام سے محض اس لئے لیا جارہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی دو بڑی موروثی پارٹیوں کو رد کر دیا تھا۔ اسی تناظر میں عوام کی کثیر تعداد نکلے گی تاہم اب وقت آگیا ہے کہ طویل عرصہ سے رسہ کشی کی جو کیفیت ہے اسے ختم ہونا چاہیے ،اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو ختم کئے بغیر جمہوریت کی اصل روح سامنے آنے سے قاصر رہے گی، اگر ایسا نہ ہوا تو ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا اور دنیا میں بھی ہماری کوئی عزت،کوئی مقام نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔