... loading ...
ریاض احمدچودھری
حق خود ارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے۔ اپنے اس حق کے حصو ل کے لیے کشمیری طویل عرصے سے عملی جدوجہد کررہے ہیں۔ جس کے لیے سینکڑوں کشمیری اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان ان کے اس جائز اور اصولی موقف پر ان کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی قیام پاکستان کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ جدوجہد 1931 میں اس وقت شروع ہوچکی تھی جب پاکستان کا خواب دیکھنے والے مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے سب سے پہلے14 اگست 1931 کو لاہور میں یوم کشمیر منایا۔ کشمیر کی تحریک آزادی 1832 میں پلندری اورنگ کے علاقے میں شروع ہوئی جہاں باغی مسلمانوں کی کھالیں اتار کر درختوں پر لٹکادی گئیں۔ 1931 میں قرآن پاک کی توہین پر کشمیر میں دوبارہ تحریک شروع ہوئی۔ سری نگر جیل کے سامنے 22 کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا اور علامہ اقبال نے 14 اگست 1931 کو لاہور میں یوم کشمیر منا یا۔ بعد میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن ، جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کی سازش اور گٹھ جوڑ کے نتیجے میں کشمیر بھارت کے قبضے میں گیا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے فرزندان توحید ہر سال 27 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کے خلاف یوم احتجاج مناتے ہیں۔ اس دن مہاراجہ کشمیر نے ساز باز کے ذریعے مقبوضہ ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا تھا حالانکہ اس کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہ تھا۔ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی اور مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت سے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ڈوگرہ حکمرانوں نے سازش کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو بھارت کا غلام بنا دیا۔
14 اگست1947ء کو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کشمیری یہی سمجھتے رہے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں۔ کیونکہ کشمیر میں 90 فیصد مسلمان ہیں کیا ہوا اگر ان کا راجہ ہندو ہے لیکن عوام تو مسلمان ہے مگر جب 27 اکتوبر کو ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو کشمیری مسلمانوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بھارت کو تقسیم ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے مگر مہا راجہ نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہ کیا تھا۔ جغرافیائی، مذہبی، تہذیبی، قومی اور اصولی طور پرکشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا اور یہ ضابطہ آزادی تاج برطانیہ نے برصغیر سے رخصتی کے وقت خود طے کیا تھا۔دو قومی نظریے کی صداقت پر اصرار مسلمانان ہند اور انکے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا لیکن ہندوؤں کی جماعت کانگریس کو بھی یہ نظریہ تسلیم کرنا پڑا یوں باؤنڈری کمیشن کی ضرورت پڑی اور بھارت میں دو آزاد ملکوں کی تشکیل اور فطری ضرورت کو انگریزوں نے بھی سند قبولیت بخشی۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 27 اکتوبر کو ماؤنٹ بیٹن نے کشمیری راجہ کو خط لکھا اور 27 اکتوبر کو ہی بھارتی فوج کشمیرمیں داخل ہوگئی۔اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ بھارتی فوج ایک منصوبے کے تحت کشمیر میں داخل ہونے کیلئے پہلے سے تیار تھی۔ اس کے بعد نومولود پاکستان کیلئے کس طرح ممکن تھا کہ وہ کشمیر کی صورتحال سے لا تعلق رہ سکے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے پاس افرادی قوت، اسلحہ گولہ بارود، ذرائع آمدورفت کی بھی کمی تھی اور بھارت نے پاکستان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ اسے یقین تھا کہ بھارتی افواج باآسانی پورے کشمیر کو اپنے قبضے میں کر لیں گی۔
تنازع کشمیر دراصل تقسیم ہند کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جس طرح پاکستان شمالی ہند میں مسلم اکثریت کی بنیاد پر وجود میں آیا، اسی اصول کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو 1947 پاکستان میں شامل ہو نا چاہیے تھا۔ لیکن ہندو اور انگریزوں کی سازش کی وجہ سے ریاست جموں وکشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے میں رکاوٹ ڈالی گئی اور جموں و کشمیر کا سازش کے ذریعے بھارت سے الحاق کیا گیا۔ 1947 میں مہاراجہ کشمیر اور بھارتی حکمرانوں نے ناپاک گٹھ جوڑ کر لیا اور بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر کے اسکے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ تاہم کشمیریوں کی بھر پور جدو جہد کے نتیجے میں جب کشمیر آزاد ہونے کے قریب تھا تو بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیرکا مسئلہ اٹھایا۔اقوام متحدہ نے تنارعہ کشمیر کے حل کے لئے دو قراردادیں منظور کیں۔ جن میں نہ صرف کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا بلکہ یہ طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائیگا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے یہ وعدہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے فراہم کریں گے۔ لیکن اس کے بعد بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں کو نہ صرف حق خود ارادیت دینے سے انکار کر دیا بلکہ یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔حالانکہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے ساری ریاست کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔
کشمیری لیڈروں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ 1947 سے اپنے لیڈروں کی طرف سے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔بھارت نے کشمیر کو اپنی نو آبادی بنا لیا ہے۔ بھارتی سپاہی شناختی کارڈ دیکھتا ہے، تلاشیاں لیتا ہے، مار پیٹ کرتاہے۔ حتی کہ کشمیری خواتین کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتا ہے۔ یہ 1947ء کی لیڈر شپ کا غلط فیصلہ تھا جس کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ شیخ محمد عبداللہ مرحوم نے کہا تھا کہ بھارت پر اعتماد کرنا میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے غاصبانہ قبضے کو دائمی بنانے کیلئے کئی منصوبوں پر عمل کر رہا ہے۔ لیکن بھارتی حکمران یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیر بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے وہ چاہے مقبوضہ کشمیر میں جتنا پیسہ خرچ کرے وہ کسی طرح کشمیریوں کے دل جیت نہیں سکتا کیونکہ وہ بھارت کی غلامی سے ہر صورت نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی بھی لالچ آزادی کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکتا۔بھارت نے اقوام متحدہ کے فیصلے کو پس پشت ڈال کر ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور کشمیر کے اس بڑے حصے پر قابض ہے۔ جسے دنیا مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانتی ہے۔ بھارت اب اس مسئلہ میں اتنا الجھ چکا ہے کہ ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے باوجود اسے کوئی رستہ نہیں مل رہا۔ یہاں تک کہ اب ریاستی دہشت گردی بھی حالات کو قابو میں نہیں لا سکتی۔ کشمیری بے چارے سالہا سال کے انتظار کے بعد مایوس ہو کر ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جس پر بھارت مزید سیخ پا ہے۔ بھارتی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس تحریک آزادی کو دہشت گردی کے زمرے میں لا کر عالمی سطح پر بد نام کر سکے۔ اس سلسلے میں وہ اسے سرحد پار دہشت گردی کا نام بھی دیتا ہے۔ حالانکہ بھارت خود اپنی پوری ریاستی طاقت کے ساتھ، نہتے کشمیریوں کے ساتھ دہشت گردی میں ملوث ہے۔
بھارتی حکومت نے کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ 27 اکتوبر1947ء میں جو غیر قانونی اور نام نہاد معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوتا رہا لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پوری دنیا ، اقوام متحدہ اور کشمیری خود، اس قبضہ کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھتے ہیں اورسمجھتے رہیں گے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے استصواب رائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔