... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
نئے چیف جسٹس کی تعیناتی سے کیا بہتری ہوگی اور آنے والے دنوں میں ہماری عدالتی نظام کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس پر بات پھر کبھی ہوگی آج ہم یوم سیاہ اور جاوید ہاشمی کی باتوں پر غور کرینگے۔ سب سے پہلے میں دنیا بھر میںمنائے جانے والے یوم سیاہ کا تذکرہ کرونگا ۔کنٹرول لائن کے دونوں اطراف اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے 27اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غیرقانونی تسلط کے خلاف بھرپورانداز میں یوم سیاہ منا یا اور دنیا کو واضح پیغام دیا گیا کہ کشمیری اپنی سرزمین پر بھارت کے ناجائز قبضے کو مسترد کر تے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان ،آزا دکشمیر اور دنیا بھر میں احتجاجی مارچ،جلسے جلوس، ریلیاں اور سیمینار زمنعقد کیے گئے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال رہی ،جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکررہ گیا ۔کشمیریوں نے اپنی سرزمین پر بھارت کے ناجائز قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیاہے۔ بھارت کو بھی چاہئے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ لے اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دیا جائے جس کا اس نے اقوام متحدہ میں وعدہ کررکھا ہے۔ عالمی برداری کو بھی چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں عالمی قراردادوں پرعملدرآمد کرائے اور بھارت کے غیرقانونی قبضے،یکطرفہ اقدامات اور کشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم کا نوٹس لے بھارت کشمیریوں کے حق خودارادیت کا جائز مطالبہ کئی دہائیوں سے طاقت سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے ۔کشمیری بہن بھائی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے جائز حق کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ حق خود ارادیت مقبوضہ کشمیر کے عوام کا بنیادی حق ہے پاکستان کشمیری عوام کی عالمی و علاقائی فورمز پر سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ پاکستانی قوم کشمیر ی عوام کی حق خود ارادیت کی تحریک کی حمایت اور ان سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ 27اکتوبر 1947کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کا غیر قانونی اور انتہائی شرمناک اقدام تھا۔ 27اکتوبر کو تاریخ میں ہمیشہ سیاہ دن کے طور یاد رکھا جائے گا۔ بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو ظلم و بربریت سے دبانے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے ۔بھارت 77سال سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ عالمی برادری اب تک کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ اقدام نہیں کرسکی۔ شہید برہان وانی سمیت مقبوضہ کشمیرکے تمام شہدا نے بہادری کی اعلی مثال قائم کی ہے۔ 33 برسوں کے دوران مقبوضہ جموںوکشمیر میں 1 لاکھ کشمیری شہید کردیے گے۔ 2 لاکھ سے زائد بچے شفقت پدری سے محروم ہوئے ہیں، 22 ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں، 10 ہزار سے زائد خواتین نیم بیوہ زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے خاوند شہید ہوگے ہیں یا پھر غائب کردیے گے۔ جن کا آج تک علم نہیں ہوسکا ہے ۔ آج یہ خطہ جبر کی شدت برداشت کر رہا ہے ۔ہزاروں سیاسی رہنما اور کارکن جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔14سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہے۔ ایمرجنسی اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت بھارتی افواج کو وسیع اختیارات حاصل ہیں جس کی وجہ سے بھارتی افواج کسی بھی فرد کو گرفتار کرنے یا جان سے مار دینے اور املاک کو تباہ کرنے کے اقدامات میں ملوث ہیں۔ حال ہی میں غیر قانونی بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہیں لیکن کوئی بھی ایسا اقدام جو بھارت کے آئین کے فریم ورک کے تحت اور بڑی تعداد میں بھارتی فوج کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔50لاکھ بھارتیوں کو مقبوضہ کشمیر میں بساکر بھارت کی کوشش ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو منی انڈیا میں تبدیل کردے۔90 ء کی دہائی میں مقبوضہ جموںوکشمیر سے ہزاروں افراد ہجرت پر مجبورہوئے ہیں اور آج تک آزادی کی امید لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں جو لو گ اپنے ماں باپ عزیز و اقارب سے دور ہیں ، ان کیلئے زندگی کے تلخ ایام گزارنا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل تر ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مقبوضہ جموں کشمیر کی عوام نے بھارت کے آئین میں تبدیلی اور جعلی انتخاب کو بری طرح ناکام بنا دیا۔ حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو پھانسی گھاٹ کے قریب رکھا ہوا ہے۔ آسیہ اندرابی بہت بیمار ہیں ان کو تہاڑ جیل میں رکھا ہوا ہے اور ہمیں اپنے پیاروں اور رہنماں کی لاشیں تک نہیں ملتیں ۔بھارت نے کشمیریوں کے تمام حقوق سلب کررکھے ہیں، کشمیری عذاب سے گزر رہے ہیں لیکن ڈٹے ہوئے ہیں ۔اس صورتحال میں پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم شدہ کشمیریوں کا حق خودارادیت ایک انسانی حق ہے اور ایک بنیادی انسانی حق کو کسی بھی ظلم و جبر سے چھینا نہیں جا سکتا۔
اب کچھ باتیں جاوید ہاشمی کی کرتے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ملک میں بحران کے خاتمے کیلئے عام انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ موجودہ حکومتیں ڈیڑھ دو ماہ کیلئے ہیں۔ ہوسکتا شہبازشریف بھی وزیراعظم نہ رہیں۔ہماری مقتدرہ کے اوپر بہت زیادہ دبائو ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان مزید ڈیڑھ مہینہ جیل میں رہ سکتے ہیں۔ اب خان کو رہائی کیلئے نہیں عوام کو غربت سے نکالنے کیلئے ڈیل کرنا ہوگی جبکہ 26 ویں آئینی ترمیم نے پاکستان یا عدلیہ کے نظام کو کچھ نہیں دیا بلکہ بہت کچھ چھین لیا ہے ۔اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ سے توقعات کرنا کہ وہ قوم کے مسائل حل ہونگے اور لوگوں کو انصاف د ے سکیں گے تو یہ خلاف توقع بات ہوگی۔ قاضی فائز عیسی چلے گئے لیکن بہت ساری ایسی چیزیں کرگئے جو نہ ہوتی تو بہتر ہوتا ۔اس وقت سپریم کورٹ دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ایک آئینی عدالت ہے اورایک غیرآئینی عدالت جبکہ سپریم کورٹ کہیں نہیں ہے۔ ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا آسان ہوجائے گا۔یہ کہنا کہ پارلیمنٹ کو طاقت ملی ہے یہ طاقت پہلے بھی ملتی تھی ۔اس سے قبل ایک 13ویں ترمیم بھی تھی جو پڑی ہوئی ہے۔ نوازشریف چاہتے تھے کہ سارے اختیارات وزیراعظم کے پاس آجائیں جس پر میں نے کہا تھا کہ آپ کو وزیراعظم بنانے کیلئے ووٹ دیا تھا۔ امیرالمومنین بنانے کیلئے ووٹ نہیں دیا تھا جبکہ 8فروری کا فیصلہ عوام کا فیصلہ تھا، جس کے بعد موجودہ حکومت کی اپنی کوئی سیٹ نہیں ہے۔ اب پاکستان کا جمہوری اور عدالتی نقشہ بدل رہا ہے اور آنے والے دنوں میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گے ۔