... loading ...
عماد
یہ کہانی ہے اُس زمانے کی جب سات سمندر پار دیارِ اعظم نامی طاقتور سلطنت کا دبدبہ تمام دنیا پر قائم تھا۔ دیارِ اعظم کا مقصد نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ دیگر سلطنتوں میںبھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانا تھا، جہاں کہیں اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھتا، وہاں خفیہ سازشوں کے ذریعے حالات کا رخ اپنے حق میں موڑ دیتا۔
شاہِ عدل، ایک منصف مزاج اور عوام دوست حکمران تھا جس کی حکومت انصاف اور آزادی کی ضامن سمجھی جاتی تھی۔ وہ دیارِ اعظم کے دباؤ میں آنے کے بجائے اپنی سلطنت کی خود مختاری پر یقین رکھتا تھا، اور اپنے لوگوں کے مفاد کے لیے کسی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکاتا تھا۔ مگر یہ آزادی اور خودمختاری دیارِ اعظم کے لیے ناقابلِ برداشت تھی، کیونکہ ان کے مفادات کو شاہِ عدل کے اصولی فیصلے مسلسل خطرے میں ڈال رہے تھے ۔دیارِ اعظم نے شاہِ عدل کے اقتدار کو کمزور کرنے کے لیے اس کے ہی امیر العساکر کو اپنی چال میں شامل کر لیا تھا۔ امیر العساکر جو اپنے اصل کام سے بڑھ کر سیاسی کھیل میں ماہر تھا ہمیشہ سے محلاتی سازشوں میں مصروف رہتا تھا، پردے کے پیچھے چھپ کر ڈوریں ہلاتا تھا۔ وہ خود ایک بادشاہ گر تھا اور دیارِ اعظم کی طرف سے دی گئی طاقت اور وسائل نے اُسے مزید مضبوط بنا دیا تھا۔
ایک دن، دیارِ اعظم کا خاص سفارتکار امیر العساکر کے سامنے آیا اور اُسے ایک سنہری مہر والا خط پیش کیا۔ خط میں لکھا تھا:
”اے امیر العساکر! وقت آ گیا ہے کہ اپنے مہرے آگے بڑھاؤ اور شاہِ عدل کو اُس کے تخت
سے ہٹا دو۔ اگر تم نے یہ قدم نہ اٹھایا تو تمہاری بقا کا کوئی ضامن نہیں۔ دیارِ اعظم کے ساتھ چلنا
ہی تمہاری فلاح ہے” ۔
امیر العساکر نے خط کو غور سے پڑھا۔ اُس کے چہرے پر ایک پُر اعتماد مسکراہٹ پھیل گئی، جیسے وہ پہلے ہی سب کچھ طے کر چکا ہو۔ دیارِ اعظم کی طرف سے ملنے والی اس آخری وارننگ نے اُسے مزید اکسایا، اور اب اُس کا ارادہ مضبوط تھا کہ وہ جلد ہی شاہِ عدل کو ہٹا کر اپنا کھیل مکمل کرے گا۔امیر العساکر نے ایک رات خفیہ مقام پر سلطنت کے امرا کو جمع کیا اور اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ اس نے ان کے سامنے شاہِ عدل کی معزولی کا منصوبہ پیش کیا اور اُنہیں باور کرایا کہ اگر وہ کامیاب ہوئے تو اُن کی دولت اور عزت میں بے حد اضافہ ہوگا۔ حاضرین
میں سے ایک امیر کو نامزد کیا گیا، جو شاہِ عدل کی معزولی کے بعد سلطنت کی مسند سنبھالنے کا وعدہ لے کر آیا تھا۔ رات کے سناٹے میں، جب شہر کی فصیلیں خاموش تھیں، امیر العساکر نے اپنے منتخب سپاہیوں کو اہم مقامات پر تعینات کر دیا۔ شاہِ عدل کو اچانک اقتدار سے معزول کر دیا
گیا، اور اس کا تخت و تاج طاقتوروں کے ہاتھوں میں منتقل ہو گیا۔شاہِ عدل کی معزولی کی خبر نے سلطنت میں تہلکہ مچا دیا۔ عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، اور شہر کی ہر گلی، چوراہے اور بازار میں لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ شاہِ عدل کے انصاف کی حمایت میں آوازیں بلند ہونے لگیں، اور عوام کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ سلطنت کے حکمرانوں کو اپنی پوزیشن محفوظ رکھنے کے لئے طاقت کا بے رحم استعمال کرنا پڑا۔ امیر العساکر اور نئے امیر نے عوام کی بغاوت کو کچلنے کے لئے ایک سخت جبر کا نظام قائم کر دیا۔ لوگوں کو اٹھا کر ریاستی زندانوں میں پھینک دیا گیا، اور ان پر سخت تشدد کیا جانے لگا۔ بعض کو جیلوں میں بند کر کے کئی دنوں تک بھوکا پیاسا رکھا جاتا،تاکہ وہ اپنے اصولوں سے منحرف ہو جائیں۔ کچھ کو خوف کی فضا میں اذیتوں کا سامنا کرایا جاتا،انہیں قید میں ان کی تمام انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا، حتیٰ کہ راتوں کی خاموشی میں ان پر بے رحمی سے تشدد کیا جاتا تاکہ وہ دراز عرصے تک اس کا عذاب برداشت کریں۔دوسری طرف، بعض کو آٹھ آٹھ گھنٹے تک تیز روشنی میں باندھ کر رکھا جاتا، تاکہ ان کی آنکھوں کی روشنی ختم ہو جائے اور وہ ذہنی اذیت کا شکار ہوں۔ خواتین، بچے ، اور بزرگ بھی اس ظالم نظام سے محفوظ نہیں رہے ۔ ان کو بھی گرفتاری کے دوران بے رحمی سے دھکیل کر باندھ دیا جاتا اور قید میں بھی ان کے ساتھ بے حد زیادتیاں کی جاتی۔
یہ وہ دور تھا جب انصاف کے دعوے کرنے والی طاقتیں اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے بے رحمانہ حد تک جا چکی تھیں۔ اس ساری صورتحال میں شاہِ عدل کی معزولی کے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے صرف حکومتی طاقت اور فیصلوں کا استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ ظلم و جبر کا ایسا غیر انسانی طریقہ اختیار کیا گیا تھا، جس کا مقصد عوام کے دلوں میں بغاوت کی ہر چنگاری کو مٹا دینا تھا۔تمام بڑے لکھاری، دینی رہنما، اور صوفیا کو دربار میں بلا کر انہیں اشرفیوں کی تھیلیاں تھما دی گئیں اور حکم دیا گیا کہ وہ عوام کو یقین دلائیں کہ شاہِ عدل کی معزولی سلطنت کے مفاد میں تھی اور یہ فیصلہ عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ امیر العساکر نے اپنی سازش کو کامیاب بنانے کے لیے دربار کے مختلف طاقتور عناصر کو اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔ اس میں نہ صرف قاضی القضا تھا، جس نے شاہِ عدل کے خلاف مرضی کے فیصلے سنائے ، بلکہ دربار کے دوسرے وزیر، اعلیٰ افسران اور اہم مذہبی شخصیات بھی شامل تھیں۔
طاقت اور اختیار ایک طرف، اور عوام دوسری طرف۔ ان سب نے مل کر ایک ایسا جال بُن دیا کہ شاہِ عدل کو ایک تاریک زندان میں قید کر دیا گیا، جہاں نہ روشنی تھی اور نہ دن رات کا کوئی حساب۔ شاہِ عدل کے خاندان کو بھی گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر چھپا دیا گیا۔ ان سے ایک ہی مطالبہ کیا گیا کہ وہ خود مختاری، آزادی، اور انصاف کے نعرے چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کریں یا جلاوطن ہو جائیں۔ جبر کا نظام شدت اختیار کرتا گیا، اور شاہِ عدل کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔ سلطنت کے ہر گوشے میں مایوسی کا سایا گہرا ہوتا جا رہا تھا، اور لوگ یہ سوچنے لگے کہ شاید ان کا مقدر یہی ہے کہ ظلم اور جبر کے سائے تلے زندگی گزاریں۔ شاہِ عدل کی معزولی کے بعد، ان کے نظریات، ان کے عادلانہ فیصلے ، اور ان کا انصاف، سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا تھا۔ مگر انہی تاریک لمحوں میں، شاہِ عدل نے چپکے سے اپنے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے اپنی قوم تک پیغام پہنچایا۔ یہ پیغام وہی تھا جو اس کی قید میں رہ کر اس کے دل و دماغ میں پنپ رہا تھا:
”میرا جینا مرنا میرے لوگوں کے ساتھ ہے ، اور میں خون کے آخری قطرے تک اس ظلم کے نظام
کے خلاف کھڑا رہوں گا۔ تم لوگ بھی اس ظلم کے نظام کو تسلیم مت کرنا۔ اللہ نے تمہیں پر دیئے ہیں،
تم حقیر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے کیوں ہو”؟
یہ پیغام جیسے ہی عوام تک پہنچا، اس نے مایوسی میں ڈوبے چہروں میں امید کی ایک نئی کرن بھر دی۔ شاہِ عدل کا حوصلہ، اس کی بے مثال جرات، اور اس کا عزم، لوگوں کے دلوں میں ایک نئی جنبش پیدا کرنے لگا۔ لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا:
”اگر شاہِ عدل ظلم کے سامنے نہیں جھک رہا، تو ہم کیوں جھکیں”؟
اور یوں، یہ پیغام ایک شعلہ بن کر پورے سلطنت میں پھیل گیا۔اب لوگوں کے دلوں میں ایک نیا عزم جاگ چکا تھا۔ انہوں نے اپنے اندر کی طاقت کو پہچانا اور فیصلہ کیا کہ وہ بھی اس ظلم کے نظام کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے ۔ یہ پیغام نہ صرف احتجاج تھا، بلکہ ایک نئی تحریک کا آغاز تھا، جو ظلم کے خلاف کھڑی ہونے جا رہی تھی۔ لوگوں میں ایک ایسا جذبہ اور عزم پیدا ہو چکا تھا جو سلطنت کی تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتا تھا۔