... loading ...
رفیق پٹیل
آثار بتارہے ہیں کہ عمران خان کی رہائی قریب ہے ۔شاید حکمراں جماعت کے چند اہم افراد کو اس کی اطلاع مل گئی ہے یاپہنچادی گئی ہے ، اس لیے کبھی وہ کہتے ہیں بانی پی ٹی آئی نے ڈیل کرلی ہے ۔جب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی گفتگو سے مسلم لیگ ن کے بہت سارے رہنما چھوڑ کر چلے جائیں گے اس لیے وہ ایک اور بیان دیتے ہیں کہ عمران خان کو فوج کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ اقتدار کے ممکنہ خاتمے کے بعد کی صورت حال کے ایک انجانے خوف میں مبتلا برسر اقتدار جماعتوں کے جو رہنما بھی ملک سے باہر اپنے محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں مصروف ہیں، وہ اندر سے اس لیے بھی خوفزدہ ہیں کہ وہ عوامی حمایت سے محرومی کے باوجود عہدوں پر قابض ہیں۔
عوامی حمایت سے محرومی کا عملی مظاہرہ فروری کے انتخابات میں سامنے آچکا تھا۔ان رہنما ؤں کو یہ بھی اندازہ ہے عہدوں پر قبضے کے اس عمل کی وجہ سے عوام میں غصّہ بھی پایا جاتا ہے ۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ عوام کو مالی پریشا نیوں سے نجات نہیں ملی بلکہ اس میں اضافہ ہوا۔ ان کے برسراقتدا آنے کے بعدبعد ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی،بیروزگاری ، کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں میں سست روی،موٹر سائیکل، گاڑیاں اور نقدی چھیننے کی وارداتوں کی وجہ سے لوگ مزید مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں۔ امریکی انتخابات کے دوران اور اس سے قبل بعض رہنماؤں نے نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف مہم چلارکھی تھی اور وہ یہ تصورکیے ہوئے تھے کہ ٹرمپ کو کامیابی نہیں ملے گی۔ اب وہ نتا ئج سے بھی پریشان ہیں شاید ان کی سب سے بڑی پریشانی یہ بھی ہوگی کہ احتسا بی عمل کی صورت میں انہیں حساب دینا ہوگاکہ ان کے پاس پہلے کتنی دولت تھی اور اب کتنی ہے ؟ وہ اس خد شے کا بھی شکار ہیں کہ کہیں بہت زیادہ دباؤ کے باعث بنگلہ دیش والے حالات نہ پیدا ہو جائیں۔ ان کے نزدیک موجودہ کھیل اختتام پذیر ہے اور بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آخر حالات اس صورت حال تک کیسے پہنچے ؟ اس کی بنیادی وجہ اپریل2022 میں عمران خان کے اقتدار کے خاتمے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انتخا با ت سے فرار تھا اگر اس وقت انتخابات میں عمران خان کامیاب بھی ہوجاتے جس کا امکان کم تھا تو وہ کامیابی کے باوجود انتہائی کمزور پوزیشن میں ہوتے لیکن مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے انتخابی عمل سے فرار کی راہ اختیا ر کرلی اور سیاسی عمل سے گریز کرتے ہوئے انتظامیہ کی مدد سے پی ٹی آئی کو کچلنے کی کوشش شروع کردی۔ میڈ یا پر پابندیاں عائد کردی گئیں تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھین کر اس پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کردی گئی ۔ عوام کے اس پر منفی اثرات ہوئے اور عوام کی ہمد ردی پی ٹی آئی کے ساتھ بڑھتی چلی گئی ۔تما م ریاستی وسائل پی ٹی آئی کو کچلنے کے لیے استعمال کیے گئے جس کے منفی اثرات ہوئے ۔ ریاست کمزور اور پی ٹی آئی مضبوط ہو گئی ۔عدالتیں شدید دبا ؤ کا شکار ہوئیں۔ آئین کی خلاف ورزیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ۔اب عدلیہ کو انتظامیہ کے تابع کرنے کے الزامات دنیا بھر کے معتبر اداروں کی جانب سے لگائے جارہے ہیں ۔پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ فائدہ یہ ہورہا ہے کہ 12 سال سے 40سال کے لوگو ں کی بھاری اکثریت کی حمایت اسے حاصل ہے اور ہر روز اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والوں کی تعداد 15000 ہے جس میں سے وہ انتہائی خاموشی کے ساتھ 20فیصد کو کارکن بنانے میں کامیاب نظر آتی ہے ۔ باقی80فیصد میں سے 50فیصد پہلے سے ہی پی ٹی آئی کے خاموش حامی ہیں جو صرف ووٹ دیتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ فروری کے انتخابات میں نظر آیا تھا۔ 90ہزار ماہانہ کارکنوں کی بھرتی پی ٹی آئی کی حیرت انگیز کامیابی ہے ۔ اب بھی پی ٹی آئی 12 سے 17سال کے نوجوانوں کو نظر انداز نہیں کررہی ہے ، جہا ں جہاں ان کو موقع ملتا ہے ان کو بھی پی ٹی آئی کی جانب راغب کرنے کے لیے غیر محسوس طریقہ کار سے کام کرتی ہے ۔ اس طرح کی صلاحیت کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے ۔مسلم لیگ ن ،پی پی اور ایم کیوایم نے عوام کو نظر انداز کرکے اپنا تعلّق غیر سیاسی قوتّوں کے ساتھ جوڑلیا ۔اس طرح ان جماعتوں نے اپنی طاقت کم کرکے سب کچھ غیر سیاسی قوتّوں کے حوالے کردیا۔ اس طرح الیکشن کمیشن مکمل جانبدار ہوگیا ۔پارلیمنٹ پر پس پردہ قوتیں حاوی ہوگئیں۔ عدلیہ بھی اس اثر سے باہر نہ رہ سکی۔ میڈیا آزاد اور غیر جانبدا ر نہ رہ سکا۔ عوام کی کوئی حیثیت نہ رہی ۔آج کی دنیا میں ترقّی کی بنیاد عوام کی خوشحالی اور انہیں بااختیار بنانا ہے ۔ملک کا دفاع بھی اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب عوام کو حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اور اداروں پر ان کا اعتماد ہوتا ہے ۔
پاکستان کے آئین کے مطابق خدا کے بعد تما م اختیا رات عوام کے پاس ہیں جسے ایک حدود میں ان کے منتخب نمائندے ہی استعمال کر سکتے ہیں لیکن جب انتخابی نتائج تبدیل ہوجائیں تو ایسی صورت میں آئین کی بنیادی روح کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں ترقّی کی بنیاد غیر جانب دارانہ منصفانہ شفاف انتخابات ہیں جبکہ دیگر عوامل میں آزاد عدلیہ ، آزاد میڈیا اور امن وامان ہے جس کے لیے باصلاحیت لوگوں پر مشتمل غیرجانب دار ، بد عنوانی سے پاک اداروں اور عوامی حمایت پر مشتمل مقنّنہ لازمی ہے لیکن ملک کی مقتدر اشرافیہ نے ان حقائق کو بالا تر رکھ کر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ایسی تباہی مچائی کہ سب کچھ ایک ملبے کے ڈھیر کی شکل اختیار کر گیا۔ اب مقتدر اشرافیہ کے بعض اہم افراد کو اس بات کی فکر ہوگئی ہے کہ اقتدار جانے کی صورت میں ان کی گرفت نہ ہو لہٰذا وہ ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ اس بات کی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کرہے ہیں کہ ان کی دولت اور وہ خود محفوظ رہیں گے ۔ایک امکان یہ بھی ہے کہ عمران خان کو بھی اس بات پر آمادہ کیا جارہا ہے کہ وہ رہائی ملنے کی صورت میں کچھ عرصے اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں اور کسی ممکنہ درمیانی انتظا م کو قبول کرلیں۔ عوام کو بے قابو نہ ہونے دیں ۔اس طرح کی غیر مصدّقہ اطلاعات کے پیش نظر بعض سیاسی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والے رہنما جو خطرہ بھانپ لیتے ہیں ان کا خیال شاید یہ ہو سکتا ہے کہ اب کھیل ختم ہے ۔ فی الحال دور ہٹ جاؤ یعنی بھاگو ۔شاید کچھ لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا وہ امریکی وبرطانوی ارکا ن پارلیمنٹ اور اقوام متحدہ کے بیانات کو نظر انداز کرتے رہے اور اس کی نفی کے جو ابی بیانات بھی جاری کرتے رہے ،ان جوابات کا اثر کیا ہوسکتاہے ، اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے ۔ موجودہ حکومت اگر برقرار رہ بھی جاتی ہے تو بھی ملک اداروں کی اصلاحات کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا اور موجودہ حکومت اس کی معمولی سی بھی صلاحیت نہیں رکھتی ،نہ وہ عدلیہ کو آزاد کرسکتی ہے نہ بدعنوانی کا خاتمہ کرسکتی ہے نہ میڈیا پر پابندی ختم کرسکتی ہے نہ وہ ایسی مقنّنہ کی راہ ہموار کر سکتی ہے جسے حقیقی معنوں میں عوامی حمایت حاصل ہو نہ ہی اس کے پاس مہنگائی کے خاتمے ،امن وامان کے قیام عوام کے لیے بہتر طبّی سہولتوں کی فراہمی، عوام کو خوشحال اور
بااختیار بنانے کا کوئی ٹھوس منصوبہ ہے کیونکہ ایسی صورت میں ان کا اقتدار چلاجائے گا اگر یہ ڈوبتی کشتی کی سواری نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟