وجود

... loading ...

وجود

مجسم تصوارت

منگل 22 اکتوبر 2024 مجسم تصوارت

زریں اختر

ہمارا شمارخدانخواستہ غرباکے اس قبیل سے نہیں جن کے دوست نہیں۔ہمیں تو ایسی سہیلیاں ملیں جن کی باتوں سے مجرد تخیل کو تجسیم ملی ،عام فہم زبان میںخیال کی زندہ مثالیں روشن ہوگئیں۔ جامعہ کراچی کی ہم شعبہ عائشہ،جو جامعہ میں گزارے گئے دو سال کے دوران نہیں اس کے بعد سہیلی بنی کہ ان کے والد اور چچاصاحبان کا(غالباََ) پندرہ روزہ رسالہ ”انجینئرنگ ریویو” کا دفترقومی اخبارو جرأت کے دفتر کے عین سامنے عمارت میں واقع تھاکہ اس کی سیڑھیاں اترو اور سڑک پھلانگ اس کی سیڑھیاں چڑھ جائو۔ ایک دن سہیلی نے اپنے گھر کے بارے میں بتایا کہ” یہ ہمارے دادا کا گھر ہے ۔اس میں ابو اور چچا (یعنی دو خاندان )رہتے ہیں ، ایک چچااپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ گھر میں منتقل ہوگئے اور پھپھو کی شادی ہوگئی ۔ میرے ابو اور چچابازار میں کرایے کی شرح کے حساب سے الگ رہنے والے چچا اور پھپھو کو اس گھر میں رہنے کا کرایہ دیتے ہیں ۔ میری سہیلی کا اتنا بتانا تھاکہ میرے منہ سے بے ساختہ لفظ نکلا ”تقویٰ” ، اسے تقویٰ کہتے ہیں۔کیا عام دنیا دارآدمی اس طرح سوچ سکتاہے؟ کہنے والے تو اس طرح کہتے ہیں کہ بھائی کو ہم نے تھوڑی کہاتھا کہ الگ گھر رہ کر رہنے لگے ،اس کی مرضی ، وہ جب واپس آنا چاہے آجائے ، ہم جو اس کی جگہ استعمال کررہے ہیں وہ خالی کردیں گے۔بہن کی شادی ہوگئی ،جہیز دے دلا دیا ، بہنوں کو تو ویسے بھی موقع بے موقع دینا دلانا رہتا ہی ہے ،بقول بی اماں کے بہن کو دینے کا کیا ہے چھینک آئے اور دے دو۔کبھی گھر بکے گا تو اس کو حصہ دے دیں گے، بات ختم ۔ عائشہ کے والد صاحب اور چچا صاحب کے لیے یہ بات اس طرح ختم نہیں ہوتی تھی ، میں اس کاتمام تر سہرا ان ہی کے سر باندھوںکہ نیک ( سقراط کے نزدیک ذہانت نیکی سے وابستہ ہے اور بدی کم عقلی سے )مرد تھے یا کچھ تعریف ان کی بیگمات کی بھی کہ ایسی نیک سیرت عورتیں ملیںورنہ تو یہ عمل دو دھاری تلوار تھا۔
میری دوسری سہیلی میری ہم نام ، کبھی خیال کا پہاڑ لیے کہ سمجھ میں نہ آئے اٹھائے ہو ئی ہے یا اس کے تلے دبی ہوئی ہے ، کبھی رائتہ پھیلائے اور پریشان کہ نہیں پھیلانا چاہیے تھا ،باقی اس کو کھچڑی ، کچومر ، بھرتہ ،چوں چوں کا مربہ سب بھاتاہے۔ لیکن ایک تصور جو اس پرمنکشف ہواوہ تھا اُردو کا محاورہ ”بول ہارنا”، میرے اور اس کے درمیان اس ہار پر جو مکالمہ ہوا وہ ملاحظہ فرمائیں:
سہیلی : ‘بول ہارنا’ کسے کہتے ہیں ، پتا ہے؟
میں : (کچھ کہنے کی کوشش میںتھی کہ)
سہیلی : ( یاسیت بھر ے لہجے میں )یہ محاورہ کتنا سچا ہے ، میری زندگی پر تو صد فی صد صادق آتاہے۔
میں: ( ہمیشہ کی طرح اس کی یاسیت بھرے لہجے سے مغلوب ہوتے ہوئے ) وہ کیسے؟
سہیلی : کہنے کو تو میرے شوہر کے اتنے بڑے بڑے کان ہیں (اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں اور انگوٹھے کو مخالف سمتوں میں کھینچتے ہوئے کہا)، اتنے بڑے بڑے ،لیکن میرے لیے نہیں۔
میں : (ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے )کیوںتمہاری کھنچائی میں نہیں آتے ؟ پہلے ہی پنجے برابر بتا رہی ہو اب کیا چپو سائز کرنا تھے
سہیلی : (میرے مذاقی فقرے کو سنی ان سنی کرتے ہوئے ) وہ میری سنتاہی نہیں
میں: (اس کو بہلانے کی اپنی کوشش جاری رکھتے ہوئے) سنتا تو ہوگا لیکن دوسرے کان سے بھی تو کام لینا ہے
سہیلی : (سنجیدہ آواز میں) میری سمجھ میں آگیاکہ ”بول ہارنا” کسے کہتے ہیں
میں: (ایک لمحے کے لیے مجھے اس کے سنجیدہ گھمبیر لہجے نے گنگ کردیا۔لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے پھر اپنی پٹری پکڑی اسے بھی تو زندگی کی پٹری پر ڈالنا تھا) ، سن قرة العین حیدر کا ناولٹ ”اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو” پڑھ کر آرہی ہے کیا؟ کچھ زیادہ ہی اثر لے لیا، تو پارسی تو نہیں ہے نا
سہیلی : (گھورتی ہے، پھر اس کے ہونٹوں پر وہ اطمینان بخش مسکراہٹ کھلتی ہے جس کو پانے کے لیے وہ مجھ سے یہ سب کہہ رہی تھی ،اور اب اس کا شرارتی مزاج بھی فارم میں آگیا، بولی) پہلے مجھے شک تھا ، میں تمہاری ذہنی حالت کی بات کررہی ہوں اور اب یقین ہوگیا ہے
میں : پوری بات تو سن لے
سہیلی : بول
میں : وہ اُردو ادب کے استا د ہیں نا ، ڈاکٹر یونس حسنی ، وہ کہہ رہے تھے کہ رتی جناح پارسی تھی ، پارسی عورت شوہر پرست ہوتی ہے۔ اسی لیے میں نے کہاکہ تو تو پارسی نہیں
سہیلی: پارسی نہیں ہوں توکیا کسی اور کی پرستش شروع کردوں ( یہ کہہ کر وہ خوب زور سے ہنسی کہ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے ، یہ بھیگے کنارے بھی میرے لیے معمہ بن گئے اور آج تک بنے ہوئے ہیں)۔
اس کی سمجھ میں واقعی آگیا تھا کہ بول ہارنا کسے کہتے ہیں ، جب عورت نکاح کے دوبولوں کے ساتھ بھی شوہر کی شرعی و قانونی محبت سے محروم ہو،اس کا ہاراہواخالی لہجہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے ۔اور جب ایک حادثے میں میرے دس سالہ بیٹے کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی تو مجھ پر یہ دعائیہ کلمہ جس طرح واشگاف ہوا اس سے قبل نہیں ہوا تھاکہ ”اللہ گھڑی گھڑی کی خیر رکھے”،ذاتی واقعہ لکھنے کا مقصد دعا کی صداقت بیان کرنا ہے۔
اب کچھ وہ تصورات جن کی اشکال دشوار ترین ہیں ۔ ”آئینہ دیکھنا اور دکھانا”، ”خود تنقیدی ” اور ”خود احتسابی”۔ یہ دشوار ترین تصورات کیوں ہیں؟ کیوں کہ عمر گزر چکی ہو تی ہے اور جب عمر گزار دی گئی تو یہ کیسے مان لیں کہ ہم غلط تھے۔ اس لیے ہمارے جیسے معاشروں میں تنقید اور احتساب تاریخ کی ذمہ داری بن جاتی ہے اوریہاں تو یہ حال ہے کہ ماضی کا قرض ہی ابھی تک چکتا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر جعفر احمد کسی موقع پر فرما رہے تھے کہ برصغیر کی تاریخ تو ابھی لکھی ہی نہیں گئی ۔
اُردویونیورسٹی گلشن کیمپس کے عبد القدیر آڈیٹوریم میں گزشتہ مہینے ٦ ِ ستمبر روایتی بیانیے کے ساتھ منایا گیا۔جامعات بھی اگر اپنی علمی آزادی کا استحقاق گروی رکھ دیں اور ریاستی پروپیگنڈے کا شکار ہی نہیں بلکہ آلہء کار بن جائیں تو ۔۔۔
مذہب کے نام پرمولوی حضرات سوال کرنا دشوار کردیں تو۔۔۔
ہمارے لیے تو بس پھر”مخروط خاموشی کا نظریہ (اسپرائیل آف سائلنس تھیوری) ہی پڑھانے کے لیے رہ جاتاہے بلکہ ہم طالب علم کو تاکید بھی اسی کی کرتے ہیںاور خود بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔یہاں وسعت اللہ خان کا کالم یاد آرہا ہے جس میں وہ پاکستان تحریکِ انصاف سے اپنی برات کا اعلان کررہے ہیں۔ وہ بھی لگتاہے کہ اسی نظریے کے ڈسے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر