وجود

... loading ...

وجود

مقبوضہ وادی میں بجلی کا1400میگاواٹ شارٹ فال

جمعرات 07 نومبر 2024 مقبوضہ وادی میں بجلی کا1400میگاواٹ شارٹ فال

ریاض احمدچودھری

غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بجلی کا بحران شدت اختیارکرگیا ہے اور علاقہ بجلی کی وافر مقدارپیداکرنے کے باوجود اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترس رہا ہے۔مقامی طور پر وافرمقدار میںبجلی کی پیداوارکے باوجود جموں وکشمیر میں بجلی کی قلت پائی جاتی ہے کیونکہ بجلی کا بیشتر حصہ بھارت منتقل کیا جاتا ہے جس سے مقامی لوگوں کو بجلی کی بار بار بندش اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موسم سرما کے مہینوں میں صورتحال بدترہو جاتی ہے جب بجلی کی طلب عروج پر ہوتی ہے جس سے خطے کے توانائی کے وسائل کے انتظام کے حوالے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔قابض حکام کا کہنا ہے کہ دریائے چناب میں جو بڑے بڑے پن بجلی منصوبوں کا منبع ہے، پانی کی سطح میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے جس سے بجلی کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ یہ دریا 16ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بگلیہار پن بجلی منصوبے کے ایک عہدیدارنے بتایاکہ پانی کی سطح کم ہونے سے ہماری بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔گرمیوں میں ہم پوری صلاحیت کے ساتھ 900میگاواٹ پیدا کرتے ہیں لیکن سردیوں میں پیداوار تقریبا نصف رہ جاتی ہے۔یہ کمی خاص طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسائل کا باعث ہے۔ مقامی طور پر پیدا ہونے والی بجلی شمالی بھارت کو منتقل ہونے کی وجہ سے اکثر بجلی کی غیراعلانیہ کٹوتی ہوتی رہتی ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بجلی کی صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بجلی کی کھپت 2834 میگاواٹ ہے جبکہ بھارتی حکومت 1400 میگاواٹ سے بھی کم بجلی ریاست کو فراہم کر رہی ہے۔کشمیر پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹڈ(کے پی ڈی سی ایل)نے بجلی کی مزید لوڈ شیڈنگ کا اعلان کیا ہے۔
جموں وکشمیر کو بھارتی ادارے نیشنل ہائیڈرو پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی) سے روزانہ چھ گھنٹے کے لیے 1400 میگاواٹ اور باقی 18 گھنٹے کے لیے 1000 میگاواٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کے باعث عام لوگوں اور تاجر برادری کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بحران سے نمٹنے میں ناکامی پر قابض حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ بجلی کی غیر اعلانیہ اور طویل لوڈشیڈنگ سے وادی کشمیر میں معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے بجلی کی طویل بندش سے ان کے روزمرہ کے معمولات متاثر ہورہے ہیں۔سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ بحران کی ایک بنیادی وجہ بجلی کی ناکافی خریداری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت جان بوجھ کر بجلی کا بحران پیدا کر رہی ہے تاکہ خطے کی معیشت اور دیگر شعبوں کو تباہ کیا جا سکے۔ بجلی کی عدم فراہمی سے لوگ اور کاروبار یکساں طور پر متاثر ہورہے ہیں۔ایک مقامی رہائشی جاوید احمد نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ہمیں روزانہ صرف چند گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔بجلی کی قلت کی وجہ سے تاجر برادری کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے، دکاندار اور کاروباری حضرات کام کو جاری رکھنے کے لیے مہنگے جنریٹرز پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
بھارت موسم میں دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان میں پانی کا بحران پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب مون سون میں دریاؤں کا پانی عروج پر ہوتا ہے تو یہ اپنے ڈیم کا پانی بھی پاکستان کی جانب چھوڑ دیتا ہے، جس کے باعث پاکستانی دریاؤں میں سیلاب کی سی صورت پیدا ہوجاتی ہے، جس سے فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور ہزاروں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں، جب کہ مال مویشی اور انسانی جانوں کا ضیاع الگ ہوتا ہے۔ بھارت کی اس آبی جارحیت کو آبی دہشت گردی کہنا زیادہ بہتر ہو گا، کیونکہ بھارت کی مذموم کارروائیاں دن بدن شر انگیز ہوتی جا رہی ہیں اور اس سے کسی بھی مہذب اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یہ کسی عالمی معاہدے کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں،حالانکہ انڈس واٹر ٹریٹی پر اس نے بھی دستخط کئے تھے اور اس پر عمل کرنا اس کے لئے لازم ہے۔ ویسے تو بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے کئی ڈیم بنا رہا ہے، لیکن چند ماہ قبل بھارت نے آبی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں دریائے اجھ پر پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے منصوبے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔اجھ ڈیم ساڑھے6 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کاحامل منصوبہ ہوگا، جس کے ذریعے بھارت پانی کا رخ موڑ کر اپنی30 ہزار ایکڑ اراضی کوسیراب کرے گا، اس سلسلے میں بھارت کے سینٹرل واٹرکمیشن نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں دریائے اجھ پر ڈیم تعمیر کرنے کی تفصیلی رپورٹ جموں و کشمیر حکومت کے پاس جمع کرادی ہے۔رپورٹ منظور ہوتے ہی فوری طور پر اجھ ڈیم کی تعمیر شروع کردی جائے گی۔ دریائے اجھ دریائے راوی کی ایک شاخ ہے جو کٹھوعہ سے پاکستان میں داخل ہوتی ہے۔ بھارت پاکستانی دریاؤں کے پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے ایک عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں مختلف ڈیموں کی تعمیر کر رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں لانا، معاشی اور زرعی طور پر اسے کمزور کرنا ہے۔
دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم اور دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر بھارت کے اسی ناپاک منصوبے کا حصہ ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف پاکستان عالمی عدالت انصاف کا دروازہ تک کھٹکھٹا چکا ہے، مگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر تلا بیٹھا ہے۔پاکستان اپنا کیس بہترین انداز سے عالمی سطح پر لڑ رہا ہے اور یقیناًبھارت کو اس میدان میں بھی شکست فاش کا سامنا کرنا پڑے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

بریک تھروکا امکان وجود جمعرات 21 نومبر 2024
بریک تھروکا امکان

انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی وجود بدھ 20 نومبر 2024
انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ وجود منگل 19 نومبر 2024
ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر