... loading ...
جاوید محمود
مجھے 1980میں سنگاپور جانے کا اتفاق ہوا ۔یہ دنیا کا ایک ایسا پیارا ملک ہے جسے آپ ایک گھنٹے میں پورا گھوم سکتے ہیں۔ یہاں کی ترقی اور صفائی نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ 1965میں سنگاپور مشکلات میں گھرا ہوا ملک تھا۔ جہاں غربت کا راج تھا اور آدھا ملک اوپیم کے نشے میں غرق تھا۔ ہر دوسرا سنگاپوری غذائی قلت کی وجہ سے انتہائی لاغر نظر آتا تھا ۔اس کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں۔ سنگاپور کے لوگ ہجوم سے قوم کیسے بنے؟ مثالی تاریخ پر مبنی سنگاپور یورپ اور ایشیا کو جوڑنے والی ملا کا پر واقع ہے۔ عالمی تجارت کا 40فیصد اسی آبنائے سے گزرتا ہے اسی کی اہمیت کی وجہ سے 1819 میں برطانیہ نے اس علاقے کو اپنی کالونی بنا لیا تھا ۔دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942 کو جاپانیوں نے اس پر قبضہ کیا۔ جاپانی اس خطے پر 1945تک قابض رہے۔ 3جون 1959کو برطانوی کالونی کے زیر اثر رہتے ہوئے ایک خود مختار حکومت سنگاپور میں قائم کی گئی اور پیپلز ایکشن پارٹی کے ”لی کوان یو” نے بانی وزیراعظم کے طور پراس کی باگ دوڑ سنبھالی ۔16 ستمبر 1963 میں یہ ریاست برطانیہ سے آزاد ہو کر ملائشیا میں شامل ہو گئی۔ مگر پیپلز ایکشن پارٹی اور ملائشین الائنس کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے 9اگست 1965کو علیحدہ مملکت بن گئی اور جمہوریہ سنگاپور کے نام سے ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایشیا کا یہ چھوٹا سا ملک دنیا کی ایک مضبوط معیشت بن گیا۔
سنگاپور جنوب مشرق ایشیا میں ایک چھوٹا سا ملک ہے ۔یہ جنوب مشرقی ایشیا میں واقع 63مختلف جزائر پر مشتمل ہے۔ ہیرے کی شکل سے مماثل یہ ملک ایک قدیم بندرگاہ کے طور پر جانا جاتا ہے، اس کا رقبہ 683مربع کلومیٹر ہے یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 176واں بڑا ملک ہے اس کی آبادی تقریبا 58لاکھ ہے ،یہ آبادی کے لحاظ سے 113ویں نمبر پر ہے ۔اس کی فی کس آمدنی جاپان جرمنی اور فرانس سے زیادہ ہے ۔سنگاپور ہانگ کانگ تائیوان اور جنوبی کوریا نے 1960کے بعد برآمدات اور صنعت کاری کی بدولت ترقی کی ہے۔ سنگاپور نے انہی بنیادوں پر اپنی معیشت کو کھڑا کیا ۔سنگاپور کے شمال میں ملائشیا واقع ہے جو اس کا واحد پڑوسی ہے۔ سنگاپور کے مقامی لوگ تین قسموں کے ہیں ۔چینی ،مال اور تامل انڈین ۔اس کے علاوہ سنگاپور کی 36فیصد آبادی تارکین وطن کی ہے جو دنیا بھر سے آئے ہوئے ہیں۔ سنگاپور میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں انگریزی چینی اور مال شامل ہیں۔ تاہم انگریزی تقریبا ًہر کوئی سمجھ لیتا ہے ۔سنگاپور ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ دنیا بھر سے اس کا رخ کرتے ہیں ۔اس کا دارالحکومت بھی سنگاپور کہلاتا ہے ۔اکثریت چینی نسل کے لوگوں کی بدھسٹ 33مسلمان 14فیصد ہیں۔ یہاں کی سب سے بڑی اکثریت چینی نسل کے لوگ ہیں جو 74.1فیصد ہیں ۔13.4مالے نسل کے لوگ ہیں۔ 9.2ہندوستان پاکستانی ہیں اور 3.3فیصد دیگرنسلی لوگ ہیں جن میں یورپین وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں اور رواداری عام ہے۔ 33.2بدھ مت 18.8مسیحت14فیصد اسلام ٹین فیصد تاؤ مت آور چینی لوگ مذہب کے ماننے والے ہیں ۔پانچ فیصد ہندو مت جبکہ 18فیصد لوگ کسی مذہب کو نہیں مانتے۔ ایشین ٹائیگر دنیا بھر میں کاروبار کے لیے آسان ترین ملکوں میں شامل ہے ۔اس ملک کی کرنسی کا نام سنگاپور ڈالر ہے جو ایک مضبوط کرنسی سمجھی جاتی ہے۔ 1959میں سنگاپور میں بے روزگاری کی شرح 14 فیصد تھی جو 1970میں محض 4.5فیصد رہ گئی۔ پہلے وزیراعظم لی کو ان یو نے سنگاپور کے محل وقوع کا فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ مینو فیکچرنگ انڈسٹری اور کاروباری آسانیوں پر توجہ دی۔ 1980تک سنگاپور خطے میں مینوفیکچرنگ کا مرکز اور ہارڈ ڈسک ڈرائیو کا سب سے بڑا پروڈیوسر بن چکا تھا اس طرح درست حکومتی پالیسیوں اور عوام کی ایمانداری اور جذبے سے کی گئی محنت کی بدولت آج سنگاپور دنیا میں کاروبار کرنے کے لیے سب سے آسان ملکوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ۔سنگاپور فی کس آمدنی کے لحاظ سے امیر ہے۔ یہاں تقریبا ایک لاکھ 84 ہزار کروڑ پتی رہتے ہیں۔ سنگاپور وہ ملک ہے جس کا پاسپورٹ انتہائی طاقتور مانا جاتا ہے۔ اس ملک کے باشندے چائنا شمالی کوریا اور امریکہ جیسے ممالک میں بغیر پاسپورٹ سفر کر سکتے ہیں۔ یہ ملک اگرچہ پاکستان کی طرح قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال نہیں ہے۔ یہاں تک کہ یہ اپنا پینے کا پانی بھی انڈونیشیا اور ملائشیا سے حاصل کرتا ہے مگر اس کی ترقی پھر بھی حیران کن ہے ۔اس کی وجہ سے صرف ایک ہے حکومت اور عوام کا ایک پیج پر ہونا اور اپنے ملک سے شدید ترین محبت اور وفاداری کرتے ہوئے دن رات محنت کرنا اور قانون کی مکمل عملداری کو بنانا اور اس معاملے میں کسی قسم کی تفریق نہ کرنا ۔سنگاپور صفائی کے اعتبار سے دنیا کا نمبر1ملک مانا جاتا ہے۔ سنگاپور میں جگہ جگہ سائن آویزاں ہیں جس پر لکھا ہے کہ گندگی کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ سنگاپور میں چیونگم کھانے پر پابندی ہے۔ اگر کوئی شخص سگریٹ یا کوئی چیز سڑک پر پھینک دے تو اسے ایک ہزار ڈالر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور اگر وہ دوسری دفعہ یہی حرکت کرے تو اسے پر دو ہزار جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور تیسری دفعہ میں اسے تین ہزار جرمانہ دینا پڑتا ہے اور پانچ ماہ قید بھی دی جا سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب سنگاپور میں ایک پارک میں گھومتے ہوئے لیچی کھا رہا تھا تو خوف کے مارے اس کے چھلکے ایک تھیلی میں جمع کیے اور وہاں موجود ایک کچرے کے ڈبے میں ڈال دیے۔ مجھے اندازہ تھا کہ ایک چھوٹی سی غلطی کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قانون کی گرفت نہیں ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں اگرچہ سنگاپور کے آثار ملتے ہیں مگر چودھویں صدی میں مستند روایت کے ساتھ یہاں مچھیروں کی تجارتی بستیاں آباد تھیں۔ یوں تو اس خطے پر کئی خاندانوں نے حکومت کی جیسے ملا کا پرمشوروغیرہ مگر جب 1819 میں سر تھامس اسٹیم فورڈ رائفلز نے اس علاقے پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں جوہرو خاندان کی حکومت تھی۔ لڑائی کے دوران اس علاقے کا فرما روا شاہ حسین جوہرو بھاگ گیا اور یہ علاقہ برطانوی کالونی بن گیا۔ بعد ازاں سر رافلز نے شاہ حسین کو واپس بلا کر ایک معاہدے کے تحت تخت اس کے حوالے کر دیا۔ یہ فیصلہ انگریز کی زبردست سیاسی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کاروبار کے لیے دو ملک محفوظ ترین مانے جاتے ہیں ۔ایک نیوزی لینڈ اور دوسرا سنگاپور۔ سنگاپور آج ان پانچ ممالک کی صف میں کھڑا ہے جہاں کرپشن کا تصور بہت کم ہے اور کسی حد تک نا پید بھی۔ جبکہ اس سے بہت پہلے آزاد ہونے والا ہمارا ملک کرپشن انڈیکس کے 1980 ممالک کے صف میں 140 ویں نمبر پر ہے۔ یہاں کے شہری قانون کا حد درجہ احترام کرتے ہیں ۔ایک دفعہ ایک شخص نے میٹرو ٹرین میں چیونگم پھینک دی جس کی وجہ سے میٹرو کا گیٹ جام ہو گیا اور کئی گھنٹے لوگوں کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کے بعد یہ قانون بن گیا کہ آپ چیونگم نہیں کھا سکتے اور لوگوں نے اس قانون کی پاسداری کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ اس ملک میں بے روزگاری کی شرح دو فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں مذہبی رسومات کی مکمل آزادی ہے جرائم کی روک تھام کے حوالے سے بھی ملک اپنی پوری خوش قسمتی کے ساتھ نقطہ عروج پر ہے۔ جرائم کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کی وجہ یہاں کے سخت قوانین اور ان کا اطلاق ہے۔ یہ ملک خوبصورتی اور صفائی ستھرائی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پارکس اور سبزے کی بہتات ہے۔ اگرچہ اس ملک کو اپنا رقبہ بڑھانے کے لیے جنگلات کا صفایا کرنا پڑا ہے مگر پھر بھی یہاں درخت اور سبزہ اس کے حسن میں اضافہ کرنے کے لیے موجود ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا فوارہ سنگاپور میں واقع ہے، جسے 1997میں 6ملین امریکی ڈالر خرچ کر کے تعمیر کیا گیا تھا۔ نائٹ زو اور نائٹ سفاری پارک بھی اس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ چانگی ایئرپورٹ ایشیا کا سب سے خوبصورت ایئرپورٹ مانا جاتا ہے جس سے کئی سال سے بہترین ایئرپورٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔سنگاپور کو عالمی طور پر اس کے صاف ستھرے راستوں خوبصورت پارٹس اور کوڑے کرکٹ سے پاک گلیوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آج کل چنگاپور پرسنل سیکیورٹی بلند معیار زندگی اور عالمی شہروں کی رینکنگ میں سب سے اوپر ہے۔ اس کے علاوہ عالمی فری مارکیٹ اکانومی میں یہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ مسابقت پذیر ملک ہے یہاں کے 90فیصد عوام کے پاس اپنے ذاتی گھر ہیں اور باقی 10 فیصد کے پاس بھی اعلیٰ پیمانے کی رہائشی سہولیات موجود ہیں۔ سنگاپور 9اکتوبر 1965میں ایک آزاد جمہوریہ کے طور پر سامنے آیا۔ اس کی غیر معمولی ترقی اس وقت شروع ہوئی جب وزیراعظم لی کوان یو نے اپنا عہدہ سنبھالا۔ اس دور میں اعلیٰ معیار کی تعلیمی درسگاہیں اور جا بجا صنعتی اور الیکٹرانک یونٹ لگائے گئے، جو بے حد تکنیکی نوعیت کے تھے جنہوں نے اس ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لا کھڑا کیا ۔2017 میں ان کی سالانہ جی ڈی پی فی کس آمدنی 54 ہزارامریکی ڈالر جا پہنچی تھی جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان میں فی کس آمدنی صرف 1600 ڈالر تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان 1947میں آزاد ہوا جبکہ سنگاپور نے اپنی آزادی 1965 میں حاصل کی تھی۔ یعنی ہم سے بھی18 سال بعد۔
ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ ان کی کامیابی اور ترقی کا بڑا راز یہ ہے کہ ان کا سارا سیاسی نظام انصاف اور مذہبی رواداری پر قائم ہے جو ایک ایماندار قابل اور صاحب بصیرت لیڈرشپ پر ہے جولی کوان یو کی شکل میں انہیں ملا ہوا ہے۔ انہوں نے سنگاپور جیسی ایک چھوٹی سی بندرگاہ کے اس پار بسنے والے لوگوں کو ایک انتہائی جدید شہری ریاست میں تبدیل کر دیا جس کی مجموعی جی ڈی پی 340ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ 2021میں اس کی برآمدات کا حجم 614ارب امریکی ڈالر تھا جبکہ پاکستان میں یہ بمشکل 25 ارب امریکی ڈالر ہے۔ اس سے اس ملک کی ترقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تصور کریں اس چھوٹے سے ملک اور لوگوں کے ہجوم نے ایک قوم کی شکل کیسے اختیار کی جبکہ یہ ملک قدرتی معدنیات سے محروم ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالی نے پاکستان کو دنیا کی تمام نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے اور پاکستان کو آزاد ہوئے 77سال مکمل ہو چکے ہیں ۔افسوس کہ آج بھی ہم لوگوں کا ہجوم ہیں ایک قوم نہیں۔