... loading ...
سمیع اللہ ملک
اظہارِرائے کی آزادی کامفہوم اورتعریف تویہ ہے کہ کسی کوبھی کھل کراپنانکتہ نظربیان کرنے،سوال اٹھانے،اختلاف اورتنقیدکرنے کی اجازت ہے،لیکن کسی دوسرے کی تذلیل اور کردارکشی کرنے اوردوسروں پرتہمتیں لگاکراس کونقصان پہنچانے کی کسی کواجازت نہیں ہے۔ اظہاررائے کی آزادی میں تنقیدکاحق بجاہے،لیکن یہ خیال رکھنابھی ضروری ہے کہ جہاں تنقیدکی حدختم ہوتی ہے،وہاں سے ہی تذلیل کی سرحدشروع ہوجاتی ہے اورکسی کی تذلیل کرناہرمعاشرے میں براعمل ہے۔کئی لوگ تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبورکر جاتے ہیں اور نفرت انگیز مذہبی وسیاسی تقاریرکرنے،شرانگیزبیانات دینے،کسی کی عزت کوداغدارکرنے،کسی کی توہین،کسی کے وتحقیراورتذلیل کرنے،, مذہب، مسلک،فرقے اورکسی کی محترم شخصیت پرانگلی اٹھانے کورائے کی آزادی سمجھتے ہیں،حالانکہ یہ آزادی رائے کے اخلاقی حق کی کھلی خلاف ورزی اوران کی شعوری پستی کامنہ بولتاثبوت ہے۔دنیاکے کسی بھی معاشرے میں رائے کے اظہارکی ایسی آزادی نہیں دی جاتی، جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں۔ہرمعاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اظہاررائے کی حدود مقررکی ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں1966میں پاس کی گئی ایک قرارداد”آئی سی سی پی آر”کے مطابق ضروری ہے کہ کوئی بھی ایسی تقریریاتحریرجوکسی ملک میں رہنے والے کسی بھی فردیاگروہ کی مذہبی،قومی یانسلی مخالفت یادل آزاری کاسبب بنے اوران کے خلاف نفرت یاحقارت کا اظہار کرے تواس ملک کافرض ہے کہ اس کوروکے اوراس کے خلاف قانون سازی کرے،جبکہ متعددیورپین ممالک میں آزادی اظہار رائے پربہت سی پابندیاں ہیں۔میں آپ کے توسط سے آج یہ بتاناچاہتاہوں کہ26/اکتوبر2016کویورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق نے فیصلہ دیاتھاکہ پیغمبراسلام کی توہین آزادیِ اظہارکی جائزحدوں سے تجاوزکرتی ہے،اوراس کی وجہ سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اوراس سے مذہبی امن خطرے میں پڑسکتاہے۔یہ فیصلہ عدالت نے پیغمرِاسلام کے بارے میں توہین آمیزکلمات کہنے والی آسٹریاسے تعلق رکھنے والی خاتون کے خلاف سزاکے فیصلے کی اپیل پر صادرکیا تھا ۔عدالت کافیصلہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
میں یہاں آپ کوبتاتاچلوں کہ فرانس کے شہرسٹراسبرگ میں واقع ای ایچ سی آرعدالت نے خاتون کوسزادیتے وقت ان کی آزادیِ اظہار اوردوسروں کے مذہبی احساسات کے تحفظ کے حق کابڑی احتیاط سے توازن برقراررکھا۔اس خاتون نے،جس کانام ظاہرنہیں کیا گیا اور انہیں صرف ای ایس کہاجاتاہے،2008اور2009میں اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات کے عنوان کے تحت مختلف تقاریرمیں پیغمبر اسلام کے بارے میں چندکلمات اداکیے تھے جن کی پاداش میں ان پرویاناکی ایک عدالت میں مقدمہ چلااورعدالت نے انہیں فروری 2011 میں مذہبی اصولوں کی تحقیرکامجرم قراردیتے ہوئے480یوروکاجرمانہ،مع مقدمے کاخرچ،عائدکردیا۔اس فیصلے کوآسٹریاکی اپیل کورٹ نے بھی برقرار رکھاتھا۔اس کے علاوہ2013میں عدالت عظمی نے بھی اس مقدمے کوخارج کردیاتھا۔
یہ فیصلہ ججوں کے7رکنی پینل نے دیا۔اس کے بعداس خاتون نے یورپی یونین کے قانون کی انسانی حقوق کے بارے میں شق 10 کا سہارالیتے ہوئے یورپی عدالت میں اپیل کی کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہارکے حق کاتحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔یہاں یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے جس عدالت نے یہ فیصلہ صادرکیاہے،وہ عدالت کل47ججوں پرمشتمل ہے جن کے نام یورپی یونین کے رکن ممالک تجویزکرتے ہیں جبکہ ان کا انتخاب کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کرتی ہے۔اس آسٹرین خاتون نے یہ مقدمہ انسانی حقوق کی شق10کے تحت درج کروایاتھاکہ آسٹریاکی مقامی عدالتوں نے ان کے آزادیِ اظہارکے بنیادی حق کاتحفظ نہ کر کے یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔تاہم ان کی اپیل مستردہوگئی۔
یہ شق نمبر10کیاہے؟شق نمبر10میں جہاں آزادی رائے کا حق دیاگیاہے وہیں دوسرے حصے میں آزادیِ اظہارپرقدغنیں بھی لگائی گئی ہیں اورکہاگیاہے کہ آزادیِ اظہارکے ساتھ فرائض اورحقوق بھی شامل ہیں،اوریہ آزادی کسی جمہوری معاشرے کے قانون کے دائرے کے اندررہتے ہوئے رسوم،حالات،ضوابط کے ماتحت ہے اوراس کی آڑمیں کسی کے جذبات مجروح نہیں کیے جاسکتے۔اس فیصلہ آنے کے بعدیہ پروپیگنڈہ کیاگیاکہ یورپین ممالک بہت معتدل مزاج ہوتے ہیں اوروہ کسی بھی متعصبانہ اورامتیازی رویے کواپنا شعار نہیں بناتے۔یورپ معتدل پسند،آزادخیال اورہرقسم کی آزادی کاقائل ہے اورپوری دنیاکے مذاہب اورانسانوں کے ساتھ اس کارویہ غیر امتیازانہ ہے توایسابالکل بھی نہیں ہے کیوںکہ ہرمعاملے میں ان کے دہرے معیارات واضح اور صاف صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
آخران قوانین کی موجودگی میں فرانس کے صدرکی طرف سے پیغمبراسلام کی توہین کاپس منظرکیاہے؟ایک طویل مدت سے آزادی اظہار کے نام پرپیغمبراسلام سیدنامحمدۖکی توہین ایک تسلسل کے ساتھ کی جارہی ہے۔سوشل میڈیااس بات پرتل گیاہے کہ آپۖکی جس حد تک بھی ممکن ہو،تضحیک اورنعوذباللہ مذاق اڑانے کی کوشش کی جائے جس کی وجہ سے تمام عالم اسلام میں سخت غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ ہر مرتبہ کی توہین،گستاخانہ خاکوں اورتحریروں کے بعدپورے عالم اسلام میں ایک ہلچل مچ جاتی ہے،جلوس نکالے جاتے ہیں ، جلسے ہوتے ہیں اور دنیاکے کونے کونے میں صدائے احتجاج بلندکی جاتی ہے۔اس احتجاج میں صرف مسلمان ہی شریک نہیں ہوتے بلکہ حقیقت کوسمجھنے والے اور زمینی حقائق پرنظر رکھنے والے غیرمسلموں کی بھی ایک بڑی تعدادمسلمانوں کی ہم زبان ہے جواس بات کی علامت ہے کہ پاک ہستیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی تضحیک ایک ایساعمل ہے جو فطرت انسان کی برداشت سے باہرہے۔اسلام ایک ایسامذہب ہے جونہ صرف اب تک بھیجے جانے والے تمام انبیاعلیہ السلام کومانتاہے بلکہ وہ دیگرمذاہب کے مذہبی پیشواں کی عزت و احترام کوبھی نہ صرف دل سے تسلیم کرتاہے بلکہ ان کی بھی وہی عزت وتعظیم کرتاہے جواللہ کے ولیوں اورپیغمبروں کی جاتی ہے کیونکہ ہمیں توقرآن نے یہ سبق دیاہے کہ:اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں،ہم اس کے رسولوں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے۔جس انداز میں رسول اکرم کی توہین کی جاتی ہے اس کے جواب میں مسلمانان عالم وہ سب کچھ نہیں دہراسکتے جوکچھ یہ باطل شیاطین کررہے ہیں کیونکہ ہرپاک ہستی مسلمانوں کیلئے محترم اورقابل تعظیم سمجھی جاتی ہے لہذایہ ممکن ہی نہیں کہ پیغمبراسلام کی توہین کے جواب میں دیگرمذاہب کی پاک ہستیوں یاان کے رسولوں اورپیغمبروں کی تضحیک کی جائے۔ممکن ہے توہین کے جواب میں وہ منتظرہوں کہ مسلمان بھی ان کے رسولوں اورپیغمبروں کی تضحیک پراترآئیں اوران کواس بہانے فتنہ وفسادمچانے کاموقع مل جائے لیکن دنیابھرکے مسلمانوں نے ان کی پستی تک گرجاناگوارہ کرنے کے بجائے احتجاج کی راہ اختیارکی اورکسی بھی متشددانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے دنیابھرمیں پرامن صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں،جس کا آخرکاراللہ کے فضل وکرم سے ایک اچھانتیجہ نکلتاہے اوردنیاکوتسلیم کرناپڑتاہے کہ ہر قسم کی بے غیرتی کواظہاررائے کے حق کانام نہیں دیاجاسکتا۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ2019کی مردم شماری کے مطابق فرانس کی کل آبادی66ملین ہے اوراس وقت 60لاکھ مسلمان فرانس میں مقیم ہیں اورسرکاری رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی سالانہ 4فیصدآبادی میں اضافہ ہورہاہے اورمشہورزمانہ قابل اعتماد”ڈیو”ادارے کے مطابق 2050 تک مسلمان تعداد میں زیادہ ہوں جائیں گے اورملک کا اقتدار مسلمانوں کے پاس جاسکتاہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ یورپ میں فرانس واحدملک ہے جہاں78فیصدمسلمان”پریکٹسنگ مسلمان”ہیں اور84فیصدمسلمان ماہِ رمضان میں پورے روزے رکھتے ہیں اور مساجد کی رونقیں دیکھ کران شدت پسندلوگوں کی نیندیں حرام ہورہی ہیں جبکہ اسی ادارے کے مطابق فرانس میں 60فیصدافراد”ملحد”بے دین ہوچکے ہیں اورعیسائیت دم توڑرہی ہے جس کی وجہ سے ویٹی کن کافی تشویش میں مبتلاہے جبکہ فرانس سمیت سارے یورپ میں تیزی سے اسلام قبول کرنے والوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہورہاہے۔ایک مشہورعالمی جریدے کی شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فرانس کی 60 فیصد آبادی ”ولد الزنا” یعنی ناجائز بچوں پرمشتمل ہے۔زناکے پیداواربچوں کی یہ تعداد دنیا میں کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔اب جہاں کی اکثر آبادی کے متعلق ان کے اپنے جریدے یہ انکشاف کرتے ہیں، وہاں دنیا کی پاکیزہ ترین ہستی رسول اللہ ۖ کااحترام کیسے کیاجائے گا؟
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں مذہبی فرقہ واریت کے باوجودتضحیک کے ایسے واقعات رونمانہیں ہوئے جیساکہ مغرب کی سول سوسائٹی میں دیکھنے کو ملتاہے لیکن یہاں بھی اظہارِ آزادی کابیہودہ سلسلہ ایساچل نکلاہے کہ بغیرکسی تصدیق کے سوشل میڈیاکے توسط سے قیامت خیزمناظردیکھنے کومل جاتے ہیں اورگھربیٹھی بیٹی کے نام ایسے واقعات منسوب کرکے اسی کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے جبکہ وہ خود اپنے والدین کے ہمراہ ساری میڈیاکے سامنے اس سارے من گھڑت واقعہ سے لاتعلقی کااظہارکرنے کیلئے مجبورکردی جاتی ہے لیکن اس واقعہ نے ملک بھرمیں بیٹیوں کے والدین کے دلوں پرجوصدمات کے کوہِ گراں گرائے ہیں،اوراس سے ملک کاجوخطیرنقصان ہواہے،اس کا مداوا کیسے ہوگا۔کیا ہم اپنے خالق رب کریم کے اس حکم کی نافرمانی کے مرتکب نہیں ہوئے جس نے واضح طورپر فرمایاہے کہ :اے ایمان والو! اگر کوئی شریرآدمی تمہارے پاس کوئی خبرلاوے توخوب تحقیق کرلیا کرو، کبھی کسی قوم کونادانی سے کوئی ضررنہ پہنچادو،پھراپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ (الحجرات:6)اورایساہی ارشادمیرے آقاۖکابھی ہے: آدمی کے جھوٹاہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہرسنی ہوئی بات بیان کر دے۔
ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھرارضِ وطن میں آئینی ترامیم کے حوالے سے قوم کوبے شمارشکوک وشبہات میں مبتلاکردیاگیاہے اور اس میں حکومت کی عجلت اورادراوں کی نااہلی اورتقسیم نے جلتی آگ پرپانی پھینکنے کی بجائے تیل پھینک کراس کے لاؤکومزید بھڑکادیاہے۔یقیناان ترامیم کی تفصیلات اوراس کے نتائج سامنے بھی آناشروع ہوگئے ہیں لیکن نجانے کیوں مجھے سات سوسال قبل لکھی گئی ابن خلدون کی اس تحریرمیں مستقبل کے تصورکامنظرنامہ نظرآرہاہے:
”مغلوب قوم کوہمیشہ فاتح کی تقلیدکاشوق ہوتاہے،فاتح کی وردی اوروردی پرسجے تمغے،طلائی بٹن اوربٹنوں پرکنندہ طاقت کی علامات ، اعزازی نشانات،اس کی نشست و برخاست کے طورطریقے،اس کے تمام حالات،رسم ورواج،اس کے ماضی کواپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں،حتی کہ وہ حملہ آورفاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتورسے شکست کھاتے ہیں، اس کی کمال مہارت پرآنکھیں بندکرکے یقین رکھتے ہیں۔محکوم معاشرہ اخلاقی اقدارسے دستبردار ہوجاتاہے،ظلمت کادورانیہ جتناطویل ہوتاہے،ذہنی وجسمانی طورپرمحکوم سماج کاانسان اتناہی جانوروں سے بھی بدترہوجاتاہے، ایک وقت آتاہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کیلئے زندہ رہتاہے۔
جب ریاستیں ناکام اورقومیں زوال پذیرہوتی ہیں توان میں نجومی،بھکاری،منافق،ڈھونگ رچانے والے،چغل خور،کھجورکی گٹھلیوں کے قاری،درہم ودینارکے عوض فتوی فروش فقیہ،جھوٹے راوی،ناگوارآوازوالے متکبرگلوکار،بھداڑانے والے شاعر،غنڈے،ڈھول بجانے والے،خودساختہ حق سچ کے دعویدار،زائچے بنانے والے،خوشامدی، طنزاورہجو کرنے والے،موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے۔ہرروزجھوٹے روپ کے نقاب آشکارہوتے ہیں مگریقین کوئی نہیں کرتا، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتاوہ اس فن کاماہرمانا جاتاہے،اہل ہنراپنی قدرکھودیتے ہیں،نظم ونسق ناقص ہوجاتاہے،گفتارسے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتاہے، ایمانداری کوجھوٹ کے ساتھ،اورجہادکودہشتگردی کے ساتھ ملادیاجاتاہے۔
جب ریاستیں بربادہوتی ہیں،توہرسودہشت پھیلتی ہے اورلوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں،عجائبات ظاہرہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں،بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اوردشمن دوست میں بدل جاتاہے،باطل کی آوازبلندہوتی ہے اورحق کی آوازدب جاتی ہے،مشکوک چہرے زیادہ نظرآتے ہیں اورملنسارچہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں،حوصلہ افزاخواب نایاب ہو جاتے ہیں اورامیدیں دم توڑجاتی ہیں،عقلمندکی بیگانگی بڑھ جاتی ہے،لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اورجماعت،گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
مبلغین کے شورشرابے میں دانشوروں کی آوازگم ہوجاتی ہے۔بازاروں میں ہنگامہ برپاہوجاتاہے اوروابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں، قوم پرستی،حب الوطنی،عقیدہ اورمذہب کی بنیادی باتیں ختم ہوجاتی ہیں اورایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔بالآخرحالات اس نہج پرپہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتاہے اوروہ ہے ہجرت، ہر کوئی ان حالات سے فراراختیارکرنے کی باتیں کرتاہے،تارکین وطن کی تعدادمیں اضافہ ہونے لگتاہے،وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازوسامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتاہے،چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں،وطن یادوں میں اوریادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں۔
ابن خلدون خدا آپ پررحم کرے!کیاآپ ہمارے مستقبل کی جاسوسی کررہے تھے؟آپ سات صدیاں قبل وہ دیکھنے کے قابل تھے جو ہم آج تک دیکھنے سے قاصرہیں۔کاش یہ تحریرہمارے حکمران طبقے اورعوام تک بھی پہنچ جائے جو آج اپنے تئیں عقل کل سمجھتے ہوئے تیزی سے بربادی کی گڑھے میں گرتے جارہے ہیں۔امت مسلمہ کی پستی کی داستان ہمارے مسلم دانشوروں نے بہت پہلے بھانپ لی تھی کیونکہ وہ لوگ کوتاہ نظرنہ تھے، بلکہ دیدہ بینارکھتے تھے۔کاش ہم اب بھی سنبھل جائیں توامت اپنے بگڑے کوسنوارنے کی کوئی صورت نکال پائے لیکن اس کیلئے جس باضمیراورمخلص قیادت کی ضرورت ہے اس کاآج شدید فقدان ہے۔اظہارررائے کی آزادی کوضروراستعمال کریں لیکن اس بات کاخیال ضروررکھیں کہ کل کلاں کوئی اللہ کے ہاں آپ کی شکایت نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔