... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پچیس اور چھبیس کا کھیل دیکھنے میں محو عوام نتائج جان چکی ہے جس سے یہ طے ہو گیا ہے کہ نہ صرف رواں ماہ پچیس اکتوبرکو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں گے اور جسٹس منصورعلی شاہ کا اِس عہدے پر فائز ہونے کاکوئی امکان نہیں رہا بلکہ یہ بھی ابہام دورہوگیا ہے کہ بدلے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے وفاداریاں تبدیل کرانااب بھی حکومت کے لیے کچھ خاص مشکل نہیں۔ علاوہ ازیں اِس کھیل میں جمہوریت ،آئین اور ووٹ کی عزت کے کئی دعویدار بھی اِس بُری طرح بے نقاب ہوئے ہیں کہ شاید بقیہ سیاسی حیات اپنے کردار کی صفائیاں دیتے گزار دیں ۔حالانکہ ملک کا اندازِ سیاست بڑی حد تک تبدیل ہو چکا ہے لیکن چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے دوران ایک بار پھر آشکار ہو گیا کہ تبدیلی نے سیاست کومتاثر نہیں کیا۔مقبول جماعتوں کی اہمیت اپنی جگہ،مگر اہل اقتدار سے مراسم بنانے اور پُختہ کرنا اب بھی ممبرانِ پارلیمنٹ کی اولیں ترجیح ہے اور جب فوائدپرمبنی پیشکش ہوتو ضمیر کی آواز ،اصول اوربیانیہ قربان کرنے والے کشاں کشاں پہنچ ہی جاتے ہیں لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی رموز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بکنے اور خریدنے کا کھیل اب بھی جاری ہے ۔اگر خریدار حکومت ہو تورمزشناس سودوزیاں اپوزیشن وفادایاں فروخت کر سکتی ہے ۔
چھبیسویں ترامیم کی منظوری پرحکومت نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔ حکومتی حلقے اپنے تئیں مستقبل محفوظ بناکر خوش ہیں۔ اِس خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی سب سے زیادہ مقبول ترین ہونے کی دعویدار جماعت کو بے اثر کرنا بھی ہے مگر کیا حاکمانِ وقت اپنا مستقبل واقعی محفوظ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ؟ اِس سوال کا وثوق سے حق یا نفی میں جواب دینا ابھی قبل ازوقت ہو گا کیونکہ فی الوقت حکومت اور مقتدرہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور مشکل میں ایک دوسرے کی مددگار ہیں لیکن یہ ضرورت تاحیات برقرارنہیں رہ سکتی، بلکہ کسی وقت ختم بھی ہو سکتی ہے۔ جب ایک فریق دوسرے کے لیے بوجھ بن جائے یاکسی کو زیادہ بہتر متبادل مل جائے ایسے حالات میں الزامات لگاتے ہوئے تعلقات اور تعاون کا رتی بھر لحاظ کرنے کی ملکی سیاست میں کوئی نظیر نہیں ملتی غیر مقبولیت ،معاشی تباہی ،ملکی مفاد کے منافی کام سمیت راندہ ٔدرگاہ کرتے وقت ایسے ایسے جوازپیش کیے جائیں گے کہ رُخصت ہونے والا اِتنا بھی کہنے کی جسارت نہیں کر پائے گاکہ
دیکھا جو تیرکھاکے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کچھ لوگ اب بھی قومی حکومت کی بات کرتے ہیں مگر زمینی حقائق فوری طورپر ایسے کسی خیال کی نفی کرتے ہیں۔ البتہ بلاول بھٹو اپنی بھاگ دوڑ سے یہ یقین دلانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں کہ اگر انھیں بھی آزما لیا جائے تو نافرمان نہیں بلکہ تابعدارثابت ہو ں گے۔ خیریہ طے ہے کہ حکومت کو مقتدرہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اسی لیے ذرائع ابلاغ سمیت اہم حلقے ہدفِ تنقید بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ حمایت یا تو اپوزیشن کی مقبولیت تک میسر رہ سکتی ہے یا پھر ایسی صورتحال پیدا ہونے تک ،کہ مقتدرہ اور اپوزیشن میں سلسلہ جنبانی کا آغاز ہو جائے اسی لیے اگر مقتدرہ کا تعاون برقرا ررکھنا ہے تو نہ صرف مقبول اور طاقتور اپوزیشن کا ہوابرقراررہنا ضروری ہے بلکہ اپنے کردار وعمل سے یہ بھی ثابت کرنا لازم ہے کہ اپوزیشن سے زیادہ وہ تابعدار ہے لہٰذا کسی نئے تجربے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔
چھبیس کے بعد اب حکومت کی نظر پچیس پر ہے کیونکہ چھبیسویں ترامیم کی منظوری کے بعد اب پچیس اکتوبر کو نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کرنی ہے۔ اِس منصب پر کس کی تقرری کرنا ہے ؟اِس کے لیے مقتدرہ کی پسندکاخیال رکھتے ہوئے ایسے کسی چہرے کو آگے لانا ضروری ہے جس سے نظام کی بقاکو خطرہ لاحق نہ ہو۔اِس حوالے سے گزشتہ روزپارلیمانی کمیٹی کااجلاس ہوچکا۔ آئینی ترامیم سے حکومت کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے ۔اب اپوزیشن کوشش کربھی لے تووہ حکومت کو من مانی سے روکنے کے قابل نہیں رہی ۔خیر قابل تو وہ پہلے بھی نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو کیا سینیٹ میں صرف چار جبکہ قومی اسمبلی میں بارہ اراکین ہی مخالفت میں ووٹ دیتے ۔مگر ایسا ہواجس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن تمام ترشور شرابے کے باوجود اندرکھاتے ملنے والی ہدایات پر عمل پیراہے وہ تو احتجاج بھی ایسے انداز میں کرتی ہے کہ کسی کی جبین شکن آلود ہونے کااحتمال نہ رہے۔ اِس تناظر میں اپوزیشن کا ایوانوں سے غیر حاضر رہناطے شدہ حکمتِ عملی لگتاہے کیونکہ جس جماعت کے اکثر عہدے قانون دانوں کے پاس ہوں وہ ایسی بچگانہ سیاست کرے جس پر عوامی یاسیاسی پختگی کارنگ ناپیدہوناقابلِ فہم ہے ۔ماضی میں بھی اِس جماعت نے پی ڈی ایم کی حکومت بننے پر قومی اسمبلی کوخیرباد کہہ کر اور پنجاب و کے پی کے میں قائم اپنی ہی حکومتیں توڑ کر جس حماقت کا مظاہرہ کیا تھا وہی اندازِ سیاست اب بھی ہے۔ اسی لیا کہا جارہا ہے کہ یاتویہ جماعت ماضی کی حماقتوں سے سیکھنے پر تیار نہیں یا پھر تابعداری کا یقین دلانے کے لیے سخت بے چین ہے۔ اگرایسا نہ ہوتا تو عین گنتی کے وقت ایوانوں میں موجودگی یقینی بناتی اور کم ازکم اپنا اختلافی کردار تو ادا کرتی ۔مگر یہاں تو پارلیمنٹ سے فرار کو ہی آسان نسخہ کیمیاتصورکرلیا گیا ۔اُن سے تو جے یو آئی نے زیادہ فہم و فراست کا مظاہرہ کیا نہ صرف آئینی عدالت بنانے کا تہیہ کیے بلاول کو آئینی بینچ بنانے پر راضی کر لیا بلکہ 2028تک ملک سے مکمل طور پر سودختم کرانے کی شرط حکومتی منظورکرالی جس سے کم ازکم اسلام پسندوں کا دل جیتنے میں تو کامیاب ہو سکتی ہے ۔
شاید کسی نے حکومت کو یقین دلادیاہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اگر چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تو حکومت کمزور ہو جائے گی۔ اسی لیے ایک ہی شب میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے آئینی ترامیم منظورکرانے کے لیے تمام وسائل جھونک دیے گئے۔ حالانکہ کوئی بھی ناگزیر نہیں۔ چہرے تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ اصل اہمیت نظام کی ہے جسے مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا نظام جو عوامی مسائل کے حل میں ممدومعاون ہو،سچ یہ ہے کہ جج کا کام انصاف کرنا اور صحافی ہر خاص وعام کو باخبر رکھتا ہے جبکہ نظام کو عوامی و فلاحی بنانے میں سیاستدانوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ لیکن چھبیسویں ترامیم کی منظوری سے کسی کا کردار پوشیدہ نہیں رہا۔اب دیکھنایہ ہے کہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کاوشیں کہاں تک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں؟اِس کے درست جواب کے لیے طویل عرصہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔