... loading ...
جاوید محمود
سابق امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد امریکی سیاست سے تعلق رکھنے والی واحد شخصیت نہیں ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے سیاسی بحران پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہو، امریکی کانگریس کے رکن بریڈ مین اور سینیٹر جیکی زون بھی پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر حال ہی میں اپنی آرا کا اظہار کر چکے ہیں ۔واضح رہے کہ افغان نژاد زلمے خلیل زاد امریکہ کے سابق سفارت کار ہیں جو اس وقت کسی حکومتی عہدے پر نہیں ہیں، تاہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کا شمار ڈونلڈ ٹرمپ کی قریب ترین شخصیات میں کیا جاتا ہے اور امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انہیں کسی اہم عہدے پر فائض کریں گے ۔زلمے خلیل زاد نے رواں سال 14 مارچ کو ٹویٹر پر کہا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری بحران بڑھے گا اور یہ تجویز دی تھی کہ حکومت جون میں انتخابات کی تاریخ دے اور اس دوران تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملک کی سیکورٹی ترقی اور استحکام کے لیے منصوبندی کریں۔
ان کے اس بیان پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو کسی کے لیکچر یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود 21مارچ کوزلمے خلیل زاد نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کا رخ کیا اور اپنے اکاؤنٹ پر لکھا کہ ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان جو حکومتی اتحاد کے زیر اثر ہے، سپریم کورٹ سے کہہ سکتی ہے کہ عمران خان کو نااہل کیا جائے یا اگلے چند دنوں میں تحریک انصاف پر پابندی لگا سکتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت طے کر چکی ہے کہ عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر1بنایا جائے۔ تاہم ایسا کرنے سے پاکستان میں بحران بہت شدید ہوگا اور بین الاقوامی مدد میں کمی آئے گی۔ زلمے خلیل زاد نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاست دان قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والی تباہ کن سیاست سے گریز کریں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ ایسے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دے گی ۔زلمے خلیل زاد کی ٹوئٹ کا آخری جملہ تھا کہ پاکستان کے بارے میں میری تشویش بڑھ رہی ہے ۔
دوسری جانب امریکی سینیٹر جیکی زون نے بھی 22 مارچ کو ہی ٹوئٹر پر لکھا کہ مجھے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد پر تشویش ہے اور میں تمام پارٹیوں سے کہتی ہوں کہ اختلافات کو پرمن طریقے سے حل کریں اور قانون اور جمہوریت کی پاسداری کریں جبکہ اس سے قبل امریکی کانگریس کے رکن بریڈ مین نے 14مارچ کو عمران خان کی تقاریر پر پابندی کی خبر پر رد عمل دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ چند روز قبل زلمے خلیل زادنے ایک کالم لکھا جو امریکہ سمیت دنیا بھر کے مقبول ترین میگزین میں شائع ہوا اس میں افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر زلمے خلیل زاد ا نے حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی 2024کی صدارتی فتح کی روشنی میں ایک اہم سوال کیا ،عسکری قیادت ٹرمپ کے دوست عمران خان کی جاری بلا جواز قید کی وضاحت کیسے کریں گے ؟یہ سوال محض بیان بازی نہیں ہے ۔یہ امریکی خارجہ پالیسی کو درپیش مرکزی مخمصے کو اجاگر کرتا ہے کیونکہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی نے پاکستان کے سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بڑی حد تک فوجی قیادت والی حکومت کے تحت پاکستان میں بڑھتی آمریت کو نظر اندازکیا۔ امریکہ نے انتخابی دھاندلی سیاسی جبر اور ملک میں شہری آزادیوں کے خاتمے پر آنکھیں بند کر رکھی تھیں تا ہم ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کہ بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی آئے گی، خاص طور پر عمران خان کی حکومت کے ساتھ ٹرمپ کے پہلے سے مضبوط دو طرفہ تعلقات کی روشنی میں عمران خان کی قید جس کی سیاسی طور پر حوصلہ افزائی اور ناانصافی کے طور پر مذمت کی گئی ہے۔
پاکستان سیاسی اور انسانی حقوق کے بحران کا مرکز ہے۔ بین الاقوامی برادری بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام میں متحدہ کے ورکنگ گروپ اربیٹری ڈیٹینشن نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے پاکستان کے 2024کے عام انتخابات جو بے ضابطگیوں اور جوڑ توڑسے دو چار ہیں ،نے خان کی پارٹی پی ٹی آئی کو سائیڈ لائن کرتے ہوئے فوج کی حمایت یافتہ پی ایم ایل این پی پی پی کے اتحاد کو کنٹرول کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ امریکی کانگریس نے انسانی حقوق کی قرارداد 901کے ساتھ جواب دیا، انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی اپوزیشن کو دبانے کی مذمت کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی آمریت کے پیش نظر بائیڈن انتظامیہ کی بے عملی کو خطے میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے ایک ضائع ہونے والے موقع کے طور پر دیکھا گیا ہے ۔انتخابی دھاندلی اپوزیشن رہنماؤں کی قید اور اختلاف رائے کو دبانے پر پاکستان کی فوجی حمایت یافتہ حکومت کا مقابلہ کرنے میں انتظامیہ کی ہچکچاہٹ نے جنرل منیر کو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی اجازت دی ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے یہ متحرک تبدیلی آ سکتی ہے ،خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کا زیادہ براہ راست اور تصادم کا نقطہ نظر خاص طور پر خان کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات ان اہم مسائل پر امریکہ کے مضبوط موقف کا باعث بن سکتے ہیں۔ ٹرمپ ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے، سیاست میں فوج کی مداخلت کو چیلنج کرنے اور پاکستان کی جمہوریت اور عدالتی آزادی کے تحفظ کے لیے اصلاحات کا مطالبہ کرنے کے لیے اپنا اثر سوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ سمیت عالمی سطح پر سیاست کا رخ چینج ہو رہا ہے اور یہ سیاسی ہوا خان کے حق میں چل پڑی ہے اور یہ اشارے دے رہی ہے کہ خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے۔