... loading ...
جاوید محمود
اقوام متحدہ کے مطابق حال ہی میں انڈیا چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے لیکن کیا انڈیا چین کی برابری کر سکتا ہے یا اپنے اس عالمی سپر پاور پڑوسی کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ اقتصادی جیو پولیٹیکل اور فوجی طاقت کے لحاظ سے چین کو انڈیا پر اچھی خاصی برتری حاصل ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ 2001میں معاشیات کا نوبل پرائز لینے والے مائیکل سسپنس کا ماننا ہے کہ انڈیا کا وقت آگیا ہے۔ا سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ڈین اور پروفیسر کے مطابق انڈیا چین کے برابر پہنچ جائے گا ۔چین کی معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ جائے گی ۔مگر انڈیا کی کم نہیں ہوگی۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ انڈیا پانچویں نمبر پر ہے۔ مقابلے میں تقریبا پانچ گنا بڑی ہے ۔انڈیا میں متوسط طبقے کی تعداد ذرا چھوٹی ہے اور چین کی طرح کامیاب ہونے کے لیے انڈیا کو تعلیم معیار زندگی صنفی مساوات اور اقتصادی اصلاحات میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور عالمی سپر پاور ہونے کا آبادی اور معاشیات سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کا انحصار جیو پولیٹیکل اور فوجی طاقت پر ہے جس میں انڈیا بہت پیچھے ہے۔ سافٹ پاور بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انڈیا کی بالی وڈ فلم انڈسٹری ملک کو بین الاقوامی سطح پر پروموٹ کرنے اور نیٹ فیلکس پر ریکارڈ توڑنے میں بہت موثر ہے لیکن پھر چین کے پاس چائنہ وڈ ہے۔ چین کی اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی پاور ہاؤس فلم انڈسٹری جس نے 2020 میں پہلی بار بالی وڈ کو دنیا کے سب سے بڑے باکس آفس کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا اور 2021میں دوبارہ ایسا ہی کیا ۔
آج انڈیا میں روزانہ 86000 بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ چین میں یہ تعداد 49ہزار 400ہے۔ چین میں کم ہوتی شرح تولید کے ساتھ وہاں کی آبادی پہلے ہی سکڑ رہی ہے اور اس صدی کے آخر تک ایک ارب سے کم ہونے والی ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انڈیا کی آبادی 204تک بڑھتی رہے گی جو آج کی 1.4ارب سے بڑھ کر 2064 میں 1.7ارب تک پہنچ جائے گی ۔اس سے انڈیا کو ایک ڈیموگرافک ڈیوڈ نیڈ ملے گا ۔ایک اصلاح جس کا مطلب ہے آبادی میں کام کرنے والے افراد میں اضافے کی بدولت ملک کی تیز رفتار اقتصادی ترقی ۔پروفیسر مارک فریزر جو نیویارک میں ڈائریکٹر آف انڈیا چائنہ انسٹیٹیوٹ ہیں کا کہنا ہے کہ انڈیا میں 1990کی دہائی میں بڑھتی ہوئی اصلاحات کا فائدہ اب ہو رہا ہے لیکن افرادی قوت کس حد تک تعلیم یافتہ، صحت مند، ہنر مند اور معیشت میں حصہ ڈالنے کے قابل ہوگی یہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ایپل اور فاکس کان جیسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے باوجود انڈیا کی داخلی بیوروکریسی اور پالیسی میں بار بار ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں عدم استحکام کے باعث کچھ بین الاقوامی سرمایہ کاری کو انڈیا میں سرمایہ کاری سے روک رکھا ہے۔ پروفیسر نے مزید کہا یہ 19 صدی کے خیالات ہیں کہ آبادی جتنی زیادہ ہوگی، آپ اتنے ہی طاقتور ہوں گے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں ،ورلڈ بینک کے مطابق آج کام کرنے کی عمر کے صرف نصف انڈین شہری14 ـ 64 سال کی عمر کے کام کر رہے ہیں یا نوکریوں کی تلاش میں ہیں ۔خواتین کی بات آتی ہے تو یہ تعداد 25فیصد اور کم ہے۔ یہ تعداد چین میں 60فیصد اور یورپین یونین میں 52 فیصد ہے۔ چین کی معیشت 1980اور 1990کی دہائیوں میں ہونے والی متحدہ اصلاحات کے بعد کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ترقی کر چکی ہے لیکن کووڈ عمر رسید آبادی اور مغرب کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اس ملک کی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ انڈیا کی جی ڈی پی پہلے ہی چین کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔اور آئی ایم ایف کے تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے جاری رہنے کا امکان ہے ۔پروفیسر سسپنس بتاتے ہیں کہ اگر چین 2030 تک 4فیصد یا 5فیصد کی شرح سے ترقی کرتا ہے تو یہ متاثر کن ہوگا ۔شاید لوگوں کو لگتا ہو کہ8- 9فیصد کی شرح سے ترقی کرنے والے ملک کے لیے یہ سست اور رفتار اچھی نہیں لیکن ایسا سوچنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔
چین اب زیادہ امریکہ کی طرح ہے۔ ترقی کی شرح کبھی بھی 8،9یا 10 فیصد نہیں رہی ۔چین اور انڈیا دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ لہٰذا عالمی منظر نامے پر دونوں کا علاقائی اثر ورسوخ ہے۔ امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن کا اندازہ ہے کہ بیجنگ کے پاس دستیاب جو جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت نے دہلی کے مقابلے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ چین کی مسلح افواج میں انڈیا کے مقابلے میں تقریبا ًچھ لاکھ فوجی زیادہ ہیں اور اس نے سنجیدگی سے دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری کی ہے۔ پروفیسر فریزر کا کہنا ہے کہ انڈیا، روس اور درآمد شدہ ٹیکنالوجی اور مہارت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جبکہ چین میں فوجی انفراسٹرکچر بہت زیادہ تحقیق اور مقامی پیداوار ہو رہی ہے۔ دفاعی شعبے میں چین کو واضح برتری حاصل ہے تاہم انڈیا کے یورپ اور امریکہ سے بہتر تعلقات ہیں اور یہ وہ ممالک ہیں جہاں دنیا کی طاقتور فوجی قوت موجود ہے ۔پروفیسر فریزر کہتے ہیں کہ انڈو پیسیفک خطے میں انڈیا اہم علاقائی شراکت دار ہو سکتا ہے۔ امریکی حکومت یہاں چین کے گرد سیکورٹی زون بنا رہی ہے جس میں صرف مشرقی ایشیا ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا بھی شامل ہیں۔ اس میں صرف بیرلگاہل کا مغربی حصہ ہی نہیں بلکہ بحر ہند کے علاقے بھی شامل ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے دنیا کے سب سے طاقتور ممالک کے ساتھ چین کا تعلق خراب ہوا ہے مگر روس اور جنوبی افریقہ سے لے کر سعودی عرب اور یورپی یونین تک چین آج بھی 120 سے زیادہ ممالک کے لیے مرکزی اقتصادی شراکت دار ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے کھربوں ڈالر کے انفراسٹرکچر کے ساتھ چین بیرون ملک کافی زیادہ سیاسی اثر رسوخ رکھتا ہے ۔مغرب انڈیا کو اہم علاقائی شراکت دار سمجھتا ہے مگر بیجنگ ان پانچ ملکوں میں سے ہے جن کے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت ہے یعنی یہ کسی بھی بڑے عالمی فیصلے کو ویٹو کر سکتا ہے۔ انڈیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک اس صورتحال کو کئی دہائیوں سے بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اس حوالے سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔سیکورٹی کونسل میں نئے مستقبل ارکان کی ترتیب کے بارے میں کوئی شرط نہیں لگا سکتا ۔ظاہر ہے کہ 1945سے آج تک جنگ کے فاتحین کی جانب سے آرمی سیکورٹی کے فیصلے کیے جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ پروفیسر مائیکل سسپنس اس سے متفق ہیں ووٹنگ کی قوت کسی ملک کی معیشت اور اثر ورسوخ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ کسی نہ کسی لمحے جا کر دنیا کو ان اداروں میں اصلاحات لانی ہو گی ورنہ یہ اپنی اہمیت کھو دیں گے کیونکہ متبادل کھڑے ہو جائیں گے ۔موجودہ متبادل برکس اتحاد ہے جس میں برازیل، روس ،انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ اس کا مقصد شمال کے عالمی اثر ورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ ایک صدی قبل ہالی وڈ نے سنیما کو طاقت کا ہتھیار بنایا اور امریکی اقدار و اثر ورسوخ کو دوسرے ملکوں پر منتقل کیا ۔چین اور انڈیا بھی اس حکمت عملی کو اپنانے میں کامیاب رہے ہیں ۔چین میں 2007کے بعد سے سینما گھروں کی تعداد 20 گنا بڑھی ہے ۔چین میں 80ہزار سے زیادہ سینما گھر ہیں جبکہ امریکہ میں ان کی تعداد 41ہزار اور انڈیا میں 9300 ہے ۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں میڈیا اور کلچرل ا سٹڈیز کی پروفیسر منڈی سو کہتی ہیں کہ عالمی وبا سے قبل چائنہ وڈ نے ہالی وڈ اسٹوڈیوز کو خرید کر یا ان کے ساتھ شراکت کر کے عالمی اثر ورسوخ اور پیداوار بڑھائی تھی اس نے 2020اور 2021 کے دوران امریکی فلم مارکیٹ سے بہتر کارکردگی دکھائی مگر 2022میں یہ کارکردگی 36فیصد تک کم ہو گئی کیونکہ کووڈ کی وجہ سے سینما گھروں کو بند کرنا پڑا۔ بالی وڈ درحقیقت ایشیا کا ہالی وڈ کہلاتا ہے تاہم اکثر لوگ چائنہ وڈ کی اصطلاح سے بے خبر ہیں۔ دنیا بھر میں بالی وڈ کا اثرو رسوخ بہت زیادہ ہے۔ چین میں بھی بالی وڈ کی فلمیں چینی شہریوں کو محظوظ کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چائنا کتنے ہی ہاتھ پاؤں مار لے کوئی راستہ اپنا لے اس کا سپر پاور بننے کا خواب پورا نہیں ہوگا۔