وجود

... loading ...

وجود

آئین ،جمہوریت ، مارشل لاء اور خوشحالی

جمعرات 24 اکتوبر 2024 آئین ،جمہوریت ، مارشل لاء اور خوشحالی

ّ
رفیق پٹیل

آئین میں انتہائی جلد بازی اور رات کی تاریکی میں ترمیم کردی گئی۔ مہنگائی ،بے روزگاری اور معا شی پریشانیوں سے پریشان عوام مجبوراً اس تماشے کو دیکھ رہے ہیں آئین جو کسی ملک کے تمام طبقات اور معاشرے کے تمام لوگوں میں اتحاد پیدا کرتا ہے موجودہ ترامیم سے مزید انتشار کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک ایسی پارلیمینٹ جس کو دنیا کے تمام معتبر میڈیا کی رپورٹوں نے دھاندلی کی پیداوار قرار دیا تھا جس کی قانونی حیثیت پر شکوک و شبہات ہیں ،اس نے پاکستان کا آئین ہی تبدیل کردیا ۔پاکستان کے وکلاء کی بھاری اکثریت اس آئینی ترمیم پر برہم ہے اور اسے ملک میں انسانی حقوق کے خاتمے کے مترادف قرار دے رہی ہے۔ بعض چوٹی کے وکلاء کا خیال ہے کہ یہ ترامیم مارشل لاء سے بھی زیادہ خراب ہے اور ملک بادشاہت سے بھی بدتر شکل میں چلاگیا ہے ۔اس آئینی ترمیم کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسے ایک نا مکمل پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کرالیاگیا ہے۔ سینیٹ میں خیبر پختون خواہ کی نمائندگی نہیں ہے۔ سینیٹ کی تشکیل کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اس میں تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی صوبوں کو آئینی تحفّظ دینے کے لیے دی گئی ہے تاکہ اگر قومی اسمبلی میں آبادی کی بنیاد پر ایک بڑے صوبے کی بالا دستی ہو جائے تو سینیٹ میں دیگر صوبے کسی بھی قانون سازی میں اپنے حقوق کا تحفّظ کر سکتے ہیں یا ایسے قوانین پر نظر رکھ سکیں جس سے وہ خطرہ محسوس کریں۔
ایک نامکمل پارلیمنٹ کس طرح ملک کی بنیادی دستا ویز جس پر پورا ملک کا انتظامی ،سیاسی،سماجی اور معاشی ڈھانچہ کھڑا ہے اس میںردّو بدل کیسے کرسکتی ہے۔ اگر طاقت کے زور پر عدلیہ اور انتظامیہ کے فرق کو ختم کرنا ہے یا عدلیہ کو نوکرشاہی کے ماتحت کرنا ہے تو ایسی صورت میں تما م طاقت غیر سیاسی قوّتوں یا پس پردہ منتظمین کے پاس جا سکتی ہے ۔بالفرض اگر یہ شمالی کوریا جیسی کیفیت ہوگی تو تمام سرمایہ دار اور تاجر ملک سے فرار ہوکر دوسرے ملکوں کا رخ کرلیں گے ۔ایسی صورت حال تو مارشل لاء کے نظام میں بھی نہیں ہوتی تھی۔ کم از کم فوجی عدالت کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کا ایک دروازہ سپریم کورٹ میں موجود تھا۔ اس سے قبل آئینی ترمیم کے حوالے سے ایک ہیجان برپا پیدا کیا گیا تھا۔ مالی پریشانیوں کا شکار پاکستان کے عوام کی دلچسپی بھی اس سلسلے کی میڈیا رپورٹوں اور تجزیوں کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔ بعض مبصّرین کا خیال ہے کہ اب جلد ہی جمعیت علما ئے اسلام کو بلوچستان اور سرحد کی حکومتیں مل جائیں گی۔ عدالت سے طویل سزا کے بعد اگر کوئی عوامی مزاحمت نہ ہوئی تو ایسی صورت میں عمران خان جیل میں ہی دم توڑ دیں گے۔ شہباز شریف ہی آئندہ انتخابات میں بھی وزیر اعظم رہیں گے۔ البتہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ترمیم کا عوام کی خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔آئین جو ملک کے شہریوں اور حکومت کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس پر ملک کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اس میں تبدیلی کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس کے لیے مہینوں عوامی اور سیاسی سطح پر بحث ہوتی ہے جس میںہر مکتبہ فکر کی رائے ضروری ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو بند کرکے وفاقی اور صوبائی کابینہ کے زیر انتظام نیا مجسٹری کا نظام تشکیل دیا گیا ہو۔ اس کا نتیجہ لوگوں کو حاصل زندگی اور جائیداد کے تحفّظ کے خاتمے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس ترمیم پر جو بحث اب ہورہی ہے ، اس سے قبل ہونا چاہیے تھا ابھی اس پر عملدرآمد کے بعد کے نتائج پر حتمی رائے نہیں دی جا سکتی ہے، سیاسی جماعتوں کی اس سلسلے میں رائے مختلف ہے وہ وقتی فائدہ دیکھ کر فیصلہ کر رہی ہیں۔مستقبل میں اصل نقصان جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کو ہی ہوگا۔
وکلاء ررہنماء حامد علی خان اور عابدزبیری نے کہا ہے کہ یہ ترامیم ہی غیر آئینی ہیں اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اور یہ عدالت پر براہ راست حملہ ہے۔ مختلف جماعتوں سے وابستہ سیاسی کارکن اپنی سیاسی جماعت کی تقلید کرتے ہیںاور بہت کم سیاسی کارکن آزادانہ طور پر اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور مختلف محفلوں میں بحث بھی کرتے ہیں ۔آ ئین پر عوامی بحث ایک مثبت عمل ہے۔ اس کا آسان
ا ور عام فہم ہونا عوامی آگہی کے لیے اہم ہے ۔اس لیے ہر خاص و عام کے لیے سب سے پہلے ابتدا اس سوال سے ہونی چاہیے کہ آئین کیا ہے ؟ یونیورسٹی کالج لندن کے مطابق آئین ریاست (ملک)کے بنیادی اصولوں اور ضابطوں پرمشتمل ایسی کتاب ہے جس کے تحت ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ ریاست کے بنیادی اداروں کے خدوخال بیان کیے جاتے ہیںاور اداروں کے درمیان تعلق کی تشریح کی جاتی ہے۔ (مثلاً انتظامیہ،مقننّہ اور عدلیہ) اس میں اختیارات کی حدودکا تعیّن کیا جاتا ہے اور شہریوں کے حقوق اور فرائض کی تشریح کی جاتی ہے۔ اکثر ممالک میں آئین تحریری شکل میں ہے جس میں امریکہ ، جرمنی اور جاپان اور بھارت شامل ہیں جبکہ برطانو ی آئین تحریری شکل کے بجا ئے تاریخی نظیروں پر مشتمل ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان بننے کے بعدابتدائی کئی سال ملک میں انتخابات نہیں ہوئے ،نہ ہی آئین سازی ہوئی ۔ قائد اعظم 11ستمبر 1948کو انتقال کرگئے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں16اکتوبر1951کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا اس کے بعد خواجہ ناظم الدّین وزیر اعظم بنائے گئے گورنر جنرل غلا م محمد نے اپریل 1953 میں انہیں برطرف کردیا کہا جاتا ہے کہ غلام محمّد کو جنرل ایوب خان کی حمایت حاصل تھی جس کا اعتراف ایوب خان نے 1964 میں کیا تھا۔ 17 اپر یل 1953کو محمدعلی بوگرہ وزیر اعظم بنے۔ اگست 1955 کو گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں برطرف کردیا ان کا کہنا تھا کہ وہ آئین تیار کریں گے لیکن آئین کے مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ برطرف ہو گئے۔ اس دوران بالواسطہ انتخابات میں مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہو گئی ۔نہ آئین بنا نہ ہی عام انتخابات ہوئے۔ پہلا آئین پاکستان بننے کے بعد 1956 میں بنا۔ بھارت نے انتخابات بھی کرائے اور آئین بھی بنایا اور جب بھی تبدیلی ہوئی ہر سطح پر مشاورت ہوئی۔ بھارتی آئین نومبر 1926میں ہی منظور کرلیا گیا تھا۔ مختلف بھارتی محقق اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھارت میں شہری آزادیوں کا بڑی حد تک تحفظ بھارتی آئین کی وجہ سے ہے۔ مسلسل انتخابی عمل،آزاد عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کی وجہ سے بھارت نے مختلف بحرانوں کا مقابلہ کیا اور اپنی معیشت کے علاوہ سیاسی نظام کو بھی مستحکم کیا ۔عوامی رائے کو نظر انداز نہ کرنے کے عمل کی وجہ سے بھارت کو جو کامیابی مل رہی ہے اس کا گہرائی سے جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسی غلطی نہ کرلیں کہ کئی سو سال پیچھے چلے جائیں ۔اشرافیہ اور دیگر قوتّیں اس چمن کے اجڑنے کے عمل کو روک دیں۔ایسا نہ ہو کہ سب کچھ بکھر جائے دنیا میں ترقی کا بہتر فارمولہ عوام کی خوشحالی اور انہیں بااختیار بناناہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر