وجود

... loading ...

وجود

سول آمریت کا بدترین وار

پیر 28 اکتوبر 2024 سول آمریت کا بدترین وار

ب نقاب /ایم آر ملک

نفرت کا لاوہ اُبلا تو مال روڈ پر یہ منظر بھی دیکھا گیاکہ کتوں اور گدھوں کے گلوں میں حکمرانوں کے نام کی تختیاں ہیں اور وہ جلوس کی قیادت کررہے ہیں ۔پاکستان کی آمرانہ تاریخ میں ایوب خان کو آمرانہ دستور کا بانی گردانا جائے گا جس نے جمہوری روایات کو پامال کر کے آمریت کے ننگے جسم کو جمہوریت کا چیتھڑا چیتھڑا پیراہن پہنا کر جوان کیا۔ اس کے آمرانہ دستور 1962ء کے مطابق وزراء کا انتخاب صدر کرتا تھا اور قومی اسمبلی کا رکن ہونا ضروری نہیں تھا۔ صدر جب چاہتا ان کو نکال سکتا تھا۔قومی اسمبلی کے پاس شدہ قانون میں ترامیم ، تجاویز، اسے مسترد یا قبول کرنے کے اختیارات صدر کے پاس تھے۔
عدلیہ کے ججوں کی تقرری اور تبادلہ بھی ایک آمر کے مرہون منت تھے وہ ہنگامی حالت کا اعلان کر کے عوا م کے بنیادی حقوق معطل کر سکتا تھا ،تمام دستوری اداروں کی بساط لپیٹ سکتا تھا،وزارتیں اور اسمبلیاں توڑ سکتا تھا بلکہ خود دستورایک آمر کے رحم و کرم پر تھا۔اس نے انتظامیہ میں بھی منتقم مزاج افراد کی تقرریاں خوب کیں ۔مشرقی پاکستان میں ذاکر حسین کو بطور آئی جی، عبدالمنعم کو بطور گورنر تعینات کیا جبکہ مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کو گورنر بنایا گیا جس نے مادر ملت فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایک آمر کی جیت کی راہ ہموار کی
ان افراد کی تقرریاں ایک ایسا عمل تھا جس میں دور ،دور تک سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد اور انتقام کی راہ دکھائی دیتی تھی۔ لاہور میں بیرون بھاٹی گیٹ پر ہونے والے ایک اجتماع میں ایک جماعت کے سربراہ پر فائرنگ کرائی گئی۔غرض یہ تینوں حکومتی اشخاص جبرو استبداد کا نشان بن گئے ۔رسم انتقام چلی تو عوام میں نفر ت نے جنم لیا۔
پولی ٹیکنیکل کالج راولپنڈی کے طلباء نے مقامی مسئلہ پر ہڑتال کی تو ریاستی پولیس نے طلباء کے جلوس پر گولی چلادی۔ایک آمر وقت کے خلاف یہ تحریک کی ابتدا تھی۔حکومت کے خلاف طلباء کے جلوس نکلے کسی نے آمر سے پوچھا،حکومت کے خلاف یہ جلوس چہ معنی دارد؟
ایوب خان نے کہا چند من چلے نوجوانوں کی شرارت ہے جو سیاستدانوں کے بہکاوے میں آکر ایسا کر رہے ہیں۔ جلسوں کی شدت تحریک کی شکل اختیار کر گئی ایوب خان کو مستعفی ہوناپڑا ۔
پاکستان کے تاریخی باب میں ایک آمر کا ازخوداستعفیٰ باعث حیرت ٹھہرا۔معروف صحافی مرحوم زیڈ اے سلہری ایوب خاںکے پاس پہنچے اچانک مستعفی ہونے کا سبب پوچھا،سلہر ی کا کہنا تھا کہ اس سوال پر ایوب خان کی آنکھوں میں آنسو آگئے،ایک آمر کی آواز شدت جذبات سے کانپ رہی تھی گویا ہوئے “کل صبح برآمدے میں بیٹھا تھا دیکھا کہ ان کے معصوم پوتے ایک عددجلوس کی قیادت فرما رہے ہیں جس کے مظاہرین میں ایوان صدر کے مالیوں ،قاصدوں،ڈرائیوروں کے بچے شامل ہیں،جلوس کی قیادت کرنے والا میرا پوتا ایوب ہائے ہائے کے نعرے بلند کر رہا ہے اور صدر سے کرسی چھوڑدینے کا مطالبہ بھی”۔تحریک میرے گھر تک پہنچ گئی اور میں مستعفی ہو گیا۔
مجھے یاد ہے جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی کے بعد جب ان کا قافلہ اسلام آباد سے لاہور کی طرف عازم سفر ہوا تھاتو حکومت کی طرف سے راستہ میں بنائی گئی تمام رکاوٹیں عوامی جذبات کے سیل رواںمیں بہہ گئیں ،ہزاروں افراد کا میلوں لمبا جلوس کارواں بن گیا یہ کارواں جب جہلم پہنچا تو ضلعی حکومت نے بازار اور دوکانیں بند کرا رکھی تھیں لیکن جہلم کے لوگوں نے گھروںکی چھتوں پر کھڑے ہوکر چیف جسٹس کا استقبال کیا۔ پیاسے لوگوں کی پیاس بجھانے کیلئے لوگ سڑکوں پر کھڑے ہوگئے یہی کچھ چودھریوں کے شہر گجرات میں ہوا۔سچی لگن اور عوامی محبت کے سائے میں اس قافلہ نے پانچ گھنٹے کا سفر ستائیس گھنٹے میں طے کیا اور وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ تئیس برس بعدکسی غیر سیاسی شخصیت کا اتنا غیر معمولی اور فقیدالمثال استقبال ہوا کہ آمریت کے ایوان لرز رہے تھے ۔یہ حکمرانوں کے خلاف تحریک عدم اعتماد تھی ۔ 18 کروڑ لوگوں کی جانب سے حکمرانوں کے خلاف ریفرنڈم تھا۔ایک آمر حکمران کے ترکش میں باقی آخری تیر سے یہ آخری شکار تھاجس نے ایک طاقتور آمر کے اقتدار کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔
26 ویں ترمیم کے ذریعے محض ایک منصف جسٹس منصور علی شاہ کو رستہ روکا گیا ،مگر عوام یحییٰ آفریدی کو مسیحا سمجھتے ہیں ،قاضی فائز عیسیٰ نے جس طرح انسانی حقوق کی پامالی کی ،اپنے ادارہ کے خلاف ایک غدار کا کردار ادا کیا اس نے ریاست کے اہم ستون کو اپنے ناپاک فیصلوں کے ہتھوڑے سے کاری ضربیں لگائیں ،25کروڑ عوام سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے خالصتاً مبنی بر انصاف اورعوام دوست فیصلے ان زخموں کا مداوا بنیں گے جو فائز عیسیٰ جیسے ننگ ِ وطن نے لگائے ،اس نے عوامی لٹیروں اور فارم 47کے حکمرانوں کو عدلیہ کی راسیں تھمادیں جنہوں نے اپنی کرپشن ،غیر آئینی اقدامات کو پارلیمنٹ کے سہارے قانونی شکل دینے کیلئے پی ٹی آئی کے ممبران کی خواتین اور بچوں کو اغوا کرکے 26ویں غیر آئینی ترمیم کی بنیاد رکھی ، عدلیہ کے متصادم ایک غیر آئینی اور من پسند افراد کو بطور جج تعینات کرنا جسکی پہلی کڑی ہوگی جس کے تحت چند بڑے لٹیرے جس طرح چاہیں گے عدلیہ کے ساتھ بدمعاشی کریںگے ۔ان کو کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی ،26کروڑ عوام آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اوریہ باور کرانا ہے کہ وقت کے غیر عوامی حکمرانوں کو کوئی غلط قدم اٹھانے سے پہلے سوچنا ہو گا کہ اس بار عوام کے سامنے نہ کوئی ایوب خان ہے اور نہ ہی اپنی وردی کو کھال قرار دینے والا لامحدود اختیارات اور طاقت کا مالک بھگوڑا مشرف ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عالمی معیشت پر ڈالر کی اجارہ داری کا خاتمہ وجود پیر 28 اکتوبر 2024
عالمی معیشت پر ڈالر کی اجارہ داری کا خاتمہ

حماس سربراہ کا نام خفیہ رکھے گی! وجود پیر 28 اکتوبر 2024
حماس سربراہ کا نام خفیہ رکھے گی!

جموں و کشمیر بھارت کا ''اٹوٹ انگ'' کبھی نہ ہو گا! وجود پیر 28 اکتوبر 2024
جموں و کشمیر بھارت کا ''اٹوٹ انگ'' کبھی نہ ہو گا!

سول آمریت کا بدترین وار وجود پیر 28 اکتوبر 2024
سول آمریت کا بدترین وار

27 اکتوبر1947، بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ وجود اتوار 27 اکتوبر 2024
27 اکتوبر1947، بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر