... loading ...
زریں اختر
خبری یو ٹیوب چینل جنہیں ذمہ داری کا احساس ہے ، جو اپنی ساکھ بنانا اور پھر اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، متبادل ذریعہ ابلاغ ثابت ہورہے ہیں۔وہ واقعات جنہیں ابلاغ عامہ کے مرکزی ذرائع (مین اسٹریم میڈیا) پر جگہ نہیں ملتی، انہیں نہ صرف یو ٹیوبر سامنے لا رہے ہیں بلکہ اس کا فالو اپ بھی پیش کرتے ہیں۔ایک اور فریضہ اور اُسلوب جو یہ ادا کر رہے ہیں وہ نیوز فیچر کاہے۔ ایسی ہی ایک خبر یوٹیوبر شاہد ثقلین نے٦ ِ نومبر کو نشر کی، خبرکے مطابق :”حیدر آباد تھل، تحصیل منکیرہ، ضلع بکھر شہر پنجاب کا واقعہ ہے ۔بیٹا جس کا نام توقیر تھا ، اس کا اپنی ماں منظوراں مائی( عمر پچپن سال )سے کسی مسئلے پر تلخ کلامی ہوئی ،جس پر بیٹے نے مشتعل ہو کر گھر میں رکھی کلہاڑی اٹھائی اور حملہ کرکے ماں کو شدید زخمی کر دیا، پولیس کے مطابق اس کے سر پربھی گہری چوٹیں آئیں،لڑکے کا باپ اور گائوں کے اڑوس پڑوس کے لوگ بھاگم بھاگ اسے اسپتال لے جارہے تھے کہ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی ، جو لوگ اس کو لے کر جارہے تھے وہ یہ بتاتے ہیں کہ ماں نے مرنے سے پہلے کہاکہ” میرے بیٹے کا اتنا قصور نہیں ہے ، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ جذباتی ہے،اس کا خیال کرنا ، اسے کچھ نہیں کہنا،اسے وقت پہ کھانا دیتے رہنا اور اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ تمہاری ماں نے تمہیں معاف کردیا۔”والد محمد نواز کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا۔ ملزم فرار ہو گیا تھا ،ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او)شہزاد رفیق اور ان کے عملے نے سراغ لگا کے ملزم کو گرفتار کرلیااور آلہ قتل بھی برآمد کرلیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ وہ سخت سے سخت چالان بنا کے عدالت میں پیش کریں گے تاکہ اس کو قرار واقعی سزا دلوائی جاسکے۔”یو ٹیوبر شاہد ثقلین کہتے ہیں کہ”دنیاوی سزا تو اس کو ملتی رہے گی ، پتا نہیں ملتی بھی ہے یا نہیں ، لیکن جو اس نے کیا وہ دونوں جہانوں میں ناقابل ِ معافی ہے۔” آگے چل کرشاہدثقلین مزید کہتے ہیں کہ ”مرتے وقت بھی اس کی ماں کے دل میں یہی تھا کہ ایسا نہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد لوگ اس کو تکلیف پہنچائیں،اس کو ماریں، اس کو قید کریں،کوئی اس کے ساتھ اس طرح کا کام نہ ہو، اس لیے وہ مرنے سے پہلے بار بار یہ کہہ رہی تھی کہ اس سے کہنا کہ تمہاری ماں نے تمہیں معاف کیا،میں اس سے ناراض نہیں ہوں، میں اس سے خفا ہوکے نہیں جارہی۔”شاہد ثقلین کہتے ہیں کہ ”میں نے ماں کے یہ الفاظ سنے ، یہ چیز تھی بہت ہی عجیب و غریب بہت ہی حیران کن۔”
جی ہاں ! یہ بات واقعی عجیب و غریب اور انتہائی حیران کن تھی کہ کوئی انسان کلہاڑیوں کے وار سہہ کر ، شدیدجسمانی تکلیف میں مبتلااور اس کے ساتھ یہ ذہنی کرب کہ اسے یہ تکلیف اس کے اپنے بیٹے نے دی ہے ، گائوں کی غریب ان پڑھ عورت نے کیسے اپنی تمام تر اذیت کو ایک طرف کر کے سوچ کو مثبت اور مجتمع رکھتے ہوئے، آس پاس کے لوگوں سے وہ سب کہا جو آپ اوپر کے پارے میں پڑھ چکے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں الفاظ ختم ہیںاور سوچ گنگ ۔
زندگی میںلوگوں پر ایسے کڑے مقام اور کبھی لمحے آجاتے ہیں جب سوچنے کے لیے گھڑی بھر کا وقت نہیں ہوتا۔کہیں اولاد کو معاف کرنا اور کہیں انہیں سزا دینا ،دونوں ہی کٹھن ہیں ۔کچھ عرصے قبل کی خبروں کی مثالیں ہیں ۔ ایک ماں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو بھری عدالت میں معاف کردیا۔ سعودی عرب کی یہ خبر بھی بہت چلی جہاں ایک قبیلے کے لوگوں نے اپنی دستاریں زمین پر پھینک کر قاتل کو سزائے موت سے بچانے کے لیے معافیاں مانگیں لیکن معافی نہیں ملی ، اس کے ساتھ وہ وڈیو بھی سامنے آئی کہ قاتل نے کس طرح مقتول کی گاڑی پر حملہ کیا اور فرار ہواجو اس کا ہم عمر دوست اور عم زاد تھا ،دونوں ساتھ وڈیوز بناتے تھے اور وہ دل دوزوڈیو بھی سامنے آئی جب قاتل کی ماںاپنے بیٹے سے آخری ملاقات کرنے گئی۔
ان حالیہ خبروں کے علاوہ کالج کی درسی کتاب میں پڑھا وہ سبق بھی یاد آیا ، ”قرطبہ کا قاضی”،جس کے مصنف سید امتیاز علی تاج ہیںکہ اگر بیٹا قاتل ہو تو قاضی کیسے سزائے موت کا حکم جاری کرتا ہے اور اس پر اپنی نگرانی میں عمل بھی کرواتا ہے۔
اس کالم کا عنوان مشہورانڈین فلم کا ادھورا نام ہے جو قارئین کے ذہن میںبھی فوراََ آگیا ہوگا، مدر آف انڈیا، جس میں ماں اپنے بیٹے پر گولی چلاتی ہے۔
مقتول ماں منطوراں مائی کی تربیت ان میں سے کس نے کی؟کس خبر نے ، کس وڈیو نے ، کس سبق نے ؟ اس کی تہذیب بقول افلاطون روح نے کی یا اس کا بیسویں صدی کی دریافت ڈی آکسی رائبو نیو کلک ایسڈ(ڈی این اے)ہی ایسا تھا ، یا اکیسیویں صدی کے تصور حیاتیاتی الگوردم کی اس میں کوئی کارستانی ہے یا انتہائی سادہ لفظوں میںبس ”ممتا ”، شاعر کی سوچ بھی یہاں ختم ہوجاتی ہے کہ
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یہ حق کی کون سی شکل ہے ؟ یہاں تو حق بھی حیران ہے۔
اس مقتول مہذب ماں کے قاتل ناہنجار بیٹے پر ماں کے آخری الفاظ سن کر کیا بیتی ہوگی؟ اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کے کسی ڈرامے میں وہ کردار اورنگ زیب لغاری نے ادا کیا تھا، جس میں وہ کسی وڈیرے یا جاگیر دار کے حکم پر ماں اور اس کے نومولود بیٹے کو رات کی تاریکی میں اٹھاتے ہیں ،تانگے میں سوار ماں کی گود میںبچہ رو رہا ہوتا ہے ، اورنگ زیب لغاری پیچھے مڑ کر کہتا ہے ، اسے چپ کرا ، بچہ روئے جاتاہے تو وہ بچے کو ماں کی گود سے چھین کر نہر کی طرف اچھال دیتاہے، حویلی پہنچتا ہے ، جاگیر دار پوچھتا ہے کام ہوگیا، کوئی دقت تو نہیں ہوئی، یہاں کردار بوجھل ہے ، چہرے پر کرب کے آثار،وہ بتاتاکہ کیا ہوا ، جاگیر دار کہتاہے ، کوئی نہیں ،چند دنوں کے لیے غائب ہوجائو، پھر اس کو جیل میں دکھاتے ہیں، جاگیر دار اس کو چھڑانے کے لیے تیار،تیرا یہ پہلا تھوڑی ہے ، لیکن وہ سزا کا منتظر ، وہ کہتا ہے کہ جب میں رات کو لیٹتا ہوں تو وہ بچہ میرے سینے پر آکر بیٹھ جاتاہے ، اسے اس اذیت سے نجات چاہیے جو موت ہی اسے دلا سکتی ہے۔
بیٹے کے لیے ماں منظوراں مائی کے الفاظ کہ اس سے کہنا” میں اس سے خفا ہوکر نہیں جارہی ، میں نے اسے معاف کیا، اسے کھانا وقت پہ دیتے رہنا”، کیا اثر کریں گے ؟ کیا اس کو نہیں لگے گا کہ اس کی نجات سزائے موت ہے ، خدا کرے کہ وہ اپنے ضمیر کی سزا بھگتے لیکن ۔۔۔ اس دنیا کی عدالت کو چاہیے کہ وہ ملزم قاتل بیٹے کی ماں کے آخری الفاظ دھیان میںرکھے کہ یہ زخموں سے گھائل مقتول ماں کے اپنے قاتل بیٹے کے لیے اپنی ذات سے بلند آخری خواہش تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔