... loading ...
سمیع اللہ ملک
امریکامیں عمومی طورپررائے عامہ کے جائزوں کے ذریعے پیشگوئی کی جاتی ہے وائٹ ہاس کااگلامکین کون ہوگا،کون سا صدارتی امیدوار عوامی مقبولیت کی کس سطح پرکھڑاہے۔کیایہ جائزے درست بھی ثابت ہوتے ہیں،اس کافیصلہ اگلے چنددنوں میں دنیاکے سامنے آجائے گا لیکن مشرقِ وسطی میں جاری کشیدگی اورشدیدتنا کی صورتحال میں امریکی مسلمان کیا کرداراداکرسکتے ہیں،2009 میں معروف مصنفہ “سوھیلاسنی”کی انگریزی کتاب”امریکن اسلام:دی سٹرگل فاردی سول آف اے ریلیجن”میں امریکی مسلمانوں کے چیلنجز، حقوق اور ثقافتی مسائل پرتفصیلی بحث کی گئی ہے جس سے ماضی کی تاریخ میں اسلام کی گونج،امریکامیں مسلمانوں کی تاریخ اورماضی سے حال تک اسلام فوبیاکی بڑی دلچسپ تاریخ بیان کی گئی ہے۔آئے اس کتاب کے تناظرمیں موجودہ امریکی انتخابات میں مسلمانوں کے کردارکاجائزہ لیتے ہیں:امریکاکے تیسرے صدراوراعلانِ آزادی کے خالق تھامس جیفرسن کیپاس نہ صرف یہ کہ قرآن کا نسخہ تھابلکہ انہوں نے اسلام کو امریکی معاشرے کی تصویرکے ایک ممکنہ رنگ کے طور پر دیکھااورمسلمانوں کے حقوق کاتحفظ یقینی بنانے کی کوشش بھی کی۔ تھامس جیفرسن نے مسلمانوں کونئی ابھرتی ہوئی امریکی ریاست کے ممکنہ شہریوں کے روپ میں دیکھا۔امریکا کا اعلانِ آزادی تحریرکرنے سے11سال قبل انہوں نے قرآن کانسخہ خریداتھا۔تھامس جیفرسن کاقرآن کاوہ نسخہ آج بھی کانگریس کی لائبریری میں محفوظ ہے اورامریکیوں کے اجداد اور اسلام کے تعلقات کی علامت ہے۔امریکی راست گودانشوروں کیلئییہ تعلقات آج بھی غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔
تھامس جیفرسن کے پاس قرآن کے نسخے کاہونااس بات کاثبوت ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات میں دلچسپی لیتے تھے مگراس امرکی وضاحت نہیں ہوتی کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کاحل بھی چاہتے تھے۔تھامس جیفرسن نے بنیادی حقوق پراسلامی تصورسے پہلی شناسائی سترہویں صدی کے انگریزفلسفی جان لاک کی تحریروں سے حاصل کی۔ جان لاک نے یورپی معاشروں پرزوردیاتھاکہ وہ مسلمانوں اوریہودیوں کو
اپنے اندرسمونے کی کوشش کریں۔جان لاک نے ان کے نقشِ قدم پرچلنے کی کوشش کی تھی جنہوں نے یہ نکتہ ایک صدی قبل سمجھ لیا تھا۔
مسلمانوں کے حقوق سے متعلق تھامس جیفرسن کاتصوربحیرہ اوقیانوس کے آرپارسولہویں سے انیسویں صدی عیسوی تک کے فکری ارتقاکی
روشنی میں زیادہ آسانی سے سمجھاجاسکتاہے۔
جب یورپ میں عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تب بہت سے عیسائیوں نے مسلمانوں کواس امرکی نشانی کے
طور پرآزمایاکہ نظریاتی معاملات میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کے حوالے سے تحمل اوررواداری کی حدکیاہوسکتی ہے۔یورپ میں قائم
ہونے والی نظیروں کی بنیادپرامریکامیں بھی مسلمان،شہریت کی حدوداورروادادکے حوالے سے بحث کا موضوع بن گئے۔نئی حکومت کی
تیاریوں کے دوران جب امریکاکے بانیان نے(جوتمام کے تمام پروٹسٹنٹ تھے)مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کودی جانے والی
مذہبی آزادی کے بارے میں غورکیاتواس حوالے سے اسلامی دنیامیں پائی جانے والی نظیروں کے حوالے دیے۔امریکا کی بانی نسل نے اس
نکتے پرخصوصی بحث کی کہ امریکاکومذہبی اعتبارسے پروٹسٹنٹ ہوناچاہیے یاتمام مذاہب کے پیروکاروں کوکھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔ اس نکتے پربھی پورے اہتمام سے بحث کی گئی کہ اگرتمام مذاہب کے پیروکاروں کوقبول ہی کرناہے توکیاکسی بھی غیرپروٹسٹنٹ کو صدر کے منصب تک پہنچنے کی اجازت دی جانی چاہیے؟اس سے انہیں مذہبی آزادی سے متعلق امورپرغورکرنے کی تحریک ملی۔ انہوں نے کئی باتیں سوچیں مثلایہ کہ کیاامریکامیں کوئی ایسی اسٹیبلشمنٹ قائم ہونی چاہیے،جوپروٹسٹنٹ فرقے کوتحفظ فراہم کرتی ہو۔اس کابنیادی مقصد مذہب کو ریاست سے الگ رکھنے کا انتظام یقینی بناناتھا۔ساتھ ہی ساتھ آئین میں مذہب سے متعلق ٹیسٹ کامعاملہ بھی شامل کیا جانا تھا، جیسا کہ 19 ویں صدی تک ریاستوں میں رہا۔
مسلمانوں کی شہریت کے خلاف مزاحمت کاتصور18ویں صدی تک حیرت انگیزنہ تھا۔امریکیوں کویورپ سے مذہب کے پیشوایانہ اور سیاسی کردارپرکم وبیش ایک ہزارسال کے منفی خیالات ترکے میں ملے تھے۔مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے منفی تاثر کے
باوجود یہ بات حیرت انگیزہے کہ امریکاکے ابتدائی دورکی چنداہم ترین شخصیات نے اس تصورکومستردکردیاکہ مسلمانوں کوامریکاکے متوقع
شہریوں کی حیثیت سے سوچاہی نہ جائے۔بانیانِ امریکانے مسلمانوں کاایسے شہریوں کے روپ میں تصورکیا جنہیں تمام حقوق میسر ہوں۔ مسلمانوں کے حقوق کے دفاع سے متعلق بانیانِ امریکا کا یہ حیرت انگیز موقف دراصل یورپ میں سیاسی فکرکے ہزارسالہ ارتقاکامنطقی نتیجہ اور اس کی توسیع کے مترادف تھا۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ شدید مخالفت کی فضا میں بھی مسلمانوں کوتمام حقوق کے ساتھ شہری بنانے کا تصور امریکامیں کیوںکرمحفوظ رہا؟اوراس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس تصورکا21ویں صدی میں مستقبل کیاہے؟
یہ کتاب ہمیں امریکاکے قیام کے ابتدائی دورمیں چندنمایاں شخصیات کے ان تصورات سے آگاہ کرتی ہے،جووہ اسلام کے بارے میں
رکھتے تھے۔انہوں نے اسلام کے بارے میں پائی جانے والی منفی آراکوجوں کاتوں قبول کرنے سے انکارکردیا۔یورپ نے انہیں اسلام اور
مسلمانوں کے بارے میں برداشت کارویہ نہ اپنانے کی غیرمحسوس تعلیم دی تھی، مگر انہوں نے اس تعلیم کوقبول نہ کیا۔امریکاکے بیشتر
پروٹسٹنٹ باشندے یہ تصوررکھتے تھے کہ مسلمانوں کے خیالات کوقبول نہیں کیاجاسکتا۔اس سے ایک طرف تو پروٹسٹنٹس میںاسٹیٹس کوکی راہ
ہموار ہوئی اوردوسری طرف امریکاکے دیگرباشندے یہ سوچنے پرمائل ہوئے کہ دوسروں کی بات سننے میں کوئی ہرج نہیں۔ایک طرف اگر
مسلمانوں کوقبول نہ کرنے کی سوچ پروان چڑھی تودوسری طرف امریکیوں کی اکثریت نے یہ سوچناشروع کیاکہ دیگرمذاہب کے لوگوں کو
بھی قبول کرناچاہیے تاکہ معاشرے میں امتیازی رویہ نہ پایاجائے۔اس صورت میں مسلمانوں کوبھی اپنانے کاشعورپیداہوا۔
یہ سب کچھ اس وقت سوچاجارہاتھاجب مسلمان ابھی امریکامیں آئے نہ تھے۔ان کے آنے سے پہلے ہی انہیں قبول کرنے کی سوچ پروان
چڑھائی جارہی تھی۔تھامس جیفرسن اوران کے قریبی رفقابخوبی جانتے اورسمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں سوچنے اوربحث
کرنے سے امریکامیں حقوق کے حوالے سے آفاقیت کی راہ ہموارہوگی اورپھریہ ہوا کہ امریکامیں اقلیتوں (کیتھولک عیسائی اور یہودی) کو
قبول کرنے اورمعاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے فکرآگے بڑھی۔ مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بحث
نے امریکامیں یہ تصورپیداکیاکہ سب کوکھلے دل سے قبول کیاجائے۔
امریکا کوبرطانیہ سے حقیقی آزادی1783میں ملی۔اس سال جارج واشنگٹن نے نیو یارک میں سکونت پذیرآئرش کیتھولک عیسائیوں کوخط
لکھا۔ تب تک امریکامیں صرف25ہزار کیتھولک عیسائی تھے،جن کے حقوق خاصے محدودتھے۔انہیں نیو یارک میں کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔جارج واشنگٹن نے اس نکتے پرزوردیاکہ امریکاکوہر مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کوقبول کرناچاہیے جن پرمظالم ڈھائے گئے ہوں اورجنہیں مستقل دباؤمیں رکھا گیاہو۔انہوں نے یہودیوں کوبھی خط
لکھا۔ تب تک امریکامیں صرف دوہزاریہودی تھے۔جارج واشنگٹن چاہتے تھے کہ امریکی سر زمین پردنیابھرکے کچلے ہوئے لوگوں، بالخصوص مذہب کے نام پر نشانہ بنائے جانے والوں کوپناہ ملے۔
1784ء میں جارج واشنگٹن نے ماونٹ ورنن کے مقام پراپنے گھرپرمسلمانوں کے حوالے سے اپنے خیالات کوپوری طرح کھول کر رکھ
دیا۔ ورجینیاسے کسی دوست نے جارج واشنگٹن کولکھاکہ اسے اپناگھربنانے کیلئے ایک بڑھئی اورایک مستری (معمار)کی ضرورت ہے۔
جارج واشنگٹن نے اسے لکھاکہ کسی بھی مکان کی تعمیریافرنیچرکی تیاری میں اس امرکی کوئی اہمیت نہیں کہ کاریگرکس مذہب،فرقے،رنگ یا
نسل سے تعلق رکھتاہے۔اچھاکاریگرایشیا،افریقایایورپ کاہوسکتاہے۔ہوسکتاہے کہ وہ مسلمان، عیسائی یایہودی ہویاپھریہ کہ وہ کسی مذہب
پر یقین ہی نہ رکھتاہو۔اس خط سے اندازہ ہوتاہے کہ جارج واشنگٹن کے فکری دھاروں میں مسلمان بھی بہتے تھے۔انہوں نے امریکاسب کے لیے ،کے تصورمیں مسلمانوں کونظر اندازنہیں کیاتھا۔ہوسکتاہے جارج واشنگٹن کواندازہ ہوکہ کسی بھی شعبے میں کوئی کرداراداکرنے کیلئے ابھی بہت دنوں تک مسلمان نمودارنہیں ہوں گے۔
مختلف ذرائع سے معلوم ہوتاہے کہ18ویں صدی عیسوی میں بھی امریکامیں مسلمان سکونت پذیرتھے مگرتھامس جیفرسن اوران کے ساتھیوں کوبہرحال ان کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکاتھا۔تھامس جیفرسن اوران کے ساتھیوں نے مسلمانوں کومستقبل کے امریکی شہری تصور کرتے ہوئے ان کاذکرکیاتھا۔جارج واشنگٹن اورتھامس جیفرسن کی تحریروں اورتقاریر میں مسلمانوں کاذکربلا سبب ہرگزنہیں ہوسکتا۔یہ دونوں عظیم شخصیات مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے دومتضادیورپی رویوں اورتصورات کی وارث تھیں۔ ایک تصوریہ تھاکہ اسلام کی تعلیمات پروٹسٹنٹ عیسائیت کی تعلیمات کے یکسرمنافی بلکہ اس سے متصادم ہیں اوریہ کہ جابرانہ حکومتوں کے قیام میں بھی اسلامی نظریات نے مرکزی کرداراداکیاتھا۔مسلمانوں کوامریکاکے پروٹسٹنٹ معاشرے میں قبول کرنے کامطلب ایک ایسی برادری کوقبول کرنا تھا جس کے مذہب اوراس سے متعلق تصورات کویورپ نے غلط،اجنبی اورخطرناک قرار دیاتھا۔معاملہ مسلمانوں تک محدودنہ تھا۔امریکی پروٹسٹنٹ توکیتھولک عیسائیوں کے نظریات کوبھی اِسی طرح اجنبی اورخطرناک قرار دیتے تھے۔ کیتھولسزم کو بھی آزادی کے امریکی تصورات اور وسیع النظری کامخالف سمجھاجاتاتھا۔
جیفرسن اورنان پروٹسٹنٹ شہریت کی حامی دیگرشخصیات نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ایک اورفکری دھارے کو پروان چڑھانے میں معاونت کی،جس کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کیتھولک عیسائیوں اوریہودیوں کوقبول کرنے کی راہ بھی ہموارہوتی تھی۔ 16ویں صدی کے جن کیتھولک اورپروٹسٹنٹ عیسائیوں نے اپنے اپنے نظریات کی تبلیغ کی تھی،انہوں نے ان کیلئے جان بھی دی تھی۔ 17ویں صدی عیسوی میں یورپ کے جن لوگوں نے تمام مذاہب کوقبول کرنے اورتمام ثقافتوں اورنسلوں کے لوگوں کواپنے ہاں قابل قبول قراردینے کی بات کی تھی انہیں سزائے موت یاپھرقیدِ بامشقت کاسامناکرناپڑا۔اکثریت کوان نظریات کی بنیادپرملک سے نکال دیا گیا۔ اس معاملے میں امیروغریب اوربے کس وطاقتورکی کوئی تخصیص نہ تھی۔اشرافیہ میں سے بھی جن لوگوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنانے کی بات کی،انہیں شدیدمخالفت اورایذاؤں کاسامناکرنا پڑا۔یورپ میں رومن کیتھولک چرچ سے متصادم نظریات رکھنے والے کیتھولک اورپروٹسٹنٹ کسان تھے،سیاسیات سمیت مختلف علوم کے ماہرین تھے یاپھراول انگریزبیپٹسٹ۔ان میں کوئی بھی سیاسی قوت رکھنے والایااعلی معاشرتی حیثیت کاحامل شخص نہ تھا۔مذہب کے لگے بندھے نظریات سے ہم آہنگی نہ رکھنے والے اگرچہ منظم نہ تھے مگراس کے باوجودانہوں نے منظم فکررکھنے والے مسلمانوں کو عیسائی ریاستوں میں ایذاؤں سے بچانے کیلئے خاصی وقیع جدوجہدکی۔
18ویں صدی کی اینگلیکن اسٹیبلشمنٹ کے رکن اورورجینیاکے ایک اعلی سیاست دان کی حیثیت سے تھامس جیفرسن نے وہ تصورات پیش کیے،جواس سے قبل یورپ میں اپنے پیش کرنے والوں پرشدیدلعن طعن کاسبب بنے تھے اوربہتوں کوتوسزائے موت کابھی سامنا کرنا پڑا تھا۔تھامس جیفرسن چونکہ خود اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھتے تھے،اس لیے مسلمانوں کے حقوق سے متعلق ان کامقف ورجینیامیں پوری توجہ سے سناگیا۔چندساتھیوں کے ساتھ مل کرتھامس جیفرسن نے نوزائیدہ ریاست ہائے متحدہ امریکامیں وہ تصورات پیش کیے، جواس سے قبل یورپ کے مرکزی دھارے سے بہت دورجوہڑکی شکل میں اپنی وقعت کھوبیٹھے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ تھامس جیفرسن نے تمام مذاہب کے لوگوں کوقبول کرنے اورہر مذہب کے پیروکاروں کے حقوق کوسرکاری مداخلت سے مبرارکھنے کاتصورپیش کیااوران پرمبارک باد کے ڈونگرے برسنے لگے۔مخالفین نے ہرقدم پران کیلئے مشکلات پیداکرنے کی کوشش کی مگریہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے حلقوں میں جیفرسن کو غیرمعمولی وقعت ملی۔ پریسبائٹیرینزاوربیپٹسٹس سمیت بہت سی ایسی برادریوں نے جیفرسن کی بات پرمسرت کااظہار کیاجوپروٹسٹنٹس کی جانب سے جبرکاسامنا کرتے رہے تھے۔ویسے تو خیرامریکی معاشرے کاکوئی بھی طبقہ غیرپروٹسٹنٹس کوجامع امریکی شہریت دینے کے حق میں نہ تھا،مگر پھر بھی مسلمانوں کیلئے ان کے دلوں میں نرم گوشہ ضرورتھا۔
مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بحث شروع کرنے والے جوکچھ کہہ رہے تھے،وہ18ویں صدی کے معاشرے میں محض فکری یانظری سطح پربھی خاصااجنبی اورناقابل قبول تھا ۔ تب تک امریکی شہریت کاحقداروہی سمجھاجاتاتھاجوپروٹسٹنٹ،سفیدفام اور مرد ہو۔ شہریت کے معاملے کومذہب سے الگ کرنالازم تھا۔ورجینیامیں اس حوالے سے قانون سازی توایک بڑے سفرکی محض ابتداتھی۔تھامس جیفرسن، جارج واشنگٹن اورجیمز میڈیسن نے شہریت کے معاملے کومذہب سے الگ کرنے کاعمل شروع کیاتھا۔یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ انہوں نے اپنی سیاسی کیریئرکے دوران اس آدرش کے حصول کیلئے غیرمعمولی محنت کی مگرمکمل کامیابی حاصل نہ کرسکے۔وہ اپناادھوراکام بعد میں آنے والوں کیلئے فریضے کے طورپر چھوڑگئے۔یہ کتاب پہلی باراس امرپربحث کرتی ہے کہ کس طورجیفرسن اوران کے ساتھی،اسلام کے بارے میں اپنے نامکمل اورمبہم تصورات کے باوجود،مسلمانوں سمیت تمام نان پروٹسٹنٹ افرادکے شہری حقوق کیلئے متحرک رہے۔
جارج واشنگٹن نے جب1784میں مسلمانوں کومحنت کشوں کی حیثیت سے امریکاآنے کی اجازت دینے کی وکالت کی،اس سے ایک عشرہ قبل انہوں نے اپنی محصول پذیراملاک میں افریقی نسل کی دوعورتوں کاذکربھی کیاتھا،جوماں بیٹی تھیں۔ایک کانام فاطمہ اوردوسری کافاطمہ صغیرہ تھا۔جارج واشنگٹن نے مسلمانوں کوامریکی شہریت دینے کی وکالت کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کوغلام کی حیثیت سے
خرید کر انہوں نے خودہی ان کے بنیادی حقوق کی راہ مسدودکی تھی۔واضح رہے کہ تب تک غلام مسلمانوں کواپنے مذہب پرکاربند رہنے کی
اجازت نہیں دی گئی تھی۔ہوسکتاہے کہ جیفرسن اورمیڈیسن کی جاگیروں اورزرعی اراضی پربھی یہی حقیقت پائی گئی ہو۔مگرخیر،ان کے غلاموں
کے مذہب کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہ ہوسکا۔اس میں کوئی شک نہیں مغربی افریقاسے محنت کشوں کے طورپرلائے گئے مسلم غلاموں
کی تعداد لاکھوں میں تھی۔یہ تعدادامریکامیں آباد کیتھولک عیسائیوں اوریہودیوں سے کہیں زیادہ رہی ہوگی۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ بہت سے
سابق مسلم غلاموں نے کانٹی نینٹل آرمی میں بھی خدمات انجام دی ہوں۔مگرخیر،اس امرکاکوئی ثبوت نہیں ملتا کہ وہ اپنے مذہب پر کاربند رہے ہوں اوریہ بھی ثابت نہیں کیاجا سکاہے کہ امریکا کے بانیوں کوان کی موجودگی کاعلم تھا۔یہ بات بھی قابل غورہے کہ مسلمانوں کے شہری یاشہریتی حقوق سے متعلق بحث پریہ سابق مسلم غلام اثراندازنہیں ہوئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکامیں مسلمان(پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی طرح)17ویں صدی سے موجودتھے مگرنسل اورغلامی کے عوامل اس قدر مضبوط تھے کہ ان کے مذہب کامعاملہ سات پردوں میں لپٹارہا۔امریکاکے بانیان نے جب مستقبل کے امریکی مسلمانوں کے حقوق
کا سوچاتھاتوان کے ذہن میں سفید فام مسلم ہی رہے ہوں گے کیونکہ1790کے عشرے تک کسی بھی نسل یا مذہبی پس منظر کاحامل سفید فام
شخص امریکامیں شہریت کیلئے درخواست دے سکتاتھا۔جیفرسن نے صرف دومسلمانوں سے ملاقات کی تھی اوروہ دونوں ترک نسل کے شمالی
افریقی سفیرتھے۔جیفرسن نے ان کی رنگت کے بارے میں کچھ کہا،نہ لکھا۔ دونوں بہت حد تک سفید فام تھے۔ان دونوں میں رنگ یامذہب
کے اعتبار سے جیفرسن کیلئے کوئی کشش نہ تھی۔اس نے ان دونوں سے ملاقات کی اورانہیں اہمیت دی تواس کا سبب صرف یہ تھا کہ وہ سیاسی و سفارتی اعتبار سے بہت مضبوط تھے۔اس سے قبل تھامس جیفرسن نے سفیر،وزیر خارجہ اورنائب صدرکی حیثیت سے شمالی افریقاکی ریاستوں سے امریکاکے تنازع کومذہب کے نقطہ نظرسے کبھی نہیں دیکھا۔بحیرہ روم اورمشرقی بحراوقیانوس امریکی جہازرانی کوقزاقوں سے ہروقت
خطرہ رہتاتھا۔جیفرسن نے ٹریپولی اورتیونس کے حکمرانوں پرواضح کیاکہ ان کاملک اسلام مخالف جذبات یاتعصب نہیں رکھتا اورایک مرحلے پر تووہ یہاں تک گئے کہ انہوں نے دونوں حکمرانوں سے کہا کہ ہم بھی اسی خداکی عبادت کرتے ہیں،جس کے عبادت گزارآپ ہیں! جیفرسن مذہب کوسیاست یاحکومت سے الگ رکھناچاہتے تھے۔انہوں نے بیرون ملک جن خیالات کورواج دیا،ملک میں انہی خیالات
کو اہمیت دی۔اسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے جیفرسن کے تصورات بنیادی طورپرشمالی افریقاکی ریاستوں سے تعلق کی بنیاد پرپروان چڑھے ہوں گے۔یہی شمالی افریقاسے متعلق ان کی خارجہ پالیسی کی بنیادبھی تھے۔ یہ نکتہ بھی بھلایانہیں جاسکتاکہ جیفرسن نے ذاتی طور پر موحد ہونے کی بنیادپراسلامی دنیاسے اپنے تعلق کوزیادہ اہمیت دی ہوگی۔
جیفرسن کے زمانے تک اسلام کے بارے میں بہت سے منفی تاثرات اورتصورات بھی پائے جاتے تھے اوریقینی طورپروہ ان سے پوری طرح محفوظ یالاتعلق تونہیں رہے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ اسلام اوراسلامی دنیاسے متعلق یورپ سے ترکے میں ملنے والے چندتصورات
اور مثالوں کوانہوں نے ورجینیامیں مذہب کوریاستی یاحکومتی امورسے الگ رکھنے کی بحث میں مضبوط بنیاد کے طورپراستعمال کیاہو۔جیفرسن
نے 18ویں اور19ویں صدی میں اصول اورتعصب کی جس جنگ میں فتح پائی تھی،وہ اب بھی، 21ویں صدی میں، بحران کی صورت
امریکیوں کے سامنے کھڑی ہے۔19ویں صدی کے اواخرسے اب تک امریکامیں مسلمانوں کی تعدادنمایاں رفتارسے بڑھی ہے اوراب
امریکا میں آبادمسلمان نسلی تنوع اورتحرک سے متصف ہیں۔مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکامیں مسلمانوں کوکبھی کھلے دل سے قبول نہیں
کیا گیا۔جیفرسن کے زمانے میں مسلمانوں کی ایک تصوراتی آبادی کو تعصب کانشانہ بنایاجاتاتھا۔آج کے امریکامیں ان مسلمانوں پرسیاسی
حملے ہورہے ہیں، جوایک حقیقت کی حیثیت سے امریکی معاشرے کاحصہ ہیں۔ نائن الیون کے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام
پر امریکا میں مسلمانوں کے خلاف ایسی فضاتیار کر دی گئی ہے،جس میں سبھی اس بات کے حق میں دکھائی دیتے ہیں کہ مسلمانوں کوان کے تمام
بنیادی وشہری حقوق نہ دیے جائیں۔
اب امریکا میں یہ بحث بھی زورپکڑگئی ہے کہ کوئی مسلمان امریکی صدربننے کی اہلیت رکھتاہے یانہیں۔بارک اوباماکے حوالے سے یہی سوال اٹھاتھامگریہ سوال نیانہیں۔امریکی سیاسی تاریخ میں جیفرسن پہلی شخصیت تھے جن پرمسلمان ہونے کاالزام بھی عائدکیاگیا۔کوئی امریکی
مسلمان صدربن سکتاہے یانہیں،یااسے صدربننے دیناچاہیے یانہیں۔اِس نکتے پربحث سے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں بھی مددملتی ہے کہ
امریکی شعورِعامہ میں مسلمان کس طورداخل ہوچکاہے اوریہ کہ مسلمانوں کے حقوق کس طرح ابتدائی مرحلے میں قومی آدرش کی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ یوں آج کے امریکامیں مسلمانوں کی شہریت کے مسئلے کوسمجھنے کیلئے18ویں صدی کے اواخرمیں مسلمانوں کے حقوق سے متعلق چھڑنے والی بحث کو سمجھنالازم ہے۔
امریکی مسلمانوں کے حقوق نے نظری سطح پرتوبہت پہلے قبولیت پالی مگرعملی دنیامیں انہیں سخت آزمائش سے گزرناپڑاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مسلمانوں کوحقوق کے حوالے سے یومیہ بنیادپرآزمائش کاسامناکرناپڑتاہے۔آج کے امریکامیں اسلام کے معروف مورخ جان ایسپوزیٹوکوبھی مجبورہوکرکہناپڑاہے کہامریکی مسلمان یہ سوچنے پرمجبورہوگئے ہیں کہ مغربی وسیع النظری اوررواداری یعنی کلیت پسندی کی حدودکیا ہیں؟ہمیں تھامس جیفرسن کاقرآن کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کوامریکی آدرشوں کا حصہ کب،کہاں اورکس طرح بنایاگیا۔
مؤرخین نے اب تک یہ ثابت کرنے پرتوانائی صرف کی ہے کہ مسلمان مکمل طورپرامریکی آدرشوں کے خلاف ہیں۔اوریہی لوگ اس نکتے
پر بھی زوردیتے ہیں کہ پروٹسٹنٹ امریکیوں نے ہمیشہ اسلام اورمسلمانوں کوفطری طورپرغیرامریکی قراردیکرمسترد کیاہے۔بعض مورخین
نے تویہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکادراصل18ویں صدی میں اسلام کی شدیدمخالفت اوراس کے جابرانہ طرزِحکومت کے
مآخذ کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں معرضِ وجودمیں آیاتھا۔یہ بھی ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ امریکاکی ابتدائی پالیسیوں اورحکمتِ عملی سے
متعلق دستاویزات میں اس حوالے سے بہت کچھ مل بھی جاتاہے۔مگرساتھ ہی اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں نمایاں حدتک مثبت
تصورات بھی ملتے ہیں،جیساکہمستقبل کے امریکی مسلم شہریوں کے حقوق سے متعلق بحث ہے۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ تمام
پروٹسٹنٹس نے اسلام کویکسراجنبی مذہب کی حیثیت سے نہیں دیکھا تھا۔
یہ کتاب اس نکتے پرروشنی ڈالتی ہے کہ مسلمان نہ صرف یہ کہ غیرامریکی نہیں تھے بلکہ ملک کے قیام کے وقت ہی سے ان کی ممکنہ شہریت اور متوقع حقوق پربحث بھی ہوئی۔یہ اوربات ہے کہ ان میں سے بہت سے آئیڈیلزکواس وقت کے امریکیوں کی اکثریت نے کھلے دل سے
قبول نہیں کیاتھا۔اسلام اوراسلامی دنیاکے حوالے سے جیفرسن کے نظریات کااحاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب جان ایڈمز اور جیمز میڈیسن کے خیالات کوبھی عمدگی سے بیان کرتی ہے۔مسلمانوں کے حقوق کی بحث ملک کے بانیان تک محدودنہ تھی۔ ورجینیا میں بیپٹسٹ اور پریسبائٹیرینز کی جدوجہداورمذہبی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کی معرکہ آرائی کااحوال بھی اس کتاب میں ہے اور کلیسائے انگلستان سے تعلق رکھنے والے مشہوروکیل جیمز آئرڈیل اورسیموئل جانسٹن کامسلمانوں کے حقوق کیلئے آوازاٹھانابھی اسی کتاب سے ثابت ہے۔ایونجیلیکل بیپٹسٹ جان لیلینڈنے،جوجیفرسن اورمیڈیسن کے ساتھیوں میں سے تھے، مسلمانوں کے حقوق کیلئے کنیکٹیکٹ اورمیساچوسیٹس میں آوازاٹھائی۔ساتھ ہی انہوں نے آئین میں پائی جانے والی خامیوں،پہلی آئینی ترمیم کے نقائص اورریاستی سطح پر مذہب کے کردارکے خلاف بھی احتجاج کیا۔
اس کتاب میں مغربی افریقاسے تعلق رکھنے والے دومسلم غلاموں ابراہیم عبدالرحمن اورعمرابن سعیدکاتذکرہ ملتاہے۔عمرابن سعید عربی جانتا تھا اوراس نے عربی میں آپ بیتی بھی لکھی تھی۔ان دومسلمانوں کے تذکرے سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت امریکامیں ہزاروں مسلمان تھے مگرانہیں مذہب پرکاربندرہنے سمیت بہت سے حقوق حاصل نہ تھے۔ انہیں شہریت کے حق سے بھی محروم رکھا گیا تھا۔کیتھولک عیسائیوں اوریہودیوں نے20ویں صدی میں بھی اپنے حقوق کیلئے جدوجہدجاری رکھی۔انہیں جوحقوق ملے وہ آئین سے مکمل ہم آہنگ نہ تھے۔یہ حقیقت البتہ انتہائی تلخ ہے کہ آج بھی امریکامیں مسلمان واحد برادری ہے جسے مکمل طورپرقبول نہیں کیاگیااورآج بھی اس کے اثرات کادائرہ محدودرکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ کے یروشلم کواسرائیل کادارلحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے بعد توکسی شک وشبہ کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی کہ صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے خلاف اس نے کھلااعلان جنگ کر دیا ہے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ موجودہ جاری اسرائیلی درندگی کی امریکی انتخابات میں دونوں جماعتوں کے امیدواروں کی کھلم کھلا حمائت خطے میں گریٹر اسرائیل کی تشکیل کیلئے جاری اسرائیلی جارحیت پرعالم اسلام خاموش رہ کراپنی خودکشی کامرتکب ہوتاہے یاپھراپنی تقدیرکوپھرسے سنوارنے کے مواقع سے فائدہ اٹھاتاہے؟