... loading ...
جاوید محمود
حزب اللہ کی جانب سے رواں سال 30 ستمبر کو تل ابیب میں موساد کے ہیڈ کوارٹر پر جو میزائل فائر کیا گیا تھا وہ اطلاعات کے مطابق ایران کا تیار کردہ قادر1بلسٹک میزائل تھا۔ یہ میزائل 700سے 1000کلوگرام تک دھماکہ خیز مواد لے جا سکتا ہے۔ یہ ایک پوری عمارت کو تباہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ میسر کا کہنا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے اس حملے کو روکنے میں کامیاب ہوا کیونکہ اس کے پاس ڈیوڈ سیلنگ نامی ایئر ڈیفنس سسٹم ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اسے امریکہ کی جانب سے 8ارب 70کروڑ روپے کا امدادی پیکیج موصول ہوا ہے تاکہ اسرائیل اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھ سکے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس پیکیج میں 3ارب 50کروڑ جنگی ساز و سامان کے لیے مختص کیے گئے ہیں ۔جبکہ پانچ ارب 20کروڑ آئرن ڈوم ڈیوڈ سلنگ اور جدید لیزر سسٹم کو بہتر کرنے پر خرچ ہوں گے۔ اسرائیل نے 26اکتوبر کی درمیانی شب ایران میں عسکری اہداف پر میزائل حملے کیے ۔دوسری جانب ایران نے اپنی فوجی اڈوں پر حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا گیا لیکن کچھ مقامات پر محدود نقصان ہوا۔ حملوں کے بعد ایران نے اپنی فضائی حدود بند کر کے تمام پروازیں معطل کر دی ہیں۔ یہ حملے ایران کی جانب سے گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل پر 200بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعد کیے گئے۔ اسرائیل نے کہا تھا کہ وہ جوابی حملہ کرے گا لیکن اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کب اور کن مقامات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں دونوں ملک اپنی اپنی جگہ پر بظاہر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں تو سوال یہ ہے کہ آخر ان میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟
ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریبا 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے اور ایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچا کر یہ تو ثابت کر دیا کہ جس میزائل پروگرام پر وہ کافی عرصے سے کام کر رہا ہے اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ ایران کے میزائل پروگرام کو مشرقی وسطیٰ میں سب سے بڑا اور متنوع سمجھا جاتا ہے۔ 2022میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ مکینزی نے کہا تھا کہ ایران کے پاس3000سے زیادہ بیلسٹک میزائل ہیں ۔دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں اگر کسی ملک کے پاس جدید ترین میزائلوں کا ذخیرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ میزائلوں کا یہ ذخیرہ اس نے گزشتہ چھ دہائیوں میں امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے اشتراک یا اپنے طور پر ملک میں تیار کیے ہیں۔ سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کئی ملکوں کو میزائل برآمد بھی کرتا ہے۔ اسرائیل کے مشہور میزائلوں میں ڈی لائیلہ جبرئیل ہارپون کو جریکو1 جریکو 2 جریکو 3 یوپئی شامل ہیں ۔لیکن اسرائیل کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جو کہ کسی بھی قسم کے میزائل یا ڈرون حملے کو بروقت روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔غزہ سے حماس اور لبنان سے حزب اللہ کے راکٹوں کو متواتر فضا میں ہی تباہ کر کے وہ آج تک اپنا لوہا منواتا رہا ہے۔ اسرائیلی میزائل ڈیفنس انجینئرنگ اوزی روبن کے مطابق آئرن روم کی طرح کا دنیا میں کوئی اور دفاعی نظام نہیں اور یہ بہت کارآمد شارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے ۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران اسرائیل سے بہت بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی اسرائیل سے 10 گنا زیادہ ہے لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگانا قطعی درست نہیں ہوگا کہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتور ملک ہے ۔اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنی دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے ۔اگر ایران کا دفاعی بجٹ 10 ارب ڈالر کے قریب ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بجٹ 24ارب ڈالر سے ذرا زیادہ ہے۔ جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریبا چھ گنا زیادہ ہیں۔ ایران کے فعال فوجیوں کی تعداد 6 لاکھ 10 ہزار جبکہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔ اسرائیل کے پاس جس چیز کی برتری ہیں وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بہترین جدید طیاروں سے لیس فضائیہ ہے ۔اس کے پاس241لڑاکا طیارے اور 48تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں جبکہ ایران کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد 186 ہے ۔اور اس کے بیڑے میں صرف 13 جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ تو نہیں کیا لیکن اگرچہ وہ جدید بنیادوں پر نہ بھی ہو پھر بھی ایران کی بحری فوج کے پاس 101 جہاز جبکہ اسرائیل کے پاس 67 ہیں۔ ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعد سے اپنے میزائل سسٹم اور ڈرونز پر زیادہ کام کیا اور شارٹ اور لانگ رینج میزائل اور ڈرونز بنائے جو اس نے مشرقی وسطیٰ میں اپنے حریفوں کو بھی مہیا کیے ہیں۔ حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر داغے گئے میزائلوں کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ ایرانی ساخت کے تھے۔ ایران کے میزائلوں میں شہاب 1میزائل ہے جس کی رینج 300 کلومیٹر ہے جبکہ اسی کا دوسرا ورژن شہاب 2پانچ سو کلومیٹر تک مار سکتا ہے۔ شہاب سیریز کا تیسرا میزائل شہاب تھری 2000 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی میزائلوں میں 700کلومیٹر تک مار کرنے والا ذوالفقار 750 کلومیٹر تک مار کرنے والا قائم 1 بھی شامل ہے۔ ایران کے میزائلوں میں ایک اہم اضافہ فتح110 ہائپر سوئنگ میزائل ہیں جو 300 سے 500 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اگرچہ ایران نے سینکڑوں میزائل اسرائیل پر داغے ہیں لیکن دوسرے کے ملک میں جا کر گوریلا آپریشن کرنے کا زیادہ تجربہ اسرائیل کا ہے اور وہ ہمیشہ ہی اس میں کامیاب ہوا ہے لیکن جب بات ہوتی ہے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کی تو ایران کے رقبے اور فوج میں زیادہ تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آتا ہے کہ اسرائیل ایسا نہیں کرے گا۔ اس کی برتری فضائی طاقت میزائل اور ڈرونز ہیں اور اگر اس نے رد عمل ظاہر کیا تو ممکنہ طور پر انہی کے ذریعے ہی کرے گا۔ ویسے ماضی میں ایران کے ہائی پروفائل فوجی اور سویلین شخصیات بھی اسی طرح کے حملوں میں ہلاک کی گئی ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے اکثر اوقات اس کا باقاعدہ اعتراف نہیں کیا لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا ہے۔
اس جنگ کا ایک اور پہلو سائبر اٹیک بھی ہو سکتا ہے اور اس جگہ اسرائیل کافی کمزور لگتا ہے ۔وجہ صاف ہے کہ ایران کا دفاعی نظام اسرائیل کے دفاعی نظام جتنا ایڈوانس نہیں ہے۔ اس لیے اسرائیل کے نظام پر سائبر حملہ زیادہ آسان ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران اور اسرائیل میں تناؤ مشرقی وسطی میں بڑی جنگ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ایران کے پاس شہادت کا جذبہ ہے جبکہ اسرائیل اس جذبے سے محروم ہے۔ ایران واحد اسلامی ملک ہے جو اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہے اور وہ یمن اور لبنان کو بھی ہر طرح کی مدد فراہم کر رہا ہے۔ اگر یہ جنگ چھڑی تو بظاہر لگتا ہے کہ ایران کا پلہ بھاری ہوگا۔