... loading ...
رفیق پٹیل
سیاسی علوم کی تقریباًتمام کتابوں میں ریاست کے تین بنیادی ستونوں کاذکر موجود ہے اور اس پر عمومی اتّفاق ہے یہ تین ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں جبکہ آج کے دور میں میڈیا کو ریاست کاچوتھا ستون بھی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مقننہ قومی وصوبائی اسمبلیوںاور سینیٹ پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی ریاست کے لیے بھی ان چار ستونوں کا استحکام ضروری ہے ،ملک ان چار ستونوں پر کھڑا ہے ۔اگر یہ ستون کمزور اور کھوکھلے ہوں گے تواس کے انتہائی مضر اثرات ملک پر مرتّب ہونگے ۔ملک کی معیشت کو فروغ نہیں مل سکے گا۔ معاشرے میں بھی منفی رجحانات پیدا ہوں گے۔ ملک مجموعی طور پر کمزور ہوگا۔ یہ ایساہی ہے جیسے ایک عمارت چار ستونوں پر کھڑی ہو، اس کے تین ستون مکمّل طور پرکھوکھلے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں لیکن اس پر مٹی لگاکر رنگ کر دیا جائے۔ ہر ذی شعور اس کا اندازہ لگا سکتاہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ۔
پاکستانی سیاست اور طرز حکمرانی کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو جو حقائق سامنے آتے ہیں اس میںمیڈیا کی آزادی پر بہت زیادہ دبائو اور ان دیکھی پابندیاں ہیں۔ میڈیا تنظیموں کے رہنما بار بار اس کی نشاندہی کررہے ہیں ۔آزاد میڈیا تمام شعبوں ،اداروں،طرز حکمرانی کی کارکردگی اور سرگرمیوں کے بارے میں عوام کو آگہی فراہم کرتاہے۔ ان کی اصلاح کے لیے ان کی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔پاکستان میں ریاست کا یہ چوتھا ستون انتہائی کمزوراور موثر کردار ادا کرنے سے محروم ہے۔ مقننہ میں شامل قومی و صوبائی اسمبلیاں عوامی امنگوںکی اس لیے ترجمان نہیں تصور کی جاسکتی ہیں کہ جن انتخابات کے ذریعے یہ وجود میں آئی ہیں ،اس کو دنیا بھر کے میڈیا نے دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔دوسرے الفاظ میں مقننہ کا خود کو جائز قرار دینا ہی مشکوک ہے۔ یہی الزام مولانا فضل الرحمان ،جماعت اسلامی، بی این پی مینگل،پی ٹی آئی اور علامہ ناصر عباس کی جانب سے بھی عائد کیا جارہاہے ۔ریاست کا یہ ستون بھی کمزور اور کھوکھلا ہے او ر اس کی عوامی حمایت مشکوک ہو چکی ہے۔ اس کے بارے میںکئی بڑے سوالیہ نشان ہیںجس طرح ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ تشکیل دی تھی کم و بیش یہی صورت موجودہ مقننہ کی ہے۔ ریاست کا ایک اور ستون عدلیہ ہے جس کی غیر جانبداری کے بارے میں ملک کی وکلاء برادری نے پہلے ہی سوالات کی بوچھاڑ کررکھی تھی۔ آئین کی موجودہ ترمیم سے اس بات کا بھر پور خدشہ ہے کہ اب عدلیہ بھی انتظامیہ کے دبائو میں رہے گی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ میں تقرری اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو حاصل ہے لیکن پس پردہ یہ اختیا ر بھی انتظامیہ کو حاصل ہو گیا ہے۔ یعنی مقننہ اور عدلیہ محض نمائشی وجود رکھتے ہیں۔ اصل اختیارات انتظامیہ اور طاقتور حلقوں کو منتقل ہورہے ہیں جس انداز سے آئین میں ترامیم ہوئی دنیا کے کسی مہذّب معاشرے میں اس کا تصّور نہیں کیا جاسکتاہے ۔خدشہ یہ ہے کہ آئین کی ان ترامیم کا اصل ہد ف بانی پی ٹی آئی کی زندگی کا خاتمہ ہے۔ یہ ایک محض مفروضہ ہے یا حقیقت اس کی تصدیق آنے والے وقت اور حالات میں ہوگی۔ ایسی صورت میں آئین میں ترمیم کرنے والی سیاسی جماعتوں کو الزامات کا سامنا کرنا ہوگا ۔
اگر بھارت یا بنگلہ دیش کے یہ تین ستو ن یعنی مقننہ،عدلیہ اور میڈیا کمزور ہوجائیں تو یہ ممالک اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ ملکو ں کی معاشی ترقی میں آئین ، قانون کی حکمرانی ، انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی کی اہمیت کو دنیا بھر میں حقیقت تصّور کیا جا تا ہے ورلڈ بنک نے آئین اور معاشی ترقّی کے حوالے سے ایک رپورٹ1995میں شائع کردی تھی جب کہ آج کی دنیا بہت آگے جا چکی ہے اقوام متحدہ نے بھی انسانی حقوق،میڈیا کی آزادی،قانون کی حکمرنی اور عدلیہ کی آزادی کو معاشی ترقی کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا ہے ۔ ورلڈ بنک نے معاشی ترقی کے لیے آ ئین کی اہمیت کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جو آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس رپورٹ کو ممتاز سیاسی محقّق اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جان ایلسٹر نے تحریر کیا ہے۔ رپورٹ کے ابتدائی حصے میں کہا گیا ہے کہ معاشی کارکردگی اور سیاسی اداروں کے درمیان تعلّق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے دوپہلوہیں مضبوط ادارے معاشی کارکردگی میں بہتری کا باعث بنتے ہیں۔ وہ ممالک جہاں حقیقی جمہوریت اور آزاد میڈیا ہے۔ ان ممالک میں قحط یا بحران کم ہوتا ہے یا اس پر قابو پانا آسان ہوتا ہے جب شہریوں کو حقوق اور آزادانہ ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے تو وہ اپنے معاشی اور سیاسی حقوق کاتحفّظ کرتے ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ اور صحیح معنوں میں مینڈیٹ رکھنے والی مقنّنہ بہتر معاشی کارکردگی میں معاون ثابت ہوتی ہے جبکہ آمریت کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی نہیں ہوتی۔ مقبول قیادت نجی شعبے کو اعتماد میں لے کر کاروبار اور صنعت کا پہیہ تیز کر دیتی ہے ۔ورلڈ بینک کی ایک اور رپورٹ سنگاپور کے بارے میں ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سنگاپورنے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کیا( اس طرح سنگاپور میں نوکر شاہی کی رکاوٹ اور رشوت سے تحفّظ حا صل ہوا) ان ر پورٹوں سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق اور آزاد عدلیہ کے بغیر معیشت کو فروغ دینا خیالی پلائو بنانے کے مترادف ہے ۔اقوام متّحدہ کی رپورٹ میں بھی کہاگیا کہ پائیدار معاشی ترقّی کے لیے انسانی حقوق کا تحفّظ ضروری ہے۔ امریکہ کے ایک معروف سماجی اور معاشی تحقیقاتی ادارے دی ہیریٹیج
فاونڈیشن نے عالمی معیشتوں کے بارے میںایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے بارے میں انڈیکس آف اکنامک فریڈم کے ایڈیٹر انتھونی بی کم اور سابق ریسرچ کو آرڈی نیٹرپیٹرک ٹائرل نے تحریر کیا ہے کہ معاشی آزادی صحافیوں کو تحفّظ فراہم کرتی اور صحافت کی آزادی معاشی آزادی کو تحفّظ دیتی ہے ۔وہ ممالک جہاں معاشی آزادیاں زیادہ ہیں، وہاں صحافیوں پر حملوں کا رجحان کم ہوتا ہے۔ جہاں معاشی آزادی کم ہوتی ہے، وہا ں صحافیوں پر حملے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ معاشی آزادی سے مراد لوگوںکو کسی بھی دوسرے ملک یا اندرون ملک اشیاء یا خدمات کی خرید و فروخت کی آزدی ہے۔ اس سلسلے میں لگائے جانے والے ٹیکس کا بوجھ جتنا زیادہ ہوگا ،اسی قدر معاشی آزادی کم ہوگی ۔صحافیوں اور سرکاری نقطہ نظر سے اختلاف رائے رکھنے والوں کی گرفتار یاں ،انہیںقتل کرنایا ان پر تشدّد کرنا جبر اور ظلم کے مترادف ہیںجس کے نتائج تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔بقول ساحر لدھیانوی
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلّادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹائو تو مٹائیں نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھائو تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دبائو تو دبائے نہ بنے