... loading ...
حمیداللہ بھٹی
دہشت گردی پرقابوپانے کے لیے کسی نرمی کی نہیں بلکہ تمام وسائل بروئے کارلانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دہشت گردوں کی مذمت کرنے کی بجائے جواز پیش کرتے ہوئے اپنے ہی اِداروں کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ایسے لوگ دہشت گردانہ کاروائیوں کومحرومیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سوچ یارویہ ملکی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے قانون نافذکرنے والے اِدارے ایساٹھوس اور نتیجہ خیزلائحہ عمل بنائیں جس سے دہشت گردوں کاہمیشہ کے لیے خاتمہ ہواِس کے لیے امن پسندوں کا تعاون حاصل کرنے سے بہتر جلداور دیرپانتائج ممکن ہیں لیکن جو بھی امن میں رخنہ اندازی کرے اُسے ایسا جواب دیا جائے جس سے دہشت گرداور اُن کے سہولت کار عبرت حاصل کریں۔
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سانحہ سے پورے ملک کی فضا نہ صرف سوگوار ہے بلکہ امن پسند حلقے تشویش کا شکار ہیں ایک لمحے میں چھبیس افراد کی جان لینے کے ساتھ باسٹھ لوگ زخمی کر دیے گئے ۔یہ واقعہ ظاہر کرتاہے کہ مزید نرمی ،رحمدلی یا سستی کے متحمل نہیں ہو سکتے اب پوری طاقت سے جواب دیناضروری ہو گیاہے جوبھی انسانی خون سے ہاتھ رنگنے میں مصروف ہیں اُنھیں سرعت سے عبرت کا نشان بنانا ہی حب الوطنی ہے سیاسی قیادت کوچاہیے کہ نہ صرف دہشت گردی کے اندرونی اسباب وتعاون کے زرائع ختم کرنے پر توجہ دے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اِداروں سے مکمل تعاون کرے ہر سانحے کے پس پردہ بیرونی ہاتھ کہہ دیناہی کافی نہیں بلکہ دہشت گردوں اور اُن کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کینیڈین حکومت کی طرح ایک منظم مُہم کی ضرورت ہے عالمی اِداروں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے وزارتِ خارجہ کو ہمہ گیر مُہم کا آغاز کر دینا چاہیے تاکہ اقوامِ عالم کی مدداور ہمدردیاںحاصل کی جا سکیں۔
بلوچستان اور کے پی کے گزشتہ چند برس سے دہشت گردی کی نئی لہر کی زد میں ہیں ماضی میں جب بھی ایسی صورتحال پیداہوئی تو سخت ترین اقدامات کیے گئے ایک دہائی میں دو فوجی آپریشنوں سے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا جس سے نہ صرف ملک میں امن قائم ہوا بلکہ زندہ بچ جانے والوں کو راہ فراراختیار کرناپڑی اب دوبارہ دہشت گردی کا فتنہ سر اُٹھانے لگا ہے اور خوارج منظم ہونے لگے ہیں مگراِس کے خاتمہ کی کوششوں میں جس تیزی کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی بلکہ زمہ داران سست روی کا شکارنظرآتے ہیں دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد سیاسی و عسکری قیادت مذمت کرتی ہے بیرونی ہاتھ کی طرف اِشارہ بھی کیا جاتا ہے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے اعلانات کے بعد خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے لیکن عملی طورپر جس تحرک کی ضرورت ہے وہ کہیں محسوس نہیں ہوتا ایسارویہ حالات کی سنگینی کو کم تر ظاہر کرنے کے مترداف ہے اگر فتنے کا خاتمہ کرنا ہے تو اسباب کا گہرائی اور جامعیت کے ساتھ تجزیہ کرنا ہوگا اور پھر ایسی جامع حکمتِ عملی سے کام لینا ہوگا جس سے نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ ہوبلکہ اسباب و وسائل کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ یقینی ہو۔
2020 سے لیکر آج تک غیر ملکی باشندے خاص طورپر نشانہ ہیں گزرے چاربرسوں میں کے دوران دہشت گردانہ کاروائیوںمیں بارہ غیرملکیوں سمیت 62 افراد قتل ہوئے غیر ملکیوں میں اکثریت چینی باشندوں کی ہے اسی طرح اگر گزشتہ ایک برس پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو دہشت گردی کے مجموعی طورپر دوہزار سے زائد واقعات پیش آئے گزرے دوبرسوں کی بات کریں تو صورتحال بہت ہی خوفناک اور تشویشناک نظر آتی ہے کیونکہ جاںبحق ہونے والے شہریوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی وزارتِ داخلہ نے قومی اسمبلی میں خود اعتراف کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو تاجاہا ہے لیکن یہ اعتراف ہی کافی نہیں بلکہ حالات نتیجہ خیز اقدامات کا تقاضاکرتے ہیں لیکن اِس حوالے سے حکومتی حلقوں میں کسی قسم کی بے اطمنانی یاتشویش کے آثار نہیں ایسا لگتا ہے جیسے سب ٹھیک ہو دہشت گردوں کا فعال ہوناحکومتی رَٹ کی کمزوری ہے اگر حکومت کی ترجیح امن ہوتاتواب تک دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے کوئی طریقہ کاربنایاجا چکا ہوتا ۔
قانون نافذ کرنے والے اِداروں نے اطلاعات پر کاوائیاں بھی کیں جن میں کئی دہشت گرد واصل جہنم ہوئے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر دہشت گردی کے واقعات ختم نہیں ہو سکے وقفے وقفے سے امن دشمن عناصر اپنی موجودگی اور مضبوطی کا احساس دلاتے رہتے ہیں اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ پالیسیوں میںکہیں نہ کہیں ایسے سقم ہیں جن سے دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو اپنی مزموم کاروائیوں کے لیے سازگارفضادستیاب ہے وگرنہ امن کی صورتحال یوں دگرگوں نہ ہوتی۔
ہمیں غلطیوں کا اعتراف کر نے کے ساتھ یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرقی سرحد کی طرح شمال اور مغرب میں بھی خرابی ہے حالانکہ افغانوں کی آزادی کے لیے پاکستان نے بے شمارجانی و مالی قربانیاں دیں روس اور امریکہ کے پنجہ استبداد سے نکالنے کے لیے افغان بھائیوں کی وکالت کی لیکن پاک افغان حکومتوں کے درمیان دوستی اور اعتمادکے رشتے کاہنوز فقدان ہے افغان قیادت خطے کے تمام ممالک سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش میں ہے مگر پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی بجائے خرابی کی طرف جارہے ہیںبھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت 650ملین ڈالرسے متجازہے مگر پاکستان کے ساتھ تجارت وتعاون کاسلسلہ منقطع ہوتارہتا ہے اِس کا مطلب ہے کہ دونوں طرف بداعتمادی کی فضا ہے جسے بہتر بناناکسی ایک فریق کی نہیں بلکہ دونوں کی زمہ داری ہے لیکن حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی ترجیحات میںاچھی ہمسائیگی ہے ہی نہیں ٹی ٹی پی سمیت خیبرپختونخواہ میں متحرک خوارج کوافغان سرزمین حاصل ہے بلوچستان میں بھی ریاست کے خلاف برسرِ پیکارتنظیموں سے افغان روابط حقیقت ہیں اگر شمال مغربی ہمسایہ اپنی زمہ داریاں پوری کرے تو پاکستان میں امن آنے کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتر ی ممکن ہے۔
دہشت گردوں کاسہولت کار قرار دیکر غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کو نکالنے کی زور دار مُہم چلانے کے باوجودملک میں امن کے آثار ہنوز معدوم ہیں غوروفکرکی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہم سے کہاں ایسی غلطیاں ہوئیں کہ خطے میں دوست کم اور دشمن زیادہ ہورہے ہیں ؟ جب ہم نے اِس حوالے سے مکمل غور وفکر کر لیا تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز لائحہ عمل بنانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے اور یہ جومحرومیوں کو دہشت گردی کاجواز قرار دیتے ہیں اُنھیںبھی غلط ثابت کرنے کی منزل حاصل ہوجائے گی لیکن ایسا تبھی ممکن
ہے جب سیاسی و عسکری قیادت کی سوچ ایک ہواِس میں شبہ نہیں کہ درپیش چیلنج غیر معمولی ہے مگر نتیجہ خیزی کے لیے بہتر حکمت ِ عملی ناگزیر ہے اگر وسیع تر مشاورت سے لائحہ عمل بنایا جائے تودہشت گردی کے فتنے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہے کوئٹہ سانحے نے ملک کے محب الوطنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کیسے متحرک ہوتی ہے پورے ملک کی نظریں اُن پر ہیں ۔