وجود

... loading ...

وجود

عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے!

جمعه 15 نومبر 2024 عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے!

جاوید محمود

سابق امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد امریکی سیاست سے تعلق رکھنے والی واحد شخصیت نہیں ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے سیاسی بحران پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہو، امریکی کانگریس کے رکن بریڈ مین اور سینیٹر جیکی زون بھی پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر حال ہی میں اپنی آرا کا اظہار کر چکے ہیں ۔واضح رہے کہ افغان نژاد زلمے خلیل زاد امریکہ کے سابق سفارت کار ہیں جو اس وقت کسی حکومتی عہدے پر نہیں ہیں، تاہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کا شمار ڈونلڈ ٹرمپ کی قریب ترین شخصیات میں کیا جاتا ہے اور امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انہیں کسی اہم عہدے پر فائض کریں گے ۔زلمے خلیل زاد نے رواں سال 14 مارچ کو ٹویٹر پر کہا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری بحران بڑھے گا اور یہ تجویز دی تھی کہ حکومت جون میں انتخابات کی تاریخ دے اور اس دوران تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملک کی سیکورٹی ترقی اور استحکام کے لیے منصوبندی کریں۔
ان کے اس بیان پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو کسی کے لیکچر یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود 21مارچ کوزلمے خلیل زاد نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کا رخ کیا اور اپنے اکاؤنٹ پر لکھا کہ ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان جو حکومتی اتحاد کے زیر اثر ہے، سپریم کورٹ سے کہہ سکتی ہے کہ عمران خان کو نااہل کیا جائے یا اگلے چند دنوں میں تحریک انصاف پر پابندی لگا سکتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت طے کر چکی ہے کہ عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر1بنایا جائے۔ تاہم ایسا کرنے سے پاکستان میں بحران بہت شدید ہوگا اور بین الاقوامی مدد میں کمی آئے گی۔ زلمے خلیل زاد نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاست دان قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والی تباہ کن سیاست سے گریز کریں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ ایسے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دے گی ۔زلمے خلیل زاد کی ٹوئٹ کا آخری جملہ تھا کہ پاکستان کے بارے میں میری تشویش بڑھ رہی ہے ۔
دوسری جانب امریکی سینیٹر جیکی زون نے بھی 22 مارچ کو ہی ٹوئٹر پر لکھا کہ مجھے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد پر تشویش ہے اور میں تمام پارٹیوں سے کہتی ہوں کہ اختلافات کو پرمن طریقے سے حل کریں اور قانون اور جمہوریت کی پاسداری کریں جبکہ اس سے قبل امریکی کانگریس کے رکن بریڈ مین نے 14مارچ کو عمران خان کی تقاریر پر پابندی کی خبر پر رد عمل دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ چند روز قبل زلمے خلیل زادنے ایک کالم لکھا جو امریکہ سمیت دنیا بھر کے مقبول ترین میگزین میں شائع ہوا اس میں افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر زلمے خلیل زاد ا نے حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی 2024کی صدارتی فتح کی روشنی میں ایک اہم سوال کیا ،عسکری قیادت ٹرمپ کے دوست عمران خان کی جاری بلا جواز قید کی وضاحت کیسے کریں گے ؟یہ سوال محض بیان بازی نہیں ہے ۔یہ امریکی خارجہ پالیسی کو درپیش مرکزی مخمصے کو اجاگر کرتا ہے کیونکہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی نے پاکستان کے سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بڑی حد تک فوجی قیادت والی حکومت کے تحت پاکستان میں بڑھتی آمریت کو نظر اندازکیا۔ امریکہ نے انتخابی دھاندلی سیاسی جبر اور ملک میں شہری آزادیوں کے خاتمے پر آنکھیں بند کر رکھی تھیں تا ہم ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کہ بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی آئے گی، خاص طور پر عمران خان کی حکومت کے ساتھ ٹرمپ کے پہلے سے مضبوط دو طرفہ تعلقات کی روشنی میں عمران خان کی قید جس کی سیاسی طور پر حوصلہ افزائی اور ناانصافی کے طور پر مذمت کی گئی ہے۔
پاکستان سیاسی اور انسانی حقوق کے بحران کا مرکز ہے۔ بین الاقوامی برادری بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام میں متحدہ کے ورکنگ گروپ اربیٹری ڈیٹینشن نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے پاکستان کے 2024کے عام انتخابات جو بے ضابطگیوں اور جوڑ توڑسے دو چار ہیں ،نے خان کی پارٹی پی ٹی آئی کو سائیڈ لائن کرتے ہوئے فوج کی حمایت یافتہ پی ایم ایل این پی پی پی کے اتحاد کو کنٹرول کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ امریکی کانگریس نے انسانی حقوق کی قرارداد 901کے ساتھ جواب دیا، انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی اپوزیشن کو دبانے کی مذمت کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی آمریت کے پیش نظر بائیڈن انتظامیہ کی بے عملی کو خطے میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے ایک ضائع ہونے والے موقع کے طور پر دیکھا گیا ہے ۔انتخابی دھاندلی اپوزیشن رہنماؤں کی قید اور اختلاف رائے کو دبانے پر پاکستان کی فوجی حمایت یافتہ حکومت کا مقابلہ کرنے میں انتظامیہ کی ہچکچاہٹ نے جنرل منیر کو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی اجازت دی ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے یہ متحرک تبدیلی آ سکتی ہے ،خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کا زیادہ براہ راست اور تصادم کا نقطہ نظر خاص طور پر خان کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات ان اہم مسائل پر امریکہ کے مضبوط موقف کا باعث بن سکتے ہیں۔ ٹرمپ ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے، سیاست میں فوج کی مداخلت کو چیلنج کرنے اور پاکستان کی جمہوریت اور عدالتی آزادی کے تحفظ کے لیے اصلاحات کا مطالبہ کرنے کے لیے اپنا اثر سوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ سمیت عالمی سطح پر سیاست کا رخ چینج ہو رہا ہے اور یہ سیاسی ہوا خان کے حق میں چل پڑی ہے اور یہ اشارے دے رہی ہے کہ خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی وجود جمعه 15 نومبر 2024
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی

یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے ! وجود جمعه 15 نومبر 2024
یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے !

عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے! وجود جمعه 15 نومبر 2024
عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے!

اُف! یہ" "235گھس پیٹھیے وجود جمعه 15 نومبر 2024
اُف! یہ

بی ایل اے اور 'را' کا گٹھ جوڑ وجود جمعه 15 نومبر 2024
بی ایل اے اور 'را' کا گٹھ جوڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر