... loading ...
ریاض احمدچودھری
غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بجلی کا بحران شدت اختیارکرگیا ہے اور علاقہ بجلی کی وافر مقدارپیداکرنے کے باوجود اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترس رہا ہے۔مقامی طور پر وافرمقدار میںبجلی کی پیداوارکے باوجود جموں وکشمیر میں بجلی کی قلت پائی جاتی ہے کیونکہ بجلی کا بیشتر حصہ بھارت منتقل کیا جاتا ہے جس سے مقامی لوگوں کو بجلی کی بار بار بندش اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موسم سرما کے مہینوں میں صورتحال بدترہو جاتی ہے جب بجلی کی طلب عروج پر ہوتی ہے جس سے خطے کے توانائی کے وسائل کے انتظام کے حوالے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔قابض حکام کا کہنا ہے کہ دریائے چناب میں جو بڑے بڑے پن بجلی منصوبوں کا منبع ہے، پانی کی سطح میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے جس سے بجلی کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ یہ دریا 16ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بگلیہار پن بجلی منصوبے کے ایک عہدیدارنے بتایاکہ پانی کی سطح کم ہونے سے ہماری بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔گرمیوں میں ہم پوری صلاحیت کے ساتھ 900میگاواٹ پیدا کرتے ہیں لیکن سردیوں میں پیداوار تقریبا نصف رہ جاتی ہے۔یہ کمی خاص طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسائل کا باعث ہے۔ مقامی طور پر پیدا ہونے والی بجلی شمالی بھارت کو منتقل ہونے کی وجہ سے اکثر بجلی کی غیراعلانیہ کٹوتی ہوتی رہتی ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بجلی کی صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بجلی کی کھپت 2834 میگاواٹ ہے جبکہ بھارتی حکومت 1400 میگاواٹ سے بھی کم بجلی ریاست کو فراہم کر رہی ہے۔کشمیر پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹڈ(کے پی ڈی سی ایل)نے بجلی کی مزید لوڈ شیڈنگ کا اعلان کیا ہے۔
جموں وکشمیر کو بھارتی ادارے نیشنل ہائیڈرو پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی) سے روزانہ چھ گھنٹے کے لیے 1400 میگاواٹ اور باقی 18 گھنٹے کے لیے 1000 میگاواٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کے باعث عام لوگوں اور تاجر برادری کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بحران سے نمٹنے میں ناکامی پر قابض حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ بجلی کی غیر اعلانیہ اور طویل لوڈشیڈنگ سے وادی کشمیر میں معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے بجلی کی طویل بندش سے ان کے روزمرہ کے معمولات متاثر ہورہے ہیں۔سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ بحران کی ایک بنیادی وجہ بجلی کی ناکافی خریداری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت جان بوجھ کر بجلی کا بحران پیدا کر رہی ہے تاکہ خطے کی معیشت اور دیگر شعبوں کو تباہ کیا جا سکے۔ بجلی کی عدم فراہمی سے لوگ اور کاروبار یکساں طور پر متاثر ہورہے ہیں۔ایک مقامی رہائشی جاوید احمد نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ہمیں روزانہ صرف چند گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔بجلی کی قلت کی وجہ سے تاجر برادری کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے، دکاندار اور کاروباری حضرات کام کو جاری رکھنے کے لیے مہنگے جنریٹرز پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
بھارت موسم میں دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان میں پانی کا بحران پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب مون سون میں دریاؤں کا پانی عروج پر ہوتا ہے تو یہ اپنے ڈیم کا پانی بھی پاکستان کی جانب چھوڑ دیتا ہے، جس کے باعث پاکستانی دریاؤں میں سیلاب کی سی صورت پیدا ہوجاتی ہے، جس سے فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور ہزاروں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں، جب کہ مال مویشی اور انسانی جانوں کا ضیاع الگ ہوتا ہے۔ بھارت کی اس آبی جارحیت کو آبی دہشت گردی کہنا زیادہ بہتر ہو گا، کیونکہ بھارت کی مذموم کارروائیاں دن بدن شر انگیز ہوتی جا رہی ہیں اور اس سے کسی بھی مہذب اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یہ کسی عالمی معاہدے کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں،حالانکہ انڈس واٹر ٹریٹی پر اس نے بھی دستخط کئے تھے اور اس پر عمل کرنا اس کے لئے لازم ہے۔ ویسے تو بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے کئی ڈیم بنا رہا ہے، لیکن چند ماہ قبل بھارت نے آبی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں دریائے اجھ پر پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے منصوبے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔اجھ ڈیم ساڑھے6 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کاحامل منصوبہ ہوگا، جس کے ذریعے بھارت پانی کا رخ موڑ کر اپنی30 ہزار ایکڑ اراضی کوسیراب کرے گا، اس سلسلے میں بھارت کے سینٹرل واٹرکمیشن نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں دریائے اجھ پر ڈیم تعمیر کرنے کی تفصیلی رپورٹ جموں و کشمیر حکومت کے پاس جمع کرادی ہے۔رپورٹ منظور ہوتے ہی فوری طور پر اجھ ڈیم کی تعمیر شروع کردی جائے گی۔ دریائے اجھ دریائے راوی کی ایک شاخ ہے جو کٹھوعہ سے پاکستان میں داخل ہوتی ہے۔ بھارت پاکستانی دریاؤں کے پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے ایک عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں مختلف ڈیموں کی تعمیر کر رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں لانا، معاشی اور زرعی طور پر اسے کمزور کرنا ہے۔
دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم اور دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر بھارت کے اسی ناپاک منصوبے کا حصہ ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف پاکستان عالمی عدالت انصاف کا دروازہ تک کھٹکھٹا چکا ہے، مگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر تلا بیٹھا ہے۔پاکستان اپنا کیس بہترین انداز سے عالمی سطح پر لڑ رہا ہے اور یقیناًبھارت کو اس میدان میں بھی شکست فاش کا سامنا کرنا پڑے گا۔