... loading ...
ّ
رفیق پٹیل
آئین میں انتہائی جلد بازی اور رات کی تاریکی میں ترمیم کردی گئی۔ مہنگائی ،بے روزگاری اور معا شی پریشانیوں سے پریشان عوام مجبوراً اس تماشے کو دیکھ رہے ہیں آئین جو کسی ملک کے تمام طبقات اور معاشرے کے تمام لوگوں میں اتحاد پیدا کرتا ہے موجودہ ترامیم سے مزید انتشار کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک ایسی پارلیمینٹ جس کو دنیا کے تمام معتبر میڈیا کی رپورٹوں نے دھاندلی کی پیداوار قرار دیا تھا جس کی قانونی حیثیت پر شکوک و شبہات ہیں ،اس نے پاکستان کا آئین ہی تبدیل کردیا ۔پاکستان کے وکلاء کی بھاری اکثریت اس آئینی ترمیم پر برہم ہے اور اسے ملک میں انسانی حقوق کے خاتمے کے مترادف قرار دے رہی ہے۔ بعض چوٹی کے وکلاء کا خیال ہے کہ یہ ترامیم مارشل لاء سے بھی زیادہ خراب ہے اور ملک بادشاہت سے بھی بدتر شکل میں چلاگیا ہے ۔اس آئینی ترمیم کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسے ایک نا مکمل پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کرالیاگیا ہے۔ سینیٹ میں خیبر پختون خواہ کی نمائندگی نہیں ہے۔ سینیٹ کی تشکیل کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اس میں تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی صوبوں کو آئینی تحفّظ دینے کے لیے دی گئی ہے تاکہ اگر قومی اسمبلی میں آبادی کی بنیاد پر ایک بڑے صوبے کی بالا دستی ہو جائے تو سینیٹ میں دیگر صوبے کسی بھی قانون سازی میں اپنے حقوق کا تحفّظ کر سکتے ہیں یا ایسے قوانین پر نظر رکھ سکیں جس سے وہ خطرہ محسوس کریں۔
ایک نامکمل پارلیمنٹ کس طرح ملک کی بنیادی دستا ویز جس پر پورا ملک کا انتظامی ،سیاسی،سماجی اور معاشی ڈھانچہ کھڑا ہے اس میںردّو بدل کیسے کرسکتی ہے۔ اگر طاقت کے زور پر عدلیہ اور انتظامیہ کے فرق کو ختم کرنا ہے یا عدلیہ کو نوکرشاہی کے ماتحت کرنا ہے تو ایسی صورت میں تما م طاقت غیر سیاسی قوّتوں یا پس پردہ منتظمین کے پاس جا سکتی ہے ۔بالفرض اگر یہ شمالی کوریا جیسی کیفیت ہوگی تو تمام سرمایہ دار اور تاجر ملک سے فرار ہوکر دوسرے ملکوں کا رخ کرلیں گے ۔ایسی صورت حال تو مارشل لاء کے نظام میں بھی نہیں ہوتی تھی۔ کم از کم فوجی عدالت کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کا ایک دروازہ سپریم کورٹ میں موجود تھا۔ اس سے قبل آئینی ترمیم کے حوالے سے ایک ہیجان برپا پیدا کیا گیا تھا۔ مالی پریشانیوں کا شکار پاکستان کے عوام کی دلچسپی بھی اس سلسلے کی میڈیا رپورٹوں اور تجزیوں کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔ بعض مبصّرین کا خیال ہے کہ اب جلد ہی جمعیت علما ئے اسلام کو بلوچستان اور سرحد کی حکومتیں مل جائیں گی۔ عدالت سے طویل سزا کے بعد اگر کوئی عوامی مزاحمت نہ ہوئی تو ایسی صورت میں عمران خان جیل میں ہی دم توڑ دیں گے۔ شہباز شریف ہی آئندہ انتخابات میں بھی وزیر اعظم رہیں گے۔ البتہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ترمیم کا عوام کی خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔آئین جو ملک کے شہریوں اور حکومت کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس پر ملک کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اس میں تبدیلی کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس کے لیے مہینوں عوامی اور سیاسی سطح پر بحث ہوتی ہے جس میںہر مکتبہ فکر کی رائے ضروری ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو بند کرکے وفاقی اور صوبائی کابینہ کے زیر انتظام نیا مجسٹری کا نظام تشکیل دیا گیا ہو۔ اس کا نتیجہ لوگوں کو حاصل زندگی اور جائیداد کے تحفّظ کے خاتمے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس ترمیم پر جو بحث اب ہورہی ہے ، اس سے قبل ہونا چاہیے تھا ابھی اس پر عملدرآمد کے بعد کے نتائج پر حتمی رائے نہیں دی جا سکتی ہے، سیاسی جماعتوں کی اس سلسلے میں رائے مختلف ہے وہ وقتی فائدہ دیکھ کر فیصلہ کر رہی ہیں۔مستقبل میں اصل نقصان جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کو ہی ہوگا۔
وکلاء ررہنماء حامد علی خان اور عابدزبیری نے کہا ہے کہ یہ ترامیم ہی غیر آئینی ہیں اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اور یہ عدالت پر براہ راست حملہ ہے۔ مختلف جماعتوں سے وابستہ سیاسی کارکن اپنی سیاسی جماعت کی تقلید کرتے ہیںاور بہت کم سیاسی کارکن آزادانہ طور پر اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور مختلف محفلوں میں بحث بھی کرتے ہیں ۔آ ئین پر عوامی بحث ایک مثبت عمل ہے۔ اس کا آسان
ا ور عام فہم ہونا عوامی آگہی کے لیے اہم ہے ۔اس لیے ہر خاص و عام کے لیے سب سے پہلے ابتدا اس سوال سے ہونی چاہیے کہ آئین کیا ہے ؟ یونیورسٹی کالج لندن کے مطابق آئین ریاست (ملک)کے بنیادی اصولوں اور ضابطوں پرمشتمل ایسی کتاب ہے جس کے تحت ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ ریاست کے بنیادی اداروں کے خدوخال بیان کیے جاتے ہیںاور اداروں کے درمیان تعلق کی تشریح کی جاتی ہے۔ (مثلاً انتظامیہ،مقننّہ اور عدلیہ) اس میں اختیارات کی حدودکا تعیّن کیا جاتا ہے اور شہریوں کے حقوق اور فرائض کی تشریح کی جاتی ہے۔ اکثر ممالک میں آئین تحریری شکل میں ہے جس میں امریکہ ، جرمنی اور جاپان اور بھارت شامل ہیں جبکہ برطانو ی آئین تحریری شکل کے بجا ئے تاریخی نظیروں پر مشتمل ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان بننے کے بعدابتدائی کئی سال ملک میں انتخابات نہیں ہوئے ،نہ ہی آئین سازی ہوئی ۔ قائد اعظم 11ستمبر 1948کو انتقال کرگئے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں16اکتوبر1951کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا اس کے بعد خواجہ ناظم الدّین وزیر اعظم بنائے گئے گورنر جنرل غلا م محمد نے اپریل 1953 میں انہیں برطرف کردیا کہا جاتا ہے کہ غلام محمّد کو جنرل ایوب خان کی حمایت حاصل تھی جس کا اعتراف ایوب خان نے 1964 میں کیا تھا۔ 17 اپر یل 1953کو محمدعلی بوگرہ وزیر اعظم بنے۔ اگست 1955 کو گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں برطرف کردیا ان کا کہنا تھا کہ وہ آئین تیار کریں گے لیکن آئین کے مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ برطرف ہو گئے۔ اس دوران بالواسطہ انتخابات میں مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہو گئی ۔نہ آئین بنا نہ ہی عام انتخابات ہوئے۔ پہلا آئین پاکستان بننے کے بعد 1956 میں بنا۔ بھارت نے انتخابات بھی کرائے اور آئین بھی بنایا اور جب بھی تبدیلی ہوئی ہر سطح پر مشاورت ہوئی۔ بھارتی آئین نومبر 1926میں ہی منظور کرلیا گیا تھا۔ مختلف بھارتی محقق اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھارت میں شہری آزادیوں کا بڑی حد تک تحفظ بھارتی آئین کی وجہ سے ہے۔ مسلسل انتخابی عمل،آزاد عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کی وجہ سے بھارت نے مختلف بحرانوں کا مقابلہ کیا اور اپنی معیشت کے علاوہ سیاسی نظام کو بھی مستحکم کیا ۔عوامی رائے کو نظر انداز نہ کرنے کے عمل کی وجہ سے بھارت کو جو کامیابی مل رہی ہے اس کا گہرائی سے جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسی غلطی نہ کرلیں کہ کئی سو سال پیچھے چلے جائیں ۔اشرافیہ اور دیگر قوتّیں اس چمن کے اجڑنے کے عمل کو روک دیں۔ایسا نہ ہو کہ سب کچھ بکھر جائے دنیا میں ترقی کا بہتر فارمولہ عوام کی خوشحالی اور انہیں بااختیار بناناہے۔