وجود

... loading ...

وجود

ناکامیوں اور بربادیوں کی داستان

منگل 05 نومبر 2024 ناکامیوں اور بربادیوں کی داستان

میری بات/روہیل اکبر

راجن پور سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ میں کشتی پر بیٹھا پانی کی موجوں کو دور تک اٹھکیلیاں کرتے ہوئے دیکھ کر حیران ہورہا تھا کہ ہم لوگ بھی عجیب لوگ ہیںصبح سے شام تک قیدی نمبر 804 اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آتے ۔ایک طرف پٹواریوں کا واویلا ہے تو دوسری طرف یوتھیوں کا بھی شور شرابا ہے۔ اسی لڑائی میں ملک اندھیروں میں ڈوب رہا ہے ۔زراعت اور بجلی دونوں کا پانی سے گہرا تعلق ہے اور یہی چیز ہمارے پاس وافر موجود ہے جسے ہم بہت ہی خوبصورتی سے ضائع کرنے میں مصروف ہیں۔زراعت سے منسلک زمیندار رو رہے ہیں، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ہماری انڈسٹری بند ہوچکی ہے اور تو اور اب گھروں کے چولہے بھی بند ہیں۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران ہیں کہ ایک دوسرے کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کررہے ہیں اور پھر انہیں اذیتیں دے کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اپنے کپڑے تک بیچنے والے اور قرضوں سے جان چھڑوانے والے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھا رہے ہیں۔ پابندیاں اتنی زیادہ ہیں انہیں پوچھنے پر بھی پابندی ہے اور دوسری طرف دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ روز نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ چین نے بغیر انسانی محنت ڈرون اور ریموٹ کے مدد سے 58 کلومیٹر روڈ کی تعمیر مکمل کرکے اک عجیب وغریب اور حیران کن ایجاد سے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ جاپان میں ایسی سڑکیں بنا دی گئی ہیں جو گاڑیوں کو چارج بھی کررہی ہیں۔ سابق ٹوئٹر اور موجودہ ایکس کے مالک ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس نے امریکہ کے ایک چھوٹے سے ساحلی قصبے بوکا چیکا ٹیکساس میں عالمی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کردیا ہے جہاں انہوںنے 300 ٹن وزنی اور 25 منزلہ عمارت کے برابر ایک راکٹ کو کامیابی کے ساتھ زمین پر واپس بحفاظت اتار لیا ہے ۔یہ کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے اب خلا میں انسان کا آنا جانا تقریباً اتنا ہی آسان اور سستا ہو جائے گا، جتنا آج ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک کا سفرہے۔
اس نئی دنیا میں ہمارا مقام کہاں ہو گا؟ اس کا فیصلہ اب ہم نہیں بلکہ وہ کریں گے جو اس ٹیکنالوجی اور سوچ کے مالک ہوں گے کمزور اور نااہل انسانوں کے لیے شاید نو آبادیاتی دور کی طرح ایک اور دور غلامی کا آغاز ہونے والا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم سب ہونگے ہم نے تو آج تک اپنا پانی کھلے دل سے ضائع کیا ۔دریائے سندھ پر کوئی ڈیم نہیں بنا سکے اور نہ ہی اس دریا سے کوئی فائدہ اٹھا سکے، بلکہ جب بھی سیلاب آتا ہے تو یہی دریا ہمارے لیے مصیبت بن جاتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہی دریا جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا اور دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔ چین کے علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک ذیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے ۔کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل “مانسرور” ہے جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اسی جھیل سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا اور بھی نکلتے ہیں ۔ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے ۔گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے ۔برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔
ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 عیسوی میں “ولیم مور کرافٹ” نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرور نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے “سیون ہیڈن” 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر “سنگی کباب” یا “سینگے کباب” کے علاقے میں جا پہنچا جہاں بہنے والی ندی “گارتنگ” یا “گارتانگ” جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے ۔گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں ۔وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔ دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے۔ پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر اسکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریاآ ملتا ہے۔ اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے، تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس اٹک کے مقام پر دریائے کابل بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے ۔دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے ۔کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے، اسی مقام پر کالا باغ ڈیم بھی بننا تھا جو ہمارے سیاسی رہنمائوں نے بننے نہیں دیا۔ کسی نے کہا کہ ہماری لاشوں سے گزر کر بنا سکتے ہو تو بنا لو۔ آدھا ڈیم بنا کر چھوڑ دیا گیا جو اصل میں ہماری ترقی کا راستہ تھا جسے سب نے مل جل کر بند کردیا اور آج ہم سطح غربت سے نیچے کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں ،جنہوں نے اس ڈیم کی مخالفت کی وہ پہلے بھی خوشحال تھے، اب بھی مزے میں ہیں اور جن لوگوں نے اس دریا کے پانی سے فائدہ اٹھا کر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا تھا۔ وہ لوگ وڈیروں کے اس فیصلے کے بعد دریا کے ساتھ ہی بہہ گئے اور ان کی نسلیں ابھی تک ہر سال دریائے سند ھ کے سیلابی ریلوں میں ڈوب کر اپنی پسماندگی اور جہالت کی برسی مناتے ہیں۔اسی مقام پر ہی دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریابھی اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں اپناپانی شامل کردیتا ہے ۔مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے ۔جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم ، چناب ، راوی ، ستلج ، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں ۔گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں سے ہوتا ہوا حیدرآباد کے پہلو سے گزر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گزر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔
اسی دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان کا نام انڈیا پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں ۔اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں ۔یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے ۔اس دریا کے کنارے دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا ۔قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے ۔یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی شیر دریا کہلاتا ہے۔ یوں یہ دریا چین کے تبت اور لداخ سے ہوتا ہوا ہندستان سے گھومتا ہواپاکستان کے حسین ترین علاقوں گلگت ، اسکردو ، استور نانگا پربت کے پہاڑی سلسلوں اور میدانی علاقوں سے بل کھاتا ہوا آخر کار ہماری ناکامیوں اور بربادیوں کی داستان سناتا ہوا بڑے پانیوں میںگم ہوجاتا ہے اور ہم پوری قوم گم سم بنی بیٹھی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا وجود جمعرات 14 نومبر 2024
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!

مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ ! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ !

ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی وجود بدھ 13 نومبر 2024
ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی

دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں ! وجود بدھ 13 نومبر 2024
دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر