... loading ...
عماد بزدار
”
گاؤں بارتھی کی ایک روشن صبح تھی۔ ہوا میں نرم خنکی تھی اور صبح کی روشنی میں سبز کھیت چمک رہے تھے ۔ ہیوتان، ایک عام آدمی، اپنے بھیڑ بکریوں کو باڑے سے نکال کر پہاڑی چراگاہ پر چرانے کے لیے تیار تھا۔ عین اسی وقت سردار رحیم خان کا بیٹا، میر خان، جو ہمیشہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں رہتا تھا، ناپاک نیت کے ساتھ ہیوتان کے گھر کی طرف قدم بڑھائے ۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور دل میں بد نیتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ہیوتان ایک غریب آدمی ہے ، اور اسے ڈرا کر یا دھمکا کر اپنی مرضی منوانا آسان ہوگا۔
میر خان نے ہیوتان کے دروازے پر دستک دی۔ ہیوتان نے دروازہ کھولا اور میر خان کو دیکھ کر حیران ہوا۔
”کیا ہوا، میر خان”؟
ہیوتان نے سوال کیا، لیکن اس کی آواز میں معمولی سا خوف بھی تھا۔
”میں یہاں کچھ لینے آیا ہوں”۔میر خان نے تکبر سے جواب دیا۔ اس کی نیت واضح تھی۔
”یہاں کچھ بھی نہیں ہے جو آپ کو ملے گا”۔
ہیوتان نے مضبوطی سے کہا:”آپ کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں”۔
لیکن میر خان نے اس کی بات سننے سے انکار کر دیا اور اندر گھسنے کی کوشش کی۔ہیوتان فوراً آگے بڑھا اور اسے روکنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ ”یہ میرا گھر ہے ، اور میں کسی کو بھی یہاں داخل نہیں ہونے دوں گا”۔
جواب میں میر خان نے غصے میں آ کر اس کا بازو پکڑ لیا۔”تو تم مجھے روک رہے ہو”؟اس نے غصے سے پوچھا۔
ہیوتان نے اپنے ہاتھوں کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو آزاد کیا اور میر خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:”میں ایک
عام آدمی ہوں، لیکن میں اپنی عزت کا سودا نہیں کروں گا”۔
میر خان، ہیوتان کے ساتھ جھگڑے کے بعد غصے میں بھرا ہوا اپنے گھر کی طرف لوٹا۔اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ کیسے ہیوتان نے اسے اپنے گھر میں داخل ہونے سے روکا۔
گھر پہنچ کر وہ بے صبری سے اپنے والد کے پاس گیا۔”ابا، آپ کو پتہ ہے کیا ہوا”؟
اس نے غصے اور حیرت سے کہا۔”ہیوتان نے مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک دیا! اس کی جرات دیکھیں، جیسے وہ بکریاں چرانے والا نہ ہو بلکہ کوئی بادشاہ ہو”!
سردار رحیم خان نے بیٹے کی بات سن کر غصے سے چہرہ بدل لیا۔”یہ حقیر آدمی تم سے ٹکرانے کی جرات کرتا ہے ؟ یہ تو ناقابلِ برداشت ہے” !
”ابا، میں نے اسے کہا کہ وہ میرے راستے سے ہٹ جائے ، لیکن اس نے میری بات نہیں سنی۔ وہ خود کو بڑی چیز سمجھتا ہے ”،میر خان نے مزید کہا، اس کی آنکھوں میں غیض و غضب کی چمک تھی۔
”میں اسے سبق سکھاؤں گا”،سردار رحیم خان نے غصے سے کہا۔ ”تمہیں یقین دلاتا ہوںکہ اس دو ٹکے کے آدمی کو پتہ چل جائے گا کہ سردار رحیم خان سے ٹکرانے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے !”
کچھ ہی گھنٹوں بعد، بارڈر ملٹری پولیس ہیوتان کے گھر پر پہنچ گئی۔ انہوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور سختی سے کہا،”تمہارے خلاف کئی شکایات آئی ہیں، اور تمہیں ان کا جواب دینا ہوگا”۔
اسی دوران سردار نے اپنے وڈیروں کو اکٹھا کیا اور کہا،”میں چاہتا ہوں کہ تم سب اس کی حمایت کرنے کے بجائے اس کے خلاف کھڑے ہو جاؤ۔ کوئی بھی اس کی حمایت نہ کرے” ۔
وڈیرہ گلے ، جو ماضی میں بھی اس بات پر شکایت کر چکا تھا، بولا،”سردار، ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے سردار کے سامنے آنے کی ہمت کی ہو۔ اس طرح تو کل ہر کمی کمین ہمیں آنکھیں دکھائے گا”!
سردار کا حکم مراثی حیات تک بھی پہنچ چکا تھا کہ ہیوتان کی تذلیل کی جائے اور محفلوں میں اس کا مذاق اڑایا جائے ۔ ایک شادی کے موقع پر، مراثی حیات نے ہیوتان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ”دیکھو بھائیو، ہیوتان کی حیثیت تو محض اتنی ہے کہ باڑے میں دس بکرے نہیں ہیں لیکن خود کو بادشاہ سمجھتا ہے ”۔ہنسی کے قہقہے لگنے لگے اور لوگ ہنستے رہے ۔
اگلے جمعے کو، مولوی کلیم اللہ، جس کے گھر پچھلی رات کو سردار کی طرف سے سال بھر کا گندم پہنچا دیا گیا تھا، نے مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے کہا، ”میرے پیارے بھائیو! آج ہم یہاں ایک اہم موضوع پر بات کرنے جمع ہوئے ہیں۔ ہیوتان نے سردار کے بیٹے کی بے ادبی کی ہے ۔ ہمارا مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ حاکم کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے” ۔
اس کی تقریر سن کر لوگ سر ہلا رہے تھے اور بعض نے ہیوتان پر لعنت ملامت بھی کی۔
ان سب حالات میں، جب سردار سمیت پورا گاؤں ہیوتان کے خلاف شمشیر بے نیام تھا، دانشور شاہو خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔
ایک دن جب ہیوتان پر مقدمات، ظلم، اور ناانصافیوں کا بوجھ حد سے زیادہ بڑھ گیا، تو غصے کی شدت میں اس کے منہ سے سردار کے لیے ایک گالی نکل گئی۔ یہ لمحہ گاؤں کی فضا کو چیرتا ہوا سب تک پہنچا۔ سردار کے محل سے لے کر مسجد کے مینار تک، سبھی کی نظریں ہیوتان کی طرف اٹھ گئیں۔اسی لمحے ، دانشور شاہو کی چال میں اچانک گھوڑے کی سی تیزی آ گئی۔ وہ، جو ہمیشہ سردار کے ظلم اور استحصال پر خاموش رہتا تھا، اب اخلاقیات کا علمبردار بن کر آگے آیا اور ہیوتان پر چڑھ دوڑا۔ اس کی آواز گونجی،”یہ کیا بدتمیزی ہے ! گفتگو کا بھی کوئی سلیقہ ہوتا ہے ۔ گاؤں کی روایات اور اخلاقیات کا کیا ہوگا”؟
شاہو کی مذمت کے ساتھ، گاؤں کی فضاؤں سے ہر ظلم، ہر استحصال، اور ہر ناانصافی کا وجود جیسے غائب ہو گیا۔ نہ سردار کے جرائم کا تذکرہ رہا، نہ مظلوموں کی آہیں سنائی دیں۔ ہر طرف صرف ہیوتان کی گالی کی گونج تھی، جو گاؤں والوں کے کانوں میں اس طرح مرتعش ہوئی کہ یہ ایک لفظ سب سے بڑا گناہ ٹھہرا۔ شائستگی کے خودساختہ پیمبر شاہو کی مذمت نے انصاف کی تعریف کو مسخ کر دیا تھا؛ حق اور باطل کی سرحدیں گالی کی گونج میں کہیں دفن ہو چکی تھیں۔گاؤں بارتھی کی فضاؤں میں، شاہو کی مذمت اور ہیوتان کی گالی کے بعد سب کچھ ساکت تھا۔ ظلم و استحصال کی پرانی داستانیں مٹ چکی تھیں اور نئی کہانی صرف ایک گالی کی رہی۔ کوئی اور جرم باقی نہ رہا، ہر طرف ہیوتان کی لغزش کا چرچا تھا۔
اور اسی پس منظر میں، کائنات کی خاموشی کو چیرتی ہوئی ایک آواز اُبھری جو گاؤں کی حقیقی کہانی کو بے نقاب کرتی تھی:
یہ رسم تازہ نہیں ہے اگر تری لغزش
مزاجِ قصر نشیناں کو ناگوار ہوئی
ہمیشہ اُونچے محلّات کے بھرم کے لئے
ہر ایک دَور میں تزئینِ طوق و دار ہوئی
کبھی چُنی گئی دیوار میں انار کلی
کبھی شکنتلا پتھراؤ کا شکار ہوئی
مگر یہ تخت یہ سلطاں یہ بیگمات یہ قصر
مؤرخین کی نظروں میں بے گناہ رہے
بفیضِ وقت اگر کوئی راز کھل بھی گیا
زمانے والے طرفدارِ کجکلاہ رہے
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے