وجود

... loading ...

وجود

ایران کا پلہ بھاری ہوگا!

بدھ 06 نومبر 2024 ایران کا پلہ بھاری ہوگا!

جاوید محمود

حزب اللہ کی جانب سے رواں سال 30 ستمبر کو تل ابیب میں موساد کے ہیڈ کوارٹر پر جو میزائل فائر کیا گیا تھا وہ اطلاعات کے مطابق ایران کا تیار کردہ قادر1بلسٹک میزائل تھا۔ یہ میزائل 700سے 1000کلوگرام تک دھماکہ خیز مواد لے جا سکتا ہے۔ یہ ایک پوری عمارت کو تباہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ میسر کا کہنا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے اس حملے کو روکنے میں کامیاب ہوا کیونکہ اس کے پاس ڈیوڈ سیلنگ نامی ایئر ڈیفنس سسٹم ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اسے امریکہ کی جانب سے 8ارب 70کروڑ روپے کا امدادی پیکیج موصول ہوا ہے تاکہ اسرائیل اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھ سکے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس پیکیج میں 3ارب 50کروڑ جنگی ساز و سامان کے لیے مختص کیے گئے ہیں ۔جبکہ پانچ ارب 20کروڑ آئرن ڈوم ڈیوڈ سلنگ اور جدید لیزر سسٹم کو بہتر کرنے پر خرچ ہوں گے۔ اسرائیل نے 26اکتوبر کی درمیانی شب ایران میں عسکری اہداف پر میزائل حملے کیے ۔دوسری جانب ایران نے اپنی فوجی اڈوں پر حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا گیا لیکن کچھ مقامات پر محدود نقصان ہوا۔ حملوں کے بعد ایران نے اپنی فضائی حدود بند کر کے تمام پروازیں معطل کر دی ہیں۔ یہ حملے ایران کی جانب سے گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل پر 200بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعد کیے گئے۔ اسرائیل نے کہا تھا کہ وہ جوابی حملہ کرے گا لیکن اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کب اور کن مقامات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں دونوں ملک اپنی اپنی جگہ پر بظاہر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں تو سوال یہ ہے کہ آخر ان میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟
ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریبا 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے اور ایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچا کر یہ تو ثابت کر دیا کہ جس میزائل پروگرام پر وہ کافی عرصے سے کام کر رہا ہے اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ ایران کے میزائل پروگرام کو مشرقی وسطیٰ میں سب سے بڑا اور متنوع سمجھا جاتا ہے۔ 2022میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ مکینزی نے کہا تھا کہ ایران کے پاس3000سے زیادہ بیلسٹک میزائل ہیں ۔دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں اگر کسی ملک کے پاس جدید ترین میزائلوں کا ذخیرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ میزائلوں کا یہ ذخیرہ اس نے گزشتہ چھ دہائیوں میں امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے اشتراک یا اپنے طور پر ملک میں تیار کیے ہیں۔ سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کئی ملکوں کو میزائل برآمد بھی کرتا ہے۔ اسرائیل کے مشہور میزائلوں میں ڈی لائیلہ جبرئیل ہارپون کو جریکو1 جریکو 2 جریکو 3 یوپئی شامل ہیں ۔لیکن اسرائیل کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جو کہ کسی بھی قسم کے میزائل یا ڈرون حملے کو بروقت روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔غزہ سے حماس اور لبنان سے حزب اللہ کے راکٹوں کو متواتر فضا میں ہی تباہ کر کے وہ آج تک اپنا لوہا منواتا رہا ہے۔ اسرائیلی میزائل ڈیفنس انجینئرنگ اوزی روبن کے مطابق آئرن روم کی طرح کا دنیا میں کوئی اور دفاعی نظام نہیں اور یہ بہت کارآمد شارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے ۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران اسرائیل سے بہت بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی اسرائیل سے 10 گنا زیادہ ہے لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگانا قطعی درست نہیں ہوگا کہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتور ملک ہے ۔اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنی دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے ۔اگر ایران کا دفاعی بجٹ 10 ارب ڈالر کے قریب ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بجٹ 24ارب ڈالر سے ذرا زیادہ ہے۔ جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریبا چھ گنا زیادہ ہیں۔ ایران کے فعال فوجیوں کی تعداد 6 لاکھ 10 ہزار جبکہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔ اسرائیل کے پاس جس چیز کی برتری ہیں وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بہترین جدید طیاروں سے لیس فضائیہ ہے ۔اس کے پاس241لڑاکا طیارے اور 48تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں جبکہ ایران کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد 186 ہے ۔اور اس کے بیڑے میں صرف 13 جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ تو نہیں کیا لیکن اگرچہ وہ جدید بنیادوں پر نہ بھی ہو پھر بھی ایران کی بحری فوج کے پاس 101 جہاز جبکہ اسرائیل کے پاس 67 ہیں۔ ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعد سے اپنے میزائل سسٹم اور ڈرونز پر زیادہ کام کیا اور شارٹ اور لانگ رینج میزائل اور ڈرونز بنائے جو اس نے مشرقی وسطیٰ میں اپنے حریفوں کو بھی مہیا کیے ہیں۔ حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر داغے گئے میزائلوں کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ ایرانی ساخت کے تھے۔ ایران کے میزائلوں میں شہاب 1میزائل ہے جس کی رینج 300 کلومیٹر ہے جبکہ اسی کا دوسرا ورژن شہاب 2پانچ سو کلومیٹر تک مار سکتا ہے۔ شہاب سیریز کا تیسرا میزائل شہاب تھری 2000 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی میزائلوں میں 700کلومیٹر تک مار کرنے والا ذوالفقار 750 کلومیٹر تک مار کرنے والا قائم 1 بھی شامل ہے۔ ایران کے میزائلوں میں ایک اہم اضافہ فتح110 ہائپر سوئنگ میزائل ہیں جو 300 سے 500 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اگرچہ ایران نے سینکڑوں میزائل اسرائیل پر داغے ہیں لیکن دوسرے کے ملک میں جا کر گوریلا آپریشن کرنے کا زیادہ تجربہ اسرائیل کا ہے اور وہ ہمیشہ ہی اس میں کامیاب ہوا ہے لیکن جب بات ہوتی ہے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کی تو ایران کے رقبے اور فوج میں زیادہ تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آتا ہے کہ اسرائیل ایسا نہیں کرے گا۔ اس کی برتری فضائی طاقت میزائل اور ڈرونز ہیں اور اگر اس نے رد عمل ظاہر کیا تو ممکنہ طور پر انہی کے ذریعے ہی کرے گا۔ ویسے ماضی میں ایران کے ہائی پروفائل فوجی اور سویلین شخصیات بھی اسی طرح کے حملوں میں ہلاک کی گئی ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے اکثر اوقات اس کا باقاعدہ اعتراف نہیں کیا لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا ہے۔
اس جنگ کا ایک اور پہلو سائبر اٹیک بھی ہو سکتا ہے اور اس جگہ اسرائیل کافی کمزور لگتا ہے ۔وجہ صاف ہے کہ ایران کا دفاعی نظام اسرائیل کے دفاعی نظام جتنا ایڈوانس نہیں ہے۔ اس لیے اسرائیل کے نظام پر سائبر حملہ زیادہ آسان ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران اور اسرائیل میں تناؤ مشرقی وسطی میں بڑی جنگ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ایران کے پاس شہادت کا جذبہ ہے جبکہ اسرائیل اس جذبے سے محروم ہے۔ ایران واحد اسلامی ملک ہے جو اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہے اور وہ یمن اور لبنان کو بھی ہر طرح کی مدد فراہم کر رہا ہے۔ اگر یہ جنگ چھڑی تو بظاہر لگتا ہے کہ ایران کا پلہ بھاری ہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مودی کے ساتھی اڈانی پر فراڈ کا الزام وجود جمعرات 05 دسمبر 2024
مودی کے ساتھی اڈانی پر فراڈ کا الزام

مندروں کے نیچے بدھ عبادت گاہوں کے آثار وجود جمعرات 05 دسمبر 2024
مندروں کے نیچے بدھ عبادت گاہوں کے آثار

سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟ وجود بدھ 04 دسمبر 2024
سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟

یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی وجود بدھ 04 دسمبر 2024
یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی

درگاہ اجمیر شریف کو مندر بنانے کی سازش وجود بدھ 04 دسمبر 2024
درگاہ اجمیر شریف کو مندر بنانے کی سازش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر