... loading ...
سمیع اللہ ملک
کوئی امریکاسے پوچھے کہ سات سمندرپارسے ہزاروں میل کی مسافت طے کرکے کبھی مشرق وسطی کبھی خلیج کی ریاستوں کبھی جنوبی ایشیا اورسینٹرل ایشیامیںلاؤلشکراورسازشیں لے کر کیوں نازل ہوتاہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ یہ موت فروخت کرنے اورزندگی خریدنے آتا ہے۔ اس خواہش میں مہم جوئی توسیع پسندی مجرمانہ کاروبارطاقت کابیجااستعمال اور مذہبی جنونیت کا عنصر بھی شامل ہے ۔اگرامریکاکوانسان اور انسانیت امن وآشتی سے الفت ہوتی، اگراسے غربت جہالت مفلسی بیماری سے نفرت ہوتی تویہ دنیاجنت کانظارہ پیش کر رہی ہوتی۔ان مقاصد کوپانے کیلئے جنگ وجدال،آگ وخون کے سمندرسے دنیاکونہیں گزرناپڑتا،نہ گولہ بارودکی ضرورت ہوتی۔ بس صرف جیواورجینے دو، انسان اورانسانیت کے اعلی اصولوں کی پاسداری طاقتوراور کمزورکابرابری کی بنیادپراحترام بلاامتیازرنگ ونسل ومذہب، باہمی احترام کسی قوم کی آزادی اس کی سرحدوں کے تقدس کوتسلیم کرنابنیادی شرائط ہیں اوایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنابہت ضروری ہے۔ مگرموت کاسوداگر اور زندگی کا خریدارنام نہادامن وآشتی کے دعویدارہے جس نے اپنے ملک کے چاروں طرف طویل اوردیوقامت حفاظتی دیواریں اور فصیلیں بنارکھی ہیں،اس میں بسنے والے انسان بھی نظر آتے ہیں اورانسانیت سے بھی واقف ہیں، آزاد بھی ہیں اورگولہ بارودکے زہرسے محفوظ بھی۔غریب بھوک وافلاس وبیماری کے مارے کمزورناتواں انسان اورممالک بچارے کیا ان کی سرحدوں میں دراندازی کرسکیں گے۔یہ قوت توان شکارکی تلاش میں محوپروازعقابوں کوحاصل ہے جوجہاں چاہیں حملہ آورہوجائیں اورانسان اورانسانیت کے جسم سے بوٹی بوٹی نوچ لیں۔
خونی عقابوں کاٹولہ جوننگے بھوکے انسانوں کی لاش کوگولہ بارودمیں بھون کرنوچنے والے دہشتگردعقاب اپنے ہی ہاتھوں ستائے ہوئے انسانوں میں دہشت گردتلاش کرکے شکارکرنے پرآمادہ اوربضدہیں۔ان دہشتگردعقابوں کے اپنے بھی کوئی اصول نہیں ہیں اور شکارکی تلاش میں کبھی خودبھی دست وگریباں ہوتے رہے ہیں۔1950میں برطانیہ فرانس اور امریکا نے ایک سہ فریقی معاہدہ کیا تھاجس کے تحت مشرق وسطی کی تمام سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت اس شرط پردی گئی تھی کہ کوئی فریق جارحیت کا ارتکاب نہیں کرے گامگرحرص وہوس کے مارے مغرب کوکہاں قرار۔6سال ہی اس معاہدے کوگزرے تھے کہ برطانیہ اورفرانس نے نہرسویزپرحملہ کردیا،یہ ایک الگ داستان ہے۔ سردست امریکااوراس کے موجودہ اتحادیوں کے تین بنیادی مفادات زیرِقلم ہیں۔ پہلامفادیہ ہے کہ خلیج کے ممالک سے جہاں سے دنیاکی سا ٹھ فیصدتیل کی ضرورت پوری ہوتی ہے ان کے وسائل پر قبضہ کرکے اس علاقہ میں ان کی اجارہ داری قائم ہو۔(اس دوڑمیں سوویت یونین بھی شامل رہاہے)امریکی پالیسی کے تحت امریکااسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے کے علاوہ اس کی آزادی اوروجودکواس قدر مضبوط کرناچاہتاہے کہ اسرائیل کے خوف سے عرب ممالک پریشان اوردبے رہیں اوراس کی آڑمیں امریکی پالیسوں کوعربوں پرمسلط کیا جاتا رہے، جبکہ دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ بعض عرب ریاستیں جن میں سعودی عرب،مصر، اردن اورخلیج کی دیگربادشاہت اورحاکمیت پر
مشتمل ریاستوں کے اقدارکے تحفظ اوراسرائیلی خوف سے نجات دلانے کی یقین دہانی پرنام نہاددوستی کے نام پرامریکانے ان کی معیشت اقتصادیات اوردفاعی شعبوں پراپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے،سلامتی کے خوف میں مبتلا سعودی عرب سمیت دیگرخلیجی ریاستوں میں امریکی فوجیں موجود ہیں۔ایک طرف امریکی فوجوں اورساماں حرب کے اخراجات ان ممالک کو برداشت کرنے پڑرہے ہیں تودوسری طرف امریکی فوجوں کی ان ریاستوں میں موجودگی اسرائیل کیلئے تحفظ اورسلامتی کاباعث ہیں۔
ایران میں انقلاب کے بعدامریکااپنے ایک معتمد سے محروم ہوگیا۔اس تبدیلی کے باعث امریکانے سریع الحرکت فوج تیارکی جس کا مقصدخلیج اور ساری دنیامیں اپنے مفادات کا تحفظ بذریعہ طاقت کرناتھا۔عراق،شام،لبنان امریکی تسلط سے آزادمگرسوویت یونین کے زیراثر تھے۔ایران کو کھونے کے بعدامریکا نے عراق کواپنے حصارمیں لے لیاچونکہ ایران عراق میں سرحدی ودیگر ایشوزپر شدیداوردیرینہ اختلافات اورتنازعات تھے، امریکانیاس کافائدہ اٹھاکرایران کے انقلاب کوناکام بنانے کیلئے دونوں میں جنگ کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ 8سالہ عراق ایران جنگ نے دونوں ملکوں کوشدیدجانی ومالی نقصانات سے دوچار کیاجبکہ اسلحہ ساز فیکٹریاں رکھنے والے امریکا سمیت دیگرممالک نے ان دونوں ممالک کو83بلین ڈالرکااسلحہ فروخت کیا۔
ایران کوبھی سرحدی تنازعات اوردیگردعوں کی تکمیل کی صورت صدامی اقتدارکے خاتمے میں نظرآئی۔جنگ کی بساط بچھائی گئی۔خلیج کی ریاستوں کو عدم تعاون کاسگنل دیاگیا،خلیج سے باہراسلامی ملکوں کوجنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی یاغیرجانب داررہنے کوکہاگیا۔مغربی اتحادیوں کے یہاں جنگ کاطبل بجایاگیا۔ریہرسل شروع کردی گئی۔خلیجی ریاستوں کو اپنے تحفظ کے نام پراسلحہ خریدنے کاحکم دیاگیا۔اس خلیجی جنگ کی وجہ سے امریکی دفاعی صنعتوں کوتقریبا210بلین ڈالرصرف خلیجی ممالک کی طرف سے ملے تھے جس میں سعودی عرب نے تقریباً 60بلین ڈالرکااسلحہ امریکاسے خریدااورٹرمپ کے دورِحکومت میں 300بلین ڈالرکے معاہدوں پردستخط کرکے اسلحہ سازکمپنیوں کو نئی زندگی عطاکردی گئی۔
امریکی ایماپراسرائیل عراق سے چھیڑ چھاڑاورفلسطینیوں پرمظالم کی رفتاربڑھاچکاتھا۔ماسوائے دوتین ممالک کے تمام خلیجی ریاستیں عراق کے خلاف امریکاکے پہلومیں کھڑی تھیں ۔امریکی ایماپرکردوں کی تحریک میں تیزی آچکی تھی۔امریکی خفیہ ایجنسیاں اورادارے فرقہ وارانہ صوبائیت لسانیت اورعلاقائیت کے سوئے ہوئے فتنے کوجگانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔عراقی تینوں افواج میں نفاق کی سازشیں کامیاب ہوچکی تھیں،سیکولرازم اور اشتراکیت کاپرچارکرنے والے صدام حسین کاخیال تھاکہ وہ مختلف المذاہب اورفرقہ واریت اور صوبائیت کے فتنے کوختم کرکے ایک عراقی قوم پرست عوام تیارکرچکے ہیں۔ادھربش نے جنوری2002کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں عراق پرحملے کیلئے جوازپیش کرتے ہوئیعراق کوبدی کامحورقراردیتے ہوئے الزام لگایاکہ کہ عراق کے پاس دنیاکے سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیارہیں جبکہ خودامریکاکی سپیکرپیلوسی نیبش کو عراق کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کی اجازت دینے والی عراقی قرارداد کی مخالفت کی تھی۔بش کے سب سے بڑے اتحادی برطانوی وزیراعظم نے اپنے دور اقتدارکے پہلے چھ سالوں میں برطانوی فوجیوں کوپانچ بارلڑائی کاحکم دیا،جوبرطانوی تاریخ میں کسی بھی دوسرے وزیر اعظم سے زیادہ تھا۔اس میں1998اور 2003دونوں میں عراق، کوسوو (1999)،سیرالیون(2000) اورافغانستان(2001)شامل تھے جبکہ اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بھی عراق پرحملے کوغیر قانونی قراردیابلکہ جنیوامیں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کے مطابق،عراق پرحملہ نہ تومسلح حملیکے خلاف اپنے دفاع میں تھا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادکے ذریعے طاقت کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی اوراس طرح اسے جارحیت کی جنگ کا جرم قراردیاگیاتھا۔ عراقی جنگ میں4.7ملین لوگ مارے گئے،عراق کے450بلین ڈالرکاپٹرول چرالیاگیا۔خود 2020 میں، نیٹاکرافورڈ،بوسٹن یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کی سربراہ نے عراق جنگ کی طویل مدتی لاگت کاتخمینہ 1.922ٹریلین ڈالرلگایاتھا۔
امریکاجوعراق پرایٹمی وکیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگاکر(جوکبھی برآمدنہ ہوسکا)اپنی پوری قوت اورطاقت کے ساتھ عراق پرحملہ آورہوا، اورعراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی پوراعراق آگ وخون میں نہلادیاگیا۔ہزاروں عراقی بلا امتیازبوڑھے،جوان بچے خواتین بے رحمی سے شہیدکر دئیے گئے ،مقدس مقامات کونشانہ بنایاگیا۔مظالم کے ایسے خوفناک پہاڑتوڑے گئے کہ ساری دنیانے ابوغریب جیل میں مسلمانوں کی غیرت کے جنازے نکلتے دیکھے اورعراق کی افواج نے صدام حسین سے غداری کی۔تمام جہاز،میزائل اورسامان حرب دھراکا دھرارہ گیا۔امریکاکولتاڑنے پرصدام حسین کو پھانسی پرچڑھادیاگیالیکن دنیانے دیکھاکہ بعدازاں امریکی خارجہ سیکرٹری کولن پاؤل اورٹونی بلیئرکوعراقی جنگ پر معافی مانگناپڑی لیکن سوال یہ ہے کہ اس تمام تباہی کے ذمہ داروں کوعالمی عدالت کے کٹہرے میں کیوں پیش نہیں کیاگیا۔
معاملہ یہی ختم نہیں ہوابلکہ جونہی تین دہائیوں کے بعدمصرمیں منتخب حکومت نے اپنی خودمختاری کاجونہی احساس دلایافوری طورپراس کا دھڑن تختہ کرکے اپنانمائندہ سامنے لے آئے اوراس کے ساتھ ہی خلیجی ریاستوں کے بادشاہوں اورحکمرانوں کویقین دلایاگیاکہ ان کے اقتدار کواس وقت تک کوئی خطرہ نہیں جب تک وہ امریکااورمغرب کے تابعدارہیں ۔ دنیا کے امن پسندیہ پوچھ رہے ہیں کہ موت کے ان سوداگروں کامحاسبہ کب ہوگا؟