... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت نے 10 لاکھ فوجی اہلکاروں کی بندوقوں کے زیر سایہ کشمیر کے تنازعہ خطے میں کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھان لی ہے۔ حراستی ہلاکتیں ، خواتین پر دست اندازیاں، عزتوں پر حملے اور املاک کی تباہی روزانہ کا معمول بنادیا گیا ہے۔ کٹھ پتلی حکومتیں جعلی الیکشن کا ڈرامہ رچا کر قائم کی جاتی ہیں جو جمہوریت کا دعوی تو کرتی ہیں اور سیاسی سرگرمیوں پر کٹھ پتلی حکومت کے رکاوٹ نہ ڈالنے کا یقین تو دلاتی ہیں لیکن وہ ایک لمحے کے لئے بھی کشمیری حریت پسند عوام کو اظہار رائے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔بھارت کے اس دعوے کو کہ جموں و کشمیر اس کا ”اٹوٹ انگ” ہے کو مسترد کر دیا کہ بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیرقیادت استصواب رائے کا مطالبہ کیا تاکہ کشمیری عوام کی مرضی کا تعین کیا جا سکے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا مطالبہ ہے۔ کشمیر کی اس متنازع حیثیت کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے تسلیم کیا ہے، جموں و کشمیر ہندوستان کا ‘اٹوٹ انگ’ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ کبھی ہو گا۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت ہندوستان سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے اور جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنے حق خود ارادیت کا استعمال کرنے کے قابل بنانے کے لیے قانونی طور پر پابند ہے۔ بھارتی قابض فورسز نے وحشیانہ طاقت کے ذریعے آزادی کے حامی حریت رہنمائوں کو قید میں رکھا ہوا ہے اور بہت سے کشمیری رہنما مشتبہ حالات میں زیر حراست جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بھارت نے تنازعہ کا پرامن حل تلاش کرنے بجائے پاکستان کے خلاف جنگ کا سہارا لیا ہے اور اب اس نے آزاد جموں و کشمیر پر ”قبضہ” کرنے کی دھمکی دی لیکن وہ یاد رکھے کہ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مقبوضہ جموںوکشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے علاقے میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہارکرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ علاقے ی ابتر صورتحال کا نوٹس لیکر تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے۔ قابض فوجیوں نے 5 اگست 2019 سے اب تک 875 کشمیریوں کو شہید، 24سو سے زائد کو زخمی اور تقریباً 24ہزار 15افرد کو گرفتار کیا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سلامتی کونسل فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر مسلسل عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔ فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام کے حق خودارادیت کو بے دردی سے روندا گیا اور کئی دہائیوں سے غیر ملکی قبضے کو برقرار رہنے دیا گیا ہے۔ ان طریقوں کوعصری تناظر میں مستقل طور پر واضح کرنا ضروری ہے جن کے ذریعے اس اصول کو عالمی سطح پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں خواہ بحرالکاہل کے تنازعات کے پرامن تصفیہ پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب VI یا VIIجس میں نفاذ کی کارروائی شامل ہیں کے تحت منظور کی گئیں اور رکن ممالک چارٹر کے آرٹیکل 25کے تحت کونسل کے فیصلوں پر قانونی طور پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ جمو ںو کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے جموںو کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام علاقے کا درجہ قبول نہیں کرنا چاہتے اور وقت آگیا ہے کہ اسے اب ختم کر دینا چاہیے۔ پنچایتی انتخابات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور یہ جلد ہی کرائے جائیں گے۔یاد رہے اگست 2019 میں نریندر مودی حکومت کے ذریعہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد اس علاقے کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی بحالی کیلئے قرارداد منظور کرلی۔آرٹیکل 370 کی بحالی کی قرارداد نائب وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما سریندر سنگھ چوہدری نے پیش کی۔مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے سپیکر عبدالرحیم راتھر نے ارکان سے رائے طلب کی جس پر بی جے پی ارکان کو چھوڑ کر ارکان اسمبلی کی اکثریت نے قرارداد کی حمایت کی، بعد ازاں سپیکر نے اسے باضابطہ طور پر منظور کرلیا۔سریندر سنگھ چوہدری کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کا مقصد دفعہ 370 کے تحت ان خصوصی دفعات کو بحال کرانا ہے جن کے تحت جموں و کشمیر کو خود مختاری حاصل تھی۔اجلاس میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گیا جب بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) نے مطالبہ کیا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف قرارداد سے متعلق پی ڈی پی رہنما کے بیان کو حذف کیا جائے اور قرارداد کو مسترد کر دیا جائے۔
بھارتی سرکار اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈے سے یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس اور تشویشناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اک بار پھر بھارت کی جانب سے انتخابات کے نام پر ریاست میں رچائے جانے والا ڈرامہ مسترد کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل انتخاب نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی خواہشات کے تحت آزادانہ ماحول میں استصواب رائے یا ریفرنڈم کا انعقاد ہے۔ بصورت دیگر جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔