وجود

... loading ...

وجود

ہر خبر سے باخبری یا نِری بے خبری

پیر 04 نومبر 2024 ہر خبر سے باخبری یا نِری بے خبری

زریں اختر

مائی نیم از کرسچن ، یو آر واچنگ کینگرو انگلش؛ یہ انگلش سکھانے کا یوٹیوب چینل ہے جس میں سر کرسچن پڑھاتے ہیں۔ ان کے پڑھانے کا غیر روایتی انداز ،کہیں باغیانہ بھی کیوں کہ انگریزی زبان سیکھنے سکھانے کے روایتی انداز کے چینلوں کے اساتذہ نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا کہ ہمارے قدیم طریقہ تدریس کو غلط کیوں کہتے ہو، حالاں کہ سر کرسچن جو بھی ثابت کرتے ہیں وہ علم لسانیات کے تحقیقی مضامین کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ یہ بات تذکرتاًنکل آئی سرِ دست موضوع یہ نہیں۔ ذخیرئہ الفاظ (وکیبلری) کی ایک وڈیو میں سر کرسچن نے بتایا کہ آپ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کو اپنی کس قسم یا شعبے سے متعلق ذخیرئہ الفاظ میں اضافہ کرنا ہے ، ہر شعبے کے الفاظ آپ کی ضرورت یا کام کے نہیں۔
شعبہ ابلاغِ عامہ جامعہ کراچی کے استاد پروفیسرمتین الرحمن مرتضیٰ کا بڑا کام اسٹینلے جے باران کی کتاب ماس کمیونیکیشن تھیوری کا طالب علموں سے ترجمہ کرانا اور اسے مرتب کرناہے ۔ اس کتاب کی انتہائی خاص بات یہ ہے کہ یہ میڈیا کے نظریات کو الگ سے پیش نہیں کرتی بلکہ یہ ان کا جائزہ زمانی و مکانی تناظر میں لیتی ہے ۔سائنسی و تکنیکی ایجادات، آبادیوں کی منتقلی ، عالمی سیاسی منظرنامہ اور اس میں ابھرنے والا میڈیا کا کردار ۔۔۔ سماجی عوامل و تبدیلیوں سے ربط اس کتاب کا خاصہ ہے ۔
اس کتاب میں میڈیا کا پیش نامہ بندی( ایجنڈا سیٹنگ ) کے نظریے کے مطابق” ذرائع ابلاغ اکثر یہ بتانے میں تو کامیاب نہیں رہتے کہ لوگ کیا سوچیں مگر یہ باور کرانے میں حیرت انگیز طور پر کامیاب رہتے ہیں کہ انہیں کس بار ے میں سوچنا چاہیے ”۔
جس طرح بقول سر کرسچن ہر شعبے کی اصطلاحات جاننے کی ہر ایک کو ضرورت نہیں بالکل اسی طرح ہر اطلاع کی بھی عوام کو ضرورت نہیں۔ یہاںذرائع ابلاغ کا دربان (گیٹ کیپر) کا نظریہ کام کرتا ہے کہ ہر نظریے کا دوسرے نظریے سے منطقی ربط ہی نہیں عملی تعلق بھی ہے ۔ دربان (صحافی و مدیر) اپنا کردارسمجھیں ،یہ کیا کہ ہر خبر دیے جارہے ہیں اور اس گمراہ کن نعرے کو بہ زعم استعمال کرتے ہیں کہ ‘ہر خبر پر نظر’، ‘ہر خبر سے باخبر’ ؛ کس نے ان کے کان میں پھونک دیاکہ ہر خبر پہ نظررکھیں یا ہر خبر سے اپنے قارئین و ناظرین کو باخبر کریں ، اتنی باخبری بجائے خود بے خبری کی طرف لے جاتی ہے کہ آخر میں ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا اور جو آتاہے وہ یا تو کوئی ذہنی و عملی تبدیلی نہیں لاتا اور اگر لاتا ہے تو وہ فرد اور معاشرے کو سنوار کے بجائے بگاڑ کا ذریعہ بنتی ہیں۔ عام آدمی پڑوسی ، محلے ، علاقے یہاں تک کہ گھر کے مسئلے بھول کر اگر اسرائیل فلسطین کے مسئلے پر دھواں دھار تقریر جھاڑتے ہوئے منہ سے کف اُڑا رہاہے تو کیا آپ ایسے شہری کو باخبر اور باشعور ہونے کے لقب سے نوازیں گے۔
عام آدمی کاشعور اس کی ذمہ داریوں اور اس کی راہ میں آنے والی مشکلات اور ان مشکلات کے حل کا شعور ہے ۔سیاست دان وعدے کرتے ہیں، ذرائع ابلاغ ان کا پرچار کرتے ہیں ، ساتھ میں خون کو گرم اورجذبات کوبرہم رکھنے کے طریقے اختیار کرتے ہیں، عوام ان کے پیچھے یا اپنی لگی بندھی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں،وہ پچھلی نسل جو اسلام اور اُردو کے نام پر ہجرت کے مصائب جھیل کر دکھی دل کے ساتھ اپنی جڑیں کھو کر آئی تھی ، خالی جسم اور حیران آنکھوں کے ساتھ نئی اور پاک سرزمین پر دوسری نسل کولسانی و فرقہ ورانہ جھگڑوں میں پروان چڑھتے دیکھا، اس نسل کے پیر ہی یہاں جھلسنے لگے ہیں تو اگلی پیڑھی کس طرف دیکھے گی؟ ہمارا معلوم سے نامعلوم کا سفر معلوم تک پہنچنے ہی نہیں دیاجارہا، یہ کام کہیںانفرادی سطح پر ہو رہے ہیں لیکن وہ اجتماعی سطح پر خرد خسارہ پورا نہیں کرسکتے ، اس کے لیے ہر جمہوری و سیاسی مشینری کو اپنا اپنا کردار اپنے اپنے دائرے کار میں رہتے ہوئے ادا کرنا ہوتاہے ۔
یہاں نصاب اور میڈیا عوام کے ذہنوں کے لیے چکی کے دوپاٹ بن گئے ہیں جس میں اذہان ، خیال ،سوچ پس کر اور دب کر رہ گئی ہے۔ تعلیم اور میڈیا (جس زمانے میںجس بھی شکل میں تھا) بیک وقت ان دونوں کے کردار پر بات کرتا ہے جان ڈیوی:
”جان ڈیوی اس بات پر زور دیتاہے کہ عوام کی ابتدائی تعلیم بھی انہیں پروپیگنڈے کے مختلف طریقوں کی مزاحمت کے قابل بنا سکتی ہے۔ذرائع ابلاغ کے کردار سے متعلق اس کا موقف ہے کہ وہ محض حالات ِ حاضرہ سے باخبر رکھنے کے علاوہ بھی کچھ کریں۔ مثلاً عوامی تعلیم اور مباحثوں کو فروغ دیں، شخصی سرگرمیوں کے بجائے نئے خیالات اور فلسفے کو زیادہ اہمیت دیںاور ناقدانہ سوچ کی صلاحیتوں اور اہم معاملات و مسائل کے بارے میں عوامی بحث و مباحثے کو نمایاں کریں”۔(نظریات ابلاغ ،مرتبہ پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ، پروپیگنڈے کے دور میں ابلاغی نظریے کا عروج، ترجمہ و تدوین سعدیہ تبسم قریشی ،صفحہ ٦١)
دی بلیک ہول ،ایک پاکستانی یو ٹیوب چینل جو سنجیدہ اور فکری موضوعات پر مذاکراتی پروگرام پیش کرتا ہے۔ ایک نشست جس کا موضوع تھا(یہاں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے)”عدالتی اصلاحات یا گرفت؟ آئین ِ پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے مضمرات”، اس نشست کے مہمان مذاکرین میںواحد قانون داں حامد راشد گوندل اوردیگر دو مہمان عون عباس ،خرم شہزادبشمول میزبان احمد اعجاز صحافی اور سیاسی وانتخابی تجزیہ کاران تھے۔میں یہاں اپنی شعوری رو کی مناسبت سے ایک سوال اور اس کا جواب جو خرم شہزاد نے دیا، رقم کررہی ہوں۔
سوال: بات یہ ہے کہ عدالتی اصلاحات ایک معمول کی کارروائی ہے لیکن جس طریقے سے اس کی ہائپ کرییٹ ہوتی ہے تو وہ کچھ کہانی سناتی ہے،اصلاحات ہی ہورہی ہیںتو وہ کیوں اتنا ہماری بحث کا حصہ بن جاتی ہیں،ہمارے سماجی مباحث سارے پچھلے دو ڈھائی ماہ سے یہی ہو رہے ہیں اس کے علاوہ تو کوئی بحث ہی نہیں ہے تو میں یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ معمول کی کاروائیاں اور اصلاحات اس قدر متنازع شکل کیوں اختیار کرلیتی ہیں، بجائے اس کے کہ ہمارا سسٹم آگے کی طرف بڑھے ہماری کئی توانائیاں اس کی بحث کے اوپر صرف ہو جاتی ہیں؟
خرم شہزاد : ہم پاکستانی عوام چسکا لینے والے لوگ ہیں۔بین الاقوامی میڈیا جتنا بھی دنیا میںہے شاید ہی کسی ملک میں اتنی سیاسی شہ سرخیاںلگتی ہیں جتنی ہمارے ہاں لگتی ہیں۔ وہاں شاید ایک شہر میں قتل ہوجائے گا تو وہ تو بڑی خبر ہوسکتی ہے لیکن پارلیمنٹ میں کیا ہورہا ہے اس کی اتنی خبر نہیں ہوتی ،وہاں عام لوگوں کی زندگیوں پر جس معاملے کا اثر ہونا ہے اس کو ڈسکس کیا جاتاہے ، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایک عام دکان دار سے لے،آپ ایک گائوں جاتے ہیں آپ کو کس قسم کے سوالوں کا سامنا کرنا پڑتاہے تو ایک عام انسان سے لے کرآرمی چیف صاحب تک کہ موسٹ پاور فل پرسن تو وہی ہیں اس ملک میںان سب کو سیاست سے دل چسپی ہے، میڈیا کیٹر کرتا ہے لوگوں کی ضروریات کو، میڈیا سے لوگوں کی ڈیمانڈ ہے تو انہوں نے وہ کور کرنا ہے ،جب انہوں نے وہ کور کرنا ہے تو وہ اس پر کام کریں گے اس کی چیزوں کو پھیلائیں گے، ہمارے سیاست دان بھی میڈیا کے ذریعے کھیلتے ہیں ، ایک او ردل چسپ بات کہ ہم پاکستانی لوگوںمیں بہ حیثیت مجموعی بات کررہاہوں ،آف کورس ایکسیپشنز آر آل ویز دیئر، لیکن بہ حیثیت مجموعی جو تاثر ہے، ہم خود غرض قسم کے لوگ ہیں،جو بھی ہم فیصلہ لیتے ہیں ، جو بھی قدم اٹھاتے ہیںوہ سیلف سینٹرک ہوتاہے کہ بھئی اس میں مجھے کیا مل رہا ہے،اس میں میرا کیا فائدہ ہے ، اب اسی ترمیم کی مثال لے لیںشاید ہی کسی پارٹی نے بالکل اسے قانون کے تحت دیکھا ہوگا کہ ہم یہ کرلیں تو اس سے یہ بہتری آجائے گی(میزبان درمیان میں لقمہ دیتے ہوئے کہ مولانا فضل الرحمن تو بڑا دعویٰ کرتے ہیں کہ اسے ہماری پارٹی نے بڑا دیکھا ہے،خرم شہزاد بات مکمل کرتے ہوئے) دیکھا تو سب ہی نے ہے ،بلاول نے ڈرافٹ دیکھا ہے،پی ٹی آئی نے اس پر بات چیت کی ہے ، مذاکرات کے کئی دور ہوئے ہیں ، لیکن انہوں نے ووٹ کیو ں کیا اور کیوں نہیں کیا؟ کیا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ ملک میں قانونی نظام بہت اچھا ہونا چاہیے؟وہ ساری سرگرمیاں سیلف سینٹرک ہوتی ہیں ،مینوں کی ملے گا،شاید میں غلط ہوں لیکن میرا یہی خیال ہے ۔
اس سے قبل اپنی گفتگو کی ابتدا میں خرم شہزاد صاحب نے اس حدیث کا حوالہ دیا تھا کہ انما لاعمال بالنیات۔ میں خرم شہزاد صاحب کے جواب سے نوے فی صد اتفاق کرتی ہوں، بس ایک وہاں جہاں وہ یہ کہتے ہیں کہ میڈیا عوام کی خواہش پر چلتاہے ۔ کیا ہمارا میڈیا بین الاقوامی میڈیا کی طرح ایجنڈا سیٹنگ سے آگے بڑھ کر ایجنڈا بلڈنگ کا کردار ادا نہیں کرسکتا؟ لیکن بات وہی ہے جو خرم شہزاد صاحب نے کہا کہ اس میں پھر انہیں کیا ملے گا۔لیکن کیا میڈیا دہری ذمہ داری ادا نہیں کرسکتا کہ حکومتی ایجنڈے کے ساتھ عوامی ایجنڈے کا بھی دعوے دار بن جائے۔ عوام کا چسکا بدلنے میں وقت لگے گا لیکن قدم تو اٹھایا ہی جاسکتاہے یا ان ہائپوں کا مداوا اور تدارک بقول جان ڈیوی تعلیم کرے گی تو تعلیم نظام کی بہتری کے لیے کس کی طرف دیکھیں؟


متعلقہ خبریں


مضامین
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا وجود جمعرات 14 نومبر 2024
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!

مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ ! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ !

ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی وجود بدھ 13 نومبر 2024
ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی

دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں ! وجود بدھ 13 نومبر 2024
دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر