وجود

... loading ...

وجود

آئین اور ورلڈ بینک

اتوار 27 اکتوبر 2024 آئین اور ورلڈ بینک

رفیق پٹیل

سیاسی علوم کی تقریباًتمام کتابوں میں ریاست کے تین بنیادی ستونوں کاذکر موجود ہے اور اس پر عمومی اتّفاق ہے یہ تین ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں جبکہ آج کے دور میں میڈیا کو ریاست کاچوتھا ستون بھی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مقننہ قومی وصوبائی اسمبلیوںاور سینیٹ پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی ریاست کے لیے بھی ان چار ستونوں کا استحکام ضروری ہے ،ملک ان چار ستونوں پر کھڑا ہے ۔اگر یہ ستون کمزور اور کھوکھلے ہوں گے تواس کے انتہائی مضر اثرات ملک پر مرتّب ہونگے ۔ملک کی معیشت کو فروغ نہیں مل سکے گا۔ معاشرے میں بھی منفی رجحانات پیدا ہوں گے۔ ملک مجموعی طور پر کمزور ہوگا۔ یہ ایساہی ہے جیسے ایک عمارت چار ستونوں پر کھڑی ہو، اس کے تین ستون مکمّل طور پرکھوکھلے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں لیکن اس پر مٹی لگاکر رنگ کر دیا جائے۔ ہر ذی شعور اس کا اندازہ لگا سکتاہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ۔
پاکستانی سیاست اور طرز حکمرانی کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو جو حقائق سامنے آتے ہیں اس میںمیڈیا کی آزادی پر بہت زیادہ دبائو اور ان دیکھی پابندیاں ہیں۔ میڈیا تنظیموں کے رہنما بار بار اس کی نشاندہی کررہے ہیں ۔آزاد میڈیا تمام شعبوں ،اداروں،طرز حکمرانی کی کارکردگی اور سرگرمیوں کے بارے میں عوام کو آگہی فراہم کرتاہے۔ ان کی اصلاح کے لیے ان کی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔پاکستان میں ریاست کا یہ چوتھا ستون انتہائی کمزوراور موثر کردار ادا کرنے سے محروم ہے۔ مقننہ میں شامل قومی و صوبائی اسمبلیاں عوامی امنگوںکی اس لیے ترجمان نہیں تصور کی جاسکتی ہیں کہ جن انتخابات کے ذریعے یہ وجود میں آئی ہیں ،اس کو دنیا بھر کے میڈیا نے دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔دوسرے الفاظ میں مقننہ کا خود کو جائز قرار دینا ہی مشکوک ہے۔ یہی الزام مولانا فضل الرحمان ،جماعت اسلامی، بی این پی مینگل،پی ٹی آئی اور علامہ ناصر عباس کی جانب سے بھی عائد کیا جارہاہے ۔ریاست کا یہ ستون بھی کمزور اور کھوکھلا ہے او ر اس کی عوامی حمایت مشکوک ہو چکی ہے۔ اس کے بارے میںکئی بڑے سوالیہ نشان ہیںجس طرح ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ تشکیل دی تھی کم و بیش یہی صورت موجودہ مقننہ کی ہے۔ ریاست کا ایک اور ستون عدلیہ ہے جس کی غیر جانبداری کے بارے میں ملک کی وکلاء برادری نے پہلے ہی سوالات کی بوچھاڑ کررکھی تھی۔ آئین کی موجودہ ترمیم سے اس بات کا بھر پور خدشہ ہے کہ اب عدلیہ بھی انتظامیہ کے دبائو میں رہے گی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ میں تقرری اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو حاصل ہے لیکن پس پردہ یہ اختیا ر بھی انتظامیہ کو حاصل ہو گیا ہے۔ یعنی مقننہ اور عدلیہ محض نمائشی وجود رکھتے ہیں۔ اصل اختیارات انتظامیہ اور طاقتور حلقوں کو منتقل ہورہے ہیں جس انداز سے آئین میں ترامیم ہوئی دنیا کے کسی مہذّب معاشرے میں اس کا تصّور نہیں کیا جاسکتاہے ۔خدشہ یہ ہے کہ آئین کی ان ترامیم کا اصل ہد ف بانی پی ٹی آئی کی زندگی کا خاتمہ ہے۔ یہ ایک محض مفروضہ ہے یا حقیقت اس کی تصدیق آنے والے وقت اور حالات میں ہوگی۔ ایسی صورت میں آئین میں ترمیم کرنے والی سیاسی جماعتوں کو الزامات کا سامنا کرنا ہوگا ۔
اگر بھارت یا بنگلہ دیش کے یہ تین ستو ن یعنی مقننہ،عدلیہ اور میڈیا کمزور ہوجائیں تو یہ ممالک اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ ملکو ں کی معاشی ترقی میں آئین ، قانون کی حکمرانی ، انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی کی اہمیت کو دنیا بھر میں حقیقت تصّور کیا جا تا ہے ورلڈ بنک نے آئین اور معاشی ترقّی کے حوالے سے ایک رپورٹ1995میں شائع کردی تھی جب کہ آج کی دنیا بہت آگے جا چکی ہے اقوام متحدہ نے بھی انسانی حقوق،میڈیا کی آزادی،قانون کی حکمرنی اور عدلیہ کی آزادی کو معاشی ترقی کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا ہے ۔ ورلڈ بنک نے معاشی ترقی کے لیے آ ئین کی اہمیت کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جو آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس رپورٹ کو ممتاز سیاسی محقّق اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جان ایلسٹر نے تحریر کیا ہے۔ رپورٹ کے ابتدائی حصے میں کہا گیا ہے کہ معاشی کارکردگی اور سیاسی اداروں کے درمیان تعلّق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے دوپہلوہیں مضبوط ادارے معاشی کارکردگی میں بہتری کا باعث بنتے ہیں۔ وہ ممالک جہاں حقیقی جمہوریت اور آزاد میڈیا ہے۔ ان ممالک میں قحط یا بحران کم ہوتا ہے یا اس پر قابو پانا آسان ہوتا ہے جب شہریوں کو حقوق اور آزادانہ ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے تو وہ اپنے معاشی اور سیاسی حقوق کاتحفّظ کرتے ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ اور صحیح معنوں میں مینڈیٹ رکھنے والی مقنّنہ بہتر معاشی کارکردگی میں معاون ثابت ہوتی ہے جبکہ آمریت کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی نہیں ہوتی۔ مقبول قیادت نجی شعبے کو اعتماد میں لے کر کاروبار اور صنعت کا پہیہ تیز کر دیتی ہے ۔ورلڈ بینک کی ایک اور رپورٹ سنگاپور کے بارے میں ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سنگاپورنے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کیا( اس طرح سنگاپور میں نوکر شاہی کی رکاوٹ اور رشوت سے تحفّظ حا صل ہوا) ان ر پورٹوں سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق اور آزاد عدلیہ کے بغیر معیشت کو فروغ دینا خیالی پلائو بنانے کے مترادف ہے ۔اقوام متّحدہ کی رپورٹ میں بھی کہاگیا کہ پائیدار معاشی ترقّی کے لیے انسانی حقوق کا تحفّظ ضروری ہے۔ امریکہ کے ایک معروف سماجی اور معاشی تحقیقاتی ادارے دی ہیریٹیج
فاونڈیشن نے عالمی معیشتوں کے بارے میںایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے بارے میں انڈیکس آف اکنامک فریڈم کے ایڈیٹر انتھونی بی کم اور سابق ریسرچ کو آرڈی نیٹرپیٹرک ٹائرل نے تحریر کیا ہے کہ معاشی آزادی صحافیوں کو تحفّظ فراہم کرتی اور صحافت کی آزادی معاشی آزادی کو تحفّظ دیتی ہے ۔وہ ممالک جہاں معاشی آزادیاں زیادہ ہیں، وہاں صحافیوں پر حملوں کا رجحان کم ہوتا ہے۔ جہاں معاشی آزادی کم ہوتی ہے، وہا ں صحافیوں پر حملے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ معاشی آزادی سے مراد لوگوںکو کسی بھی دوسرے ملک یا اندرون ملک اشیاء یا خدمات کی خرید و فروخت کی آزدی ہے۔ اس سلسلے میں لگائے جانے والے ٹیکس کا بوجھ جتنا زیادہ ہوگا ،اسی قدر معاشی آزادی کم ہوگی ۔صحافیوں اور سرکاری نقطہ نظر سے اختلاف رائے رکھنے والوں کی گرفتار یاں ،انہیںقتل کرنایا ان پر تشدّد کرنا جبر اور ظلم کے مترادف ہیںجس کے نتائج تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔بقول ساحر لدھیانوی
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلّادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹائو تو مٹائیں نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھائو تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دبائو تو دبائے نہ بنے


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر