وجود

... loading ...

وجود

سیاسی آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے

منگل 05 نومبر 2024 سیاسی آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے

رفیق پٹیل

جن ملکوں کی قیادت نے اپنے عوام کو خوشحال بنانے ، انہیں با اختیار بنانے ، ان کی رائے کا احترام کرنے ،ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور ملک کی ترقی کے لیے انہیں سرگر م اور متّحد رکھنے کے لیے اقدامات کیے ،لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے وسائل کو استعمال کیا ،امن و امان قائم کیا، جرائم کا خاتمہ کیا ، بے ایمانی اور بد عنوانی پر قابو پایا، انصاف کے اداروں کو مضبوط کیا ،وہ تیز رفتار ترقّی کی جانب گامزن ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کی بر سر اقتد ار اشرافیہ اس سادہ سے فارمو لے کے استعمال کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ملک میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگئی ہے، جسے عالمی میڈیا نے عوام کی نمائندہ تسلیم نہیں کیا۔ اب حکمران جماعتوں کے قا ئد ین اور ان کے بعض ہم خیال جس میں مبصّرین بھی شامل ہیں ،یہ تصّور کررہے ہیں کہ عوام پر مہنگی بجلی،مہنگے پٹرول ، بجلی و پانی کی فراہمی میں رکا وٹ ،صحت کی ناقص سہولیات اور بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم اور بھاری ٹیکسوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے اور وہ حکمرانوں کی واہ واہ کر رہے ہیں ۔اس خام خیا لی کے ساتھ وہ سب اچھا ہے کا راگ گارہے ہیں۔
حقیقت سے فرار کا یہ رویّہ قطعی طور پر دانشمند انہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال خرا ب ہے نئی آئینی ترمیم نے عوام کو مزید بے اختیار اور سیاسی طور پر کمزور کردیا جس پر بھارت کے مشہور انگریزی اخبا ر ٹائمز آف انڈیا نے سرخی لگا ئی ہے کہ ” موت کے سنّا ٹے والی تاریک رات میں عد لیہ کے گلے میں پھندہ ڈال دیا گیا” ۔ان تمام عوامل کی وجہ سے موجود ہ حکمرانون کی ساکھ عوام میں مسلسل کم ہورہی ہے ۔ان کے مخالفین کی تعداد میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جس میں شدید غصّے کی کیفیت ہے۔ یہ کیفیت ایسی ہے جیسے کوئی پہاڑ آتش فشاں کی شکل اختیارکر رہا ہو اس میں اند ر ہی اند لاوا اُبل رہا ہو ا ور قریبی علاقوں کے اعلیٰ عہدے پر فائز لوگ اس سے بے خبر ہو ں یا آتش فشاں سے نکلنے والے دھوئیں کو نظر انداز کرکے اپنی موج مستی کی کیفیت سے باہر آنے کو تیّار نہ ہوں۔ اس کا واضح ثبوت حال ہی میں ماہر معیشت قیصر بنگالی کا حکومتی عہدے سے استعفیٰ دینا ہے۔ استعفیٰ دینے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”پاکستانی معیشت تباہی سے دوچار ہے آمدنی کے مقابلے میں اخراجا ت بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ حکمران معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں”۔ ایسا ہی رویّہ بنگلہ دیش میں بھی تھا۔ بنگلہ دیش میں بھی سابق وزیر اعظم حسینہ واجد نے اپنے تمام مخالفین کو قید کرکے تما م اختیارات حاصل کرلیے تھے۔ عدلیہ اور فوج کو بھی ساتھ ملالیا تھا لیکن اچانک عوامی طوفان نے عوامی لیگ کے رہنما ؤ ں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا اور باقی بچ جانے والے عوامی لیگ کے جو رہنما غصّے سے بپھرے ہوئے ہجوم کے گھیرے میں آگئے ۔ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی اورکئی رہنماؤ ں کو تشدّد کا نشانا بنا یا گیا۔
پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کو اس قسم کے حالا ت نہیں پید ا کرنے چاہیے کہ نوبت عوام کے بپھرے ہجوموں کے بے قابو ہونے تک پہنچ جائے۔ حکومت اگر بڑھتی ہوئی غربت،، بیروزگاری اور مہنگا ئی پر قابو پانے میں ناکام ہوگی اور سیاسی معاملات میں رائے عامہ کا احترام نہیں کرے گی، ایسی صورت میں پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے۔ ان کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد والی کیفیت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسی کسی بھی تباہ کن صورت حال سے بچنے کی ضرورت ہے ۔ہمارا پڑوسی ملک بھارت جسے ہم اپنا دشمن تصّور کرتے ہیں اور اس سے مقابلہ بھی کرنا چاہتے ہیں ،اس نے کسی حد تک جمہوریت اورقانون کی حکمرانی کو مختلف نشیب و فراز کے با وجو د برقرار رکھا ۔وہاں مغربی ممالک کے مقابلے کی جمہوریت نہیں لیکن انتخابی عمل کے تسلسل کو برقرا ر رکھا گیا ۔دھاندلی بہت کم ہوئی اوراجتماع کی آزادی پر رکا وٹ سے بھی گریزکیا گیا۔ آج وہ روس سے سستے داموں تیل خرید کر اسے صا ف کرکے دنیا بھر میں فروخت کرکے حیران کن حد تک منافع کما رہا ہے۔ 2022 میں اس کی پٹرولیم پروڈکٹس کی ایکسپورٹ86.2 بلین ڈالر تھی۔ بھارت نے جمہوریت کے سفر کو جاری رکھنے کے علاوہ میرٹ کے نظام پر سختی سے عمل کیا ۔معیار تعلیم کوانتہائی اہمیت دی ۔نتیجے میں انتہائی قابل انتظامی افسران کی فوج تیا ر ہوگئی جس میں بدعنوانی کا رجحان کم ہے اب بھارت کی توجّہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے پر ہے جس میں امن و امان ،ٹیکس کی مراعات، ،سرکاری دفاتر کی رکاوٹوں اور رشوت کے خاتمے جیسے مختلف اقدامات پر ہے ۔بھارت میں بے انتہا مسائل ہیں لیکن اس نے اپنی دنیا کی سب سے بڑی آبادی، 22صوبائی زبانوں جو انگریزی اور ہندی کے علاوہ ہیں ،پچاس سے زائد مختلف ثقافتوں، 9بڑے مذاہب کے باوجود اپنے اتحاد کو قائم رکھا ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ترقّی کی خواہش رکھتے ہیں۔ بھارت سے مقابلہ بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے برسر اقتدار گروہ ذاتی مفا دا ت کو قربان کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ افغانستاں میں چین سے ٹرین کا راستہ قائم ہوگیا ۔وہا ں چینی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ وسط ایشیا ء سے بھی سرمایہ کاری شروع ہوگئی ہے ۔اب بھی ہم آنکھ بند کرکے بیٹھے ہیں ۔پاکستان میں بھی بے ایمانی اور بد عنوانی پر قابو پانے کے ساتھ عوام پر بھروسہ کیا جائے تو یہی عوام پاکستان کی قسمت بد ل سکتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان محض جغرافیائی حدود کا نا م نہیں بلکہ اس میں رہنے والے باشندوں کا نام ہے۔ اس کے آئین کو مقدّم رکھے بغیر ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے ۔اس کے ابتدائی صفحات میں تحریر ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد حاکمیت عوام کی ہے اور وہ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندوں کو قانون سازی کا حق دیں گے۔ اس کے لیے منصفانہ انتخابات ضروری ہیں ۔اگر منصفانہ انتخابات نہیں ہوتے اور غیر نمائندہ پارلیمنٹ کے ذریعے ملک چلایا جائے اور سا تھ میں اسی آئین کا حلف بھی لیا جائے اس کے بعد ہماری خواہش ہو کہ دنیا ہمیں ایما ن دا ر کہے کون اس عمل کی تعریف کرے گا ۔دنیا کو بے وقوف سمجھنا آسان ہے لیکن دنیا کے سامنے اپنی اچھی ساکھ کے لیے ایماند ار ی ،شفّافیت اور عوام کے بھر پور اعتماد کی ضرورت ہے، جس طرح کسی منظّم ادارے میں کسی فیل ہونے والے کی بھرتی نہیں کی جاسکتی اسی طرح نتخابات میں دوسری ،تیسری اور چوتھی پوزیشن والے کو کامیاب قرار دینا سیاسی نظم وضبط کے خلاف ہے۔ اس عمل سے سیاسی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجا تا ہے۔ دور حا ضر میں اب یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی اصل دفاعی قوّت اس کے عوام ہوتے ہیں۔ اگر وہ خوشحال اور با اختیارہونگے تو ملک دفاعی اور معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوگا۔ ایک شفّاف منصفانہ نظام عوام کی خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔
بے ایمانی ،اقربا پروری، میرٹ کے خاتمے ، بد عنوانی اور رشوت ستانی کو جاری رکھنے سے ترقی اور خوشحالی محض جاگتے میں خواب دیکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ نتیجے میں معاشرہ اند ر سے کھوکھلا ہوتا رہے گا۔ رفتہ رفتہ مزید افراتفری، لاقانونیت بڑھتی جائے گی ۔اس وقت بھی ایک سیاسی آتش فشاں پھٹنے کو ہے کیا اس کے روکنے کا کوئی انتظا م ہے ؟


متعلقہ خبریں


مضامین
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا وجود جمعرات 14 نومبر 2024
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!

مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ ! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ !

ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی وجود بدھ 13 نومبر 2024
ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی

دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں ! وجود بدھ 13 نومبر 2024
دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر