وجود

... loading ...

وجود

یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے !

جمعه 15 نومبر 2024 یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے !

بے نقاب /ایم آر ملک

کیا ایک زرداری بھٹو بن کر پیپلز پارٹی کی لاش کو آکسیجن فراہم کر سکے گا ؟
جاگیردارانہ اور لمپن قیادت کی سوچ کا تسلط شاید اب قوم کے شانوں پر اپنا وجود بر قرار نہ رکھ سکے ۔کیا اسے ایک ذلت اور شر مساری سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کہ عرصہ پہلے رائے ونڈ کے مکینوں کا بھتیجا ایک ایسے جلسے میں جس میں نظریاتی ورکر نہیں دیہاڑی پر لائے گئے ونگارو تھے ”گو نواز گو ”کے نعرے لگوا کر پاگل پن کی انتہائوں پر کھڑا تھا ؟عرصہ پہلے 70کھانوں کو دیکھ کر باپ کی رالیں ٹپک پڑیں اور اُس کی مفاہمتی سیاست نے رائے ونڈ کی شخصی آمریت کی اطاعت میں عوامی شعور کا قتل کر ڈالا ،رجیم چینج میں بے ضمیروں کی سندھ ہائو س میں منڈی لگا کر زرداری نے عوامی احساسات کو لالچ ،مفاد پرستی اور حرص کی گہری کھائی میں دفن کر دیا ۔ عوامی ایشوز کو ایک بار پھر سراب کے شور میں گم کر نے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا ،حالات غیر دانستہ طور پر عوامی تحریک کی شکل میں پک کر تیار ہوتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کا ورکر اب ایسی لمپن قیادت کی طرف لوٹنے سے رہا جس نے اُس کے قائد کے قاتلوں کے ہاتھ میں نظریاتی ورکروں کا چاک گریباں دے دیا اور بھٹو کے لہو سے رنگا قالین بچھا کر اُن کی اطاعت پر کمر کس لی سرمائے کی لوٹ مار اور فرار کو بچانے کیلئے زرداری نے ایسی شخصی آمریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو ترجیح دی جس نے عوام کے دریدہ پیراہن میں غربت ،مہنگائی ،بیروز گاری ،بجلی ،پانی ، گیس کی قلت ،تعلیم و علاج کا فقدان اور معاشی و سماجی بر بادیاں ڈالیں ،سرمائے کی جمہوریت کے اس بے ڈھنگے ارتقاء نے جمہوری حقوق کی شکلیں مسخ کر دیں ۔
تخت ِ لاہور پر قابض ایک عورت کے حق میں نعرے بازی کے شور میں اب چھوٹا زرداری آنے والے کل میں اپنی باری کیلئے بے چین ہے۔ شائونزم کو اُبھارنے کی یہ بے ہودہ کوشش ہے ۔ اب عوام احمقوں کی جنت میں نہیں رہتے کہ جھوٹی کار گزاریوں کے نعروں پر اُن کی حمایت جیتی جاسکے ۔ کون نہیں جانتا کہ مرتضیٰ بھٹو کا قاتل کون ہے ؟ اور کس نے ایک جری بھٹو کو اپنے رستہ سے ہٹانے کیلئے انتقام کا خونریز وار کیا ؟لوٹ مار کی جمہوریت کے ڈوبتے سفینے کو شریف زرداری کمپنی مل کر کندھا دینے کی ناکام سعی میں ہیں ۔جمہوریت تو دو پارٹیوں کے لوٹ مار کے دو پاٹوں میں پس کر متروک ہوتی رہی ۔8فروری کو منافقت اور تضحیک کے درمیان عوام کے حق ِ خود ارادیت کا قتل ہوا۔دو پارٹیوں کی لوٹ مار کے کئی سکینڈلز کے منظر عام پر آنے کے بعد کیا ضیاء آمریت سے جنم لینے والی پارٹی اور زرداری لیگ کی یک رنگی سے بیزار عوام ضروریات زندگی کے حصول کی غیر انسانی مشقت سے اب نجات کے خواہاں نہیں ؟جن کی محنت کا استحصال کم ہونے کے بجائے تیز ہو رہا ہے عمران کی بے گناہی پر مہر تصدیق لگانے کیلئے دو موروثی پارٹیوں سے بیزار عوام سیاسی اظہار کی تلاش میں نکلتے ہیں لوٹ مار اور کرپشن پر اتحاد جمہوریت کے فریب اور کھوکھلے پن کو بے نقاب کر رہا ہے ۔طاقتور حلقوں کی پشت ِ بانی کے باوجود ماضی کی فرسودگی کو عوام آئندہ گلے لگانے سے گریزاں نظر آتے ہیں، دو افراد کے جمہوری تصورات کے ابہام سے اب وہ نکلنا چاہتے ہیں ۔بیلٹ کی طاقت سے جمہوری تہمت سے داغدار طوق کو گلے سے اتارنے کیلئے مجھے اکثریت بے چین دکھائی دیتی ہے ۔چہروں پر پھیلی زہر آلود مسکراہٹیں ووٹ کے انتقام سے ان جعلی قیادتوں کا استقبال کریں گی ۔جب مفاہمت کی سیاست کی چھتری تلے محض عوامی حقوق کا قتل عام مقصود ہو تو بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے وقت احساسات کی افادیت یکسر مختلف ہو جایا کرتی ہے ۔
بھٹو کی پارٹی کے کارکن اور جانثار محترمہ کی شہادت کے بعد شدید مایوسی اور لاچارگی کے عالم میں اپنی قربانیاں اور جدو جہد قیادت کی منڈی میں نیلامی کیلئے لے کر پھرتے رہے ،سسکتے رہے ،آہ و بکا کرتے رہے لیکن زرداری نے اُن کے نظریات اور جذبات کو ایسی سیاست کی سولی پر چڑھا دیا جس نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کیں ۔تیسری دنیا کے لیڈر کو جن کے سیاسی باپ نے قتل کر کے ان نظریاتی ورکروں سے انتقام لیا جن کا نعرہ تھا ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا ”۔
نظام کے ہاتھوں مسلط شدہ اُفق پر جو پارٹی عوام کی واحد اُمید تھی اس کے ساتھ جڑے ہوئے نظریات ریزہ ریزہ ہو چکے ۔عوام کو مرعوب کرنے کیلئے نو خیز زرداری آئندہ اقتدار کیلئے لکھی ہوئی تقاریر کی ریہرسل کر رہاہے اس سے بڑا فریب اور کیا ہو سکتا ہے مشرف آمریت کی چھتری تلے موصوف کی پارٹی کے وزراء نے حلف اُٹھایاتھا ۔عوامی عدم اعتماد کے آئینے میں سچ کی شکل واضح نظر آرہی ہے ۔ کیا اس سچائی پر مٹی ڈالی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن کا کردار عمران سے زیادہ کس نے ادا کیا ؟
بہت دیر ہو چکی ،وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل گیا اور بھٹو کی پارٹی کے جعلی وارثوں کو خبر تک نہ ہوئی ،الفاظ کی چاشنی سے پارٹی کی مردہ سانسیں بحال کرنا ناممکن ہو چکا کہ بھٹو کی پارٹی بھٹو کے قاتلوں کی ذیلی شاخ بن چکی ہے ،سیاست کے ڈاکٹر کے جمہور کش جمہوی پلان میں لوٹ مار کا گٹھ جوڑ اب حالات کو یکسر تبدیل کر دے گا ،یہ کرپشن کے خلاف ایسا چابک ثابت ہوگا جو وطن عزیز کا روایتی چہرہ بدل دے گا عمران کی کال پر اب تبدیلی کے حقیقی عناصر” عوام” اپنی گہری خامشی توڑ کر تاریخ کے میدان میں نکلیں گے۔ مفاہمت کی جعلی لفاظی اور لفظ جمہوریت کے ناجائز استعمال سے اُس بے چینی کو ختم نہیں کیا جاسکتا جو معاشرے کی بنیادوں میں ڈائنا مائیٹ کی طرح لگی ہوئی ہے اور عمران کی کال پر یہ ڈائنا مائیٹ پھٹنے کو ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی وجود جمعه 15 نومبر 2024
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی

یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے ! وجود جمعه 15 نومبر 2024
یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے !

عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے! وجود جمعه 15 نومبر 2024
عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے!

اُف! یہ" "235گھس پیٹھیے وجود جمعه 15 نومبر 2024
اُف! یہ

بی ایل اے اور 'را' کا گٹھ جوڑ وجود جمعه 15 نومبر 2024
بی ایل اے اور 'را' کا گٹھ جوڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر