... loading ...
رفیق پٹیل
حا لیہ آئینی ترامیم پر دنیا بھر سے ہونے والی تنقید پر بعض ایسے حلقوں کی جانب سے ردّ عمل آیا ہے جو برسراقتدار حلقوں کے قریب ہیں۔ جن کی عوام میں پزیرائی بھی نہیںہے ۔عالمی اداروں کی تنقیدکو یکایک جھٹلانا اور اس کا جائزہ لیے بغیر رد کرنا حیرت انگیز طرز عمل ہے ۔ پاکستان کی برسراقتدار اشرافیہ میں شامل عناصر اور بعض دانشورجان بوجھ کر، نا دانستگی یا کم علمی کے باعث دنیا کے انتہائی معتبراداروں کی جانب سے پاکستان میں طرز حکمرانی کے نقا ئص اور اس کے بھیانک اثرات کی نشاندہی پر توجہ نہیں دیتے بلکہ انہیں جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی دانست میں دنیا بھر کے سماجی سیاسی ماہرین ،تحقیقاتی ادارے اور عالمی سطح کے معتبر صحافی غلط ہیں۔ ان کی نظر میں شاید پاکستان اعلیٰ درجے کی اچھی حکمرانی اور خوشحالی کے سفر کی جانب گا مزن ہے۔ اس لیے پاکستانی حکمرا نوں کود نیا کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان عناصر کو اس کی بھی فکر نہیں کہ ان رپورٹوں کوجھوٹا ثابت کرنے کی کوشش سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات ہوں گے ۔تجارت اور صنعت سست روی یا جمود کا شکا ر ہوں گی، انہیں شاید اپنے نقطہ نظر پر ڈٹ جانے سے ممکنہ طور پر وقتی فائدہ ہو گا یا کسی قسم کی تسلّی مل رہی ہے ۔ساری دنیا کے عالم فاضل لوگوں کو غلط تصّور کرنا یا ان کی باتوں کا گہرائی سے جا ئزہ لیے بغیر خود کو صحیح ثابت کرنادانشمندی کا تقا ضا نہیں ۔یہ حقا ئق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ معتبر عالمی ادارے کس طرح پاکستان کی حالیہ آئین ترامیم پر چیخ رہے ہیں ۔انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے)ایک عالمی غیر سرکاری ادارہ ہے جو دنیا کے بہترین ججوں اور قانون دانوں پر مشتمل ہے ۔یہ ادارہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے بارے میں آگہی فراہم کرتا ہے اور ایسی تجاویز دیتا ہے جس سے حکمرانی کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس نے پاکستان کی حالیہ آئینی ترامیم پر اپنی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم عدلیہ کی آزادی ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی تباہی کے مترادف ہے۔ ان ترامیم سے پاکستان کا عدالتی ڈھانچہ ہی تبدیل ہو جائے گا۔ آئی سی جے کے سیکریٹری سینٹیاگو کینٹن کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں عدلیہ کے ججوں اور دیگر انتظامیہ کی تقرّریوں پر انتہائی درجے کا سیاسی دبائو ہوگا۔عدلیہ کی آزادی ختم ہوگی اور عدلیہ ریاست کے اداروں کی جانب سے عوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گی۔ انتہائی جلد بازی میں اس مسودے کو سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کراکے وزیر اعظم کی منظوری اور صدر کے دستخطوں کے بعد نافذ بھی کردیا گیا ۔اس کے مسودے کو خفیہ بھی رکھا گیا اور ضروری مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ اقوام متّحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ واکر ترک نے تنبیہ کی ہے کہ ان ترامیم سے عدلیہ کی آزادی پر بدترین اثرات ہونگے ۔انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے ان ترامیم کو جلد بازی، بغیر مناسب بحث اور مشاورت کے منظور کرانے پر سخت تنقید کی گئی ۔برطانوی اخبار دی گارجین نے اپنی ایک رپورٹ میںتحریر کیا ہے کہ پاکستان میں عوا می نمائندوں کو ہراساں کرکے عدلیہ کی آزدی کو غصب کرلیا گیا۔ گارجین نے سیاستدان مصطفی نواز کھوکھر کا ایک مضمون بھی علیحدہ سے دوسری اشاعت میں شائع کیاہے جس میں انہوں نے رائے دی ہے کہ پاکستان کی کمزور جمہوریت تباہی سے دوچار ہورہی ہے۔ ممتاز بھارتی تجارتی اخبار بزنس اسٹینڈرڈ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ پاکستان میں عد لیہ کے اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔ ایک اور بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ متنازع آئینی ترامیم نے عدلیہ کے اختیارات کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے ۔
امریکہ ،برطانیہ کی سابق پاکستانی سفیر اور اقوم متّحدہ کی سابق سفارتی مندوب ملیحہ لودھی نے ان ترامیم کے بارے میں پاکستان کے انگریزی اخبار میں ایک مضمون تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ” عدلیہ کے پر کاٹ دیے گئے اور ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کردی گئیں کہ ان ترامیم پر تنقید کو کم از کم دکھایا جائے۔ ملیحہ لودھی نے تحریر کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے حکمراں جماعتوں کا جمہوریت پراعتماد ختم ہوتا ہوا نظر آتاہے ۔وہ جمہوری اصولوں سے انحراف کر رہی ہیں ۔کوئی بھی حکومت اختیارات کی بنیاد پر نا قابل تسخیر نہیں ہوتی ہے۔ ایسی طاقت کا حصول جو جوابدہ نہ ہو دراصل کمزوری کی علامت ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے حکومتوں کو تحفّظ حاصل نہیں ہوتا۔ عدلیہ کو بے اختیار کرنے سے ملک کے ادار ے کمزور ہونگے اور حکومت کی کارکردگی بھی خراب ہوگی ” ۔ دوسری جانب اقوام متحّدہ کی رپورٹ کے بارے میں سرکاری ردّعمل بھی حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متّحدہ کو دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پراپنی توجّہ مرکوز کرنی چاہئے ۔یہ جواب ایساہی ہے ”جیسے کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کسی طالب علم کوامتحانی نتیجے کی خرابی کی وجہ سے مشورہ دے کہ اپنی کارکردگی کو خراب نہ ہونے دو اور طالب علم جواب دے کہ میری جماعت کے دو تین دوسرے طالب علموں کانتیجہ مجھ سے بھی خراب ہے ۔آپ میری بات نہ کریں اپنا مشوہ ان طا لب علموں کو دیں”۔
کوئی بھی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس بات کی نفی نہیں کرسکتا کہ ملک مضبوط اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب انصاف کے ادارے موثّر اور با اختیار ہو ں لوگوں کی جان ومال محفوظ ہو،ان کی رائے کا احترام کیا جائے ،انہیں امور مملکت میں شرا کت کا احساس ہو ،ان کی بنیادی ضروریا ت پوری ہورہی ہوں، انتظامیہ ،عدلیہ اورمقنّنہ کے ادارے ذ مّہ داری اور شفّافیت سے موثر انداز میں کام کر رہے ہوں ،دنیا میں ترقی کرنے وا لے مما لک میں ایک اور قدر مشترک اخلاقی اقدار بھی ہیں۔جہاں جھوٹ اور فراڈ کو انتہائی برا تصوّر کیا جا تا ہے۔ ہم اگر مبیّنہ انتخابی فراڈ پر ساراڈھاڈھانچہ کھڑا کرکے نظام چلائیں گے اور اس کی تحقیقات میں بھی رکاوٹیں پیدا کریں گے ان حالات میں کیسے کوئی اچھی حکمرانی کے درس پر یقین کرے گا۔
یونیورسٹی آف پورٹ ہارٹ کورٹ کے شعبہ معیشت کے محقّق ایمینیول الاکھے جوبینکاری، مالیاتی امور کے ساتھ آڈٹ کا بھی وسیع تجربہ رکھتے انہوں نے ”معاشی ترقی کے لیے اخلاقی اقدار کی اہمیت ” کے عنوان سے اپنا ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے جسے انٹرنیٹ پر بھی دیکھا جا سکتاہے ،ان کا کہنا ہے اخلاقی اقدار کے ذریعے ہی صحیح اور غلط کی پہچان ہوتی ہے ۔اچھائی اور برائی کاتعیّن کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ اقدار رکھنے والے معاشرے میں شفا فیت فروغ پاتی ہے۔ لوگوں کے پاس زندگی بہتر بنانے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جھوٹ، فریب،چوری اور فراڈ سے معاشرہ محفوط رہتا ہے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ایک ممتاز اطالوی سیاستدان نے کہا تھا ہم نے اٹلی تو بنا لیا اب ہمیں اطالوی قوم بننا ہے۔ اس کے بغیر معاشی ترقّی محض خام خیالی ہوگی ۔میرے خیال میںکسی بھی قوم کی معاشی ترقی اعلیٰ اخلاقی اقدار کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔پاکستان میں ان ا مور پر کبھی توجّہ نہ دی گئی عالمی ادار ے چیخ چیخ کر ہما ری خامیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور حکمران طبقات نہ عوام پر اعتماد کرنے کو تیار ہیں نہ ہی دنیا کے معتبر قانونی،سیاسی اور سماجی ماہرین کی رائے کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ اس طرز حکمرانی کونا کا می کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ عوام ہی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں کا ش کہ ملک کی بہتری اور خوشحالی کے لیے عوام کی رائے کا احترام کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔