وجود

... loading ...

وجود

دائروں کا سفر

منگل 22 اکتوبر 2024 دائروں کا سفر

باعث افتخار/ انجینئر افتخار چودھری

پاکستان کی سیاست ایک طویل اور مسلسل سفر ہے، کولہو کے بیل کی طرح جو اپنے محور کے گرد گھومتا رہتا ہے، مگر کہیں پہنچ نہیں پاتا۔ہماری سیاسی جماعتیں اور رہنما اسی صورت حال سے دوچارہیں ، جو وقت کے ساتھ بدلتے حالات اور مفادات کے دائرے میں گھومتے ہیں، مگر قوم کو حقیقی تبدیلی یا استحکام تک نہیں پہنچا پاتے۔
مجھے کبھی بھی بھروسہ نہیں تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا بل کامیاب نہیں ہوگا۔ لوگ مولانا کے بارے میں بڑی توقعات رکھتے تھے، اور ہمارے ایک دوست نے آج کہا کہ بلاول آئندہ وزیراعظم بنیں گے۔ میں نے اس میں اضافہ کر دیا کہ بلاول وزیراعظم بن گئے اور مولانا فضل الرحمن صدر پاکستان بن گئے۔ مگر یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مولانا کبھی ایسا کام نہیں کریں گے جو پی ٹی آئی کے موقف کو تقویت دے گا۔
میری عمر اس وقت 70 کے لگ بھگ ہے۔ میں نے مولانا کے والد کی قیادت میں پاکستان قومی اتحاد میں بھی کام کیا ہے۔ یقین کریں، اگر فضل الرحمن صاحب اس وقت مفتی محمود کی جگہ ہوتے تو کبھی ان کی حکومت کو بھٹو ختم نہ کرتا اور نہ ہی انہیں مفتی محمود کی جگہ سارجنٹ ایٹ آرم کے ذریعے اسمبلی سے اٹھا کر باہر پھینکا جاتا۔ ان کی شخصیت سے میں بخوبی واقف ہوں، وہ پارٹی کے اندر زبردست ڈکٹیٹر ہیں جو پارٹی کے اندر سر اٹھانے والوں کا سر کچل دیتے ہیں۔
حافظ حسین احمد نے کچھ سال پہلے کہا تھا کہ ہر پارٹی کے اندر ایک مشرف ہوتا ہے، ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔ میں نے کبھی پاکستانی ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں حافظ حسین احمد کو بڑے دلیرانہ انداز میں بات کرتے ہوئے سنا ہے۔ میں یہاں سنی سنائی باتیں نہیں کرتا، میں ایک عرصے سے سیاست میں ہوں خاص طور پہ میں نے 65 کی جنگ کے بعد ہوش سنبھالا تھا وہ دن بھی مجھے یاد ہیں کہ جب شورش نے چٹان کے سرورق پہ طوائف کو ناچتے ہوئے دکھایا تھا اور لکھا تھا
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
میں نے مفتی محمود کو بھی دیکھا، اور میں اُس جلسے میں بھی شریک ہوا جو 1977 میں بھٹو کے خلاف ہوا اور جس میں پنڈی سے گوجرانوالہ پہنچنے میں25 گھنٹے لگے تھے۔ میں نے اصغر خان کی سیاست کو بھی دیکھا ہے، مگر جتنی حیران کن سیاست میں نے مولانا فضل الرحمن کی دیکھی ہے، میں نے کسی کی نہیں دیکھی۔ یہ گزشتہ دو چار ماہ میں پاکستان کے ہیرو بنے رہے ہیں، ہر ایک نے ان پر اعتبار کیا، مگر میں نے ہمیشہ یہ کہا کہ مولانا اپنی مرضی کے جب فیصلے کروا لیں گے تو پی ٹی آئی کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
میں کبھی ایسی بات نہیں کرنا چاہتاجس سے سیاسی کارکن بد دل ہوں ۔ مگر سیاسی کارکنوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، اپنے لیڈروںسے ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ فلاں غلط ہے، فلاں غدار ہے، فلاں برا ہے۔ انشاء اللہ جو پارٹی کے قائد کر رہے ہیں، وہ بہتر کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، ہمارے اوپر جنگ مسلط کر دی گئی ہے اور ہمارے مخالفین کوئی چھوٹے موٹے بندے نہیں ہیں۔
میں نے دیکھا کہ میاں اسلم صاحب جماعت اسلامی کے نائب امیر ہیں، ان کے گھر اجلاس جاری تھا جس میں چوہدری نثار، عمران خان، اور اے پی ڈی ایم کے دیگر لیڈر بھی موجود تھے۔ قاضی حسین بھی موجود تھے، ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ صوبہ سرحد میں ان کی حکومت تھی اور مرکز میں اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن تھے۔ بات ایم ایم اے کی حکومت کے استعفیٰ دینے پر رکی ہوئی تھی۔ قاضی حسین احمد بار بار کہہ رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمن مکہ مکرمہ چلے گئے ہیں اور میری ان سے بات ہوئی ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ ہم استعفے دیں گے۔ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ میری بات یاد رکھ لیں، کہ مولانا فضل الرحمن کبھی ایسا نہیں کریں گے بلکہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔اگرچہ آج بھی نامکمل، سینٹ ہے لیکن ترمیم انہوں نے منظور کر لی ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ ہم نے اس سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں۔ نہیں مولانا، ایسا نہیں ہوا، آپ کبھی بھی اپوزیشن صحیح معنوں میں نہیں کرتے۔ آپ نے اس وقت بھی اپنے آپ کو بچا کے رکھا جب لال مسجد پہ حملہ ہوا۔ مجھے یاد ہے، میں عمران خان کا ڈپٹی سیکریٹری انفارمیشن تھا، اور عمران خان نے یہ موقف اپنایا تھا کہ ہم ہر قسم کی زیادتی کے خلاف ہیں زیادتی کوئی بھی کرے وہ ناقابل قبول ہے۔آپ کو پتہ ہے لال مسجد پہ حملے کے بعد جو کچھ ہوا کتنی لاشیں گریں ،کتنے بم دھماکے ہوئے تاریخ سے کوئی سیکھتا نہیں ،لال مسجد کے واقعے کے بعد جو کچھ پاکستان نے دیکھا جو اس کی قیمت ادا کی اس کا ایک عام آدمی کو اندازہ نہیں لوگ سمجھتے کیوں نہیں اپنی انکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ کوئی بھی ظالم جو ہے وہ تا دیر زندہ نہیں رہتا، کتنے لوگ آئے اور کتنے چلے گئے خطے میں۔ ایک شہنشاہ رضا شاہ پہلوی بھی ہوتا تھا جس کو دفن کے لیے دوگز زمیں بھی نہ ملی ۔کیا مثالیںدیں ۔لوگ سب سمجھتے ہیں
آج مولانا فضل الرحمن نے سیاسی منظرنامے میں اپنے مخالفین کو چن چن کر شکست دی ہے۔اور اپنا مقصد پورا کر لیا ہے اور انہوں نے اپنا رانجھا بھی راضی کیا ہے ۔
آج ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پی ٹی آئی نے ماضی میں کتنی جدوجہد کی ہے، اور میں اس بات کا یقین رکھتا ہوں کہ ہم مل کر ہر چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے کارکنوں کی محنت کی قدر کرنی چاہیے اور ایک مضبوط پلیٹ فارم پر کھڑے رہنا چاہیے۔آخر میں، مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا مستقبل دیکھتے ہوئے، بلاول بھٹو کا وزیرِاعظم بننا اور مولانا فضل الرحمن کا صدر پاکستان بننا کوئی دور کی بات نہیں۔ مولانا نے اپنی سیاست کے سفر میں ہمیشہ اپنے مفادات کو فوقیت دی اور آج وہ اپنے تمام مخالفین کو مات دے چکے ہیں۔ہاں قرآن پاک میں بھی ہے کہ لوگ مکر کرتے ہیں اور اللہ تعالی ان کے ساتھ بہتر سلوک کرے گا۔ سیاسی کارکنوں کو کبھی بھی گھبرانا نہیں چاہئے۔ اُنہیں صرف اپنی جدوجہدپر یقین رکھنا چاہئے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر