... loading ...
رفیق پٹیل
جن ملکوں کی قیادت نے اپنے عوام کو خوشحال بنانے ، انہیں با اختیار بنانے ، ان کی رائے کا احترام کرنے ،ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور ملک کی ترقی کے لیے انہیں سرگر م اور متّحد رکھنے کے لیے اقدامات کیے ،لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے وسائل کو استعمال کیا ،امن و امان قائم کیا، جرائم کا خاتمہ کیا ، بے ایمانی اور بد عنوانی پر قابو پایا، انصاف کے اداروں کو مضبوط کیا ،وہ تیز رفتار ترقّی کی جانب گامزن ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کی بر سر اقتد ار اشرافیہ اس سادہ سے فارمو لے کے استعمال کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ملک میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگئی ہے، جسے عالمی میڈیا نے عوام کی نمائندہ تسلیم نہیں کیا۔ اب حکمران جماعتوں کے قا ئد ین اور ان کے بعض ہم خیال جس میں مبصّرین بھی شامل ہیں ،یہ تصّور کررہے ہیں کہ عوام پر مہنگی بجلی،مہنگے پٹرول ، بجلی و پانی کی فراہمی میں رکا وٹ ،صحت کی ناقص سہولیات اور بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم اور بھاری ٹیکسوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے اور وہ حکمرانوں کی واہ واہ کر رہے ہیں ۔اس خام خیا لی کے ساتھ وہ سب اچھا ہے کا راگ گارہے ہیں۔
حقیقت سے فرار کا یہ رویّہ قطعی طور پر دانشمند انہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال خرا ب ہے نئی آئینی ترمیم نے عوام کو مزید بے اختیار اور سیاسی طور پر کمزور کردیا جس پر بھارت کے مشہور انگریزی اخبا ر ٹائمز آف انڈیا نے سرخی لگا ئی ہے کہ ” موت کے سنّا ٹے والی تاریک رات میں عد لیہ کے گلے میں پھندہ ڈال دیا گیا” ۔ان تمام عوامل کی وجہ سے موجود ہ حکمرانون کی ساکھ عوام میں مسلسل کم ہورہی ہے ۔ان کے مخالفین کی تعداد میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جس میں شدید غصّے کی کیفیت ہے۔ یہ کیفیت ایسی ہے جیسے کوئی پہاڑ آتش فشاں کی شکل اختیارکر رہا ہو اس میں اند ر ہی اند لاوا اُبل رہا ہو ا ور قریبی علاقوں کے اعلیٰ عہدے پر فائز لوگ اس سے بے خبر ہو ں یا آتش فشاں سے نکلنے والے دھوئیں کو نظر انداز کرکے اپنی موج مستی کی کیفیت سے باہر آنے کو تیّار نہ ہوں۔ اس کا واضح ثبوت حال ہی میں ماہر معیشت قیصر بنگالی کا حکومتی عہدے سے استعفیٰ دینا ہے۔ استعفیٰ دینے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”پاکستانی معیشت تباہی سے دوچار ہے آمدنی کے مقابلے میں اخراجا ت بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ حکمران معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں”۔ ایسا ہی رویّہ بنگلہ دیش میں بھی تھا۔ بنگلہ دیش میں بھی سابق وزیر اعظم حسینہ واجد نے اپنے تمام مخالفین کو قید کرکے تما م اختیارات حاصل کرلیے تھے۔ عدلیہ اور فوج کو بھی ساتھ ملالیا تھا لیکن اچانک عوامی طوفان نے عوامی لیگ کے رہنما ؤ ں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا اور باقی بچ جانے والے عوامی لیگ کے جو رہنما غصّے سے بپھرے ہوئے ہجوم کے گھیرے میں آگئے ۔ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی اورکئی رہنماؤ ں کو تشدّد کا نشانا بنا یا گیا۔
پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کو اس قسم کے حالا ت نہیں پید ا کرنے چاہیے کہ نوبت عوام کے بپھرے ہجوموں کے بے قابو ہونے تک پہنچ جائے۔ حکومت اگر بڑھتی ہوئی غربت،، بیروزگاری اور مہنگا ئی پر قابو پانے میں ناکام ہوگی اور سیاسی معاملات میں رائے عامہ کا احترام نہیں کرے گی، ایسی صورت میں پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے۔ ان کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد والی کیفیت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسی کسی بھی تباہ کن صورت حال سے بچنے کی ضرورت ہے ۔ہمارا پڑوسی ملک بھارت جسے ہم اپنا دشمن تصّور کرتے ہیں اور اس سے مقابلہ بھی کرنا چاہتے ہیں ،اس نے کسی حد تک جمہوریت اورقانون کی حکمرانی کو مختلف نشیب و فراز کے با وجو د برقرار رکھا ۔وہاں مغربی ممالک کے مقابلے کی جمہوریت نہیں لیکن انتخابی عمل کے تسلسل کو برقرا ر رکھا گیا ۔دھاندلی بہت کم ہوئی اوراجتماع کی آزادی پر رکا وٹ سے بھی گریزکیا گیا۔ آج وہ روس سے سستے داموں تیل خرید کر اسے صا ف کرکے دنیا بھر میں فروخت کرکے حیران کن حد تک منافع کما رہا ہے۔ 2022 میں اس کی پٹرولیم پروڈکٹس کی ایکسپورٹ86.2 بلین ڈالر تھی۔ بھارت نے جمہوریت کے سفر کو جاری رکھنے کے علاوہ میرٹ کے نظام پر سختی سے عمل کیا ۔معیار تعلیم کوانتہائی اہمیت دی ۔نتیجے میں انتہائی قابل انتظامی افسران کی فوج تیا ر ہوگئی جس میں بدعنوانی کا رجحان کم ہے اب بھارت کی توجّہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے پر ہے جس میں امن و امان ،ٹیکس کی مراعات، ،سرکاری دفاتر کی رکاوٹوں اور رشوت کے خاتمے جیسے مختلف اقدامات پر ہے ۔بھارت میں بے انتہا مسائل ہیں لیکن اس نے اپنی دنیا کی سب سے بڑی آبادی، 22صوبائی زبانوں جو انگریزی اور ہندی کے علاوہ ہیں ،پچاس سے زائد مختلف ثقافتوں، 9بڑے مذاہب کے باوجود اپنے اتحاد کو قائم رکھا ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ترقّی کی خواہش رکھتے ہیں۔ بھارت سے مقابلہ بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے برسر اقتدار گروہ ذاتی مفا دا ت کو قربان کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ افغانستاں میں چین سے ٹرین کا راستہ قائم ہوگیا ۔وہا ں چینی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ وسط ایشیا ء سے بھی سرمایہ کاری شروع ہوگئی ہے ۔اب بھی ہم آنکھ بند کرکے بیٹھے ہیں ۔پاکستان میں بھی بے ایمانی اور بد عنوانی پر قابو پانے کے ساتھ عوام پر بھروسہ کیا جائے تو یہی عوام پاکستان کی قسمت بد ل سکتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان محض جغرافیائی حدود کا نا م نہیں بلکہ اس میں رہنے والے باشندوں کا نام ہے۔ اس کے آئین کو مقدّم رکھے بغیر ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے ۔اس کے ابتدائی صفحات میں تحریر ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد حاکمیت عوام کی ہے اور وہ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندوں کو قانون سازی کا حق دیں گے۔ اس کے لیے منصفانہ انتخابات ضروری ہیں ۔اگر منصفانہ انتخابات نہیں ہوتے اور غیر نمائندہ پارلیمنٹ کے ذریعے ملک چلایا جائے اور سا تھ میں اسی آئین کا حلف بھی لیا جائے اس کے بعد ہماری خواہش ہو کہ دنیا ہمیں ایما ن دا ر کہے کون اس عمل کی تعریف کرے گا ۔دنیا کو بے وقوف سمجھنا آسان ہے لیکن دنیا کے سامنے اپنی اچھی ساکھ کے لیے ایماند ار ی ،شفّافیت اور عوام کے بھر پور اعتماد کی ضرورت ہے، جس طرح کسی منظّم ادارے میں کسی فیل ہونے والے کی بھرتی نہیں کی جاسکتی اسی طرح نتخابات میں دوسری ،تیسری اور چوتھی پوزیشن والے کو کامیاب قرار دینا سیاسی نظم وضبط کے خلاف ہے۔ اس عمل سے سیاسی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجا تا ہے۔ دور حا ضر میں اب یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی اصل دفاعی قوّت اس کے عوام ہوتے ہیں۔ اگر وہ خوشحال اور با اختیارہونگے تو ملک دفاعی اور معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوگا۔ ایک شفّاف منصفانہ نظام عوام کی خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔
بے ایمانی ،اقربا پروری، میرٹ کے خاتمے ، بد عنوانی اور رشوت ستانی کو جاری رکھنے سے ترقی اور خوشحالی محض جاگتے میں خواب دیکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ نتیجے میں معاشرہ اند ر سے کھوکھلا ہوتا رہے گا۔ رفتہ رفتہ مزید افراتفری، لاقانونیت بڑھتی جائے گی ۔اس وقت بھی ایک سیاسی آتش فشاں پھٹنے کو ہے کیا اس کے روکنے کا کوئی انتظا م ہے ؟