... loading ...
باعث افتخار/ انجینئر افتخار چودھری
پاکستان کی سیاست ایک طویل اور مسلسل سفر ہے، کولہو کے بیل کی طرح جو اپنے محور کے گرد گھومتا رہتا ہے، مگر کہیں پہنچ نہیں پاتا۔ہماری سیاسی جماعتیں اور رہنما اسی صورت حال سے دوچارہیں ، جو وقت کے ساتھ بدلتے حالات اور مفادات کے دائرے میں گھومتے ہیں، مگر قوم کو حقیقی تبدیلی یا استحکام تک نہیں پہنچا پاتے۔
مجھے کبھی بھی بھروسہ نہیں تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا بل کامیاب نہیں ہوگا۔ لوگ مولانا کے بارے میں بڑی توقعات رکھتے تھے، اور ہمارے ایک دوست نے آج کہا کہ بلاول آئندہ وزیراعظم بنیں گے۔ میں نے اس میں اضافہ کر دیا کہ بلاول وزیراعظم بن گئے اور مولانا فضل الرحمن صدر پاکستان بن گئے۔ مگر یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مولانا کبھی ایسا کام نہیں کریں گے جو پی ٹی آئی کے موقف کو تقویت دے گا۔
میری عمر اس وقت 70 کے لگ بھگ ہے۔ میں نے مولانا کے والد کی قیادت میں پاکستان قومی اتحاد میں بھی کام کیا ہے۔ یقین کریں، اگر فضل الرحمن صاحب اس وقت مفتی محمود کی جگہ ہوتے تو کبھی ان کی حکومت کو بھٹو ختم نہ کرتا اور نہ ہی انہیں مفتی محمود کی جگہ سارجنٹ ایٹ آرم کے ذریعے اسمبلی سے اٹھا کر باہر پھینکا جاتا۔ ان کی شخصیت سے میں بخوبی واقف ہوں، وہ پارٹی کے اندر زبردست ڈکٹیٹر ہیں جو پارٹی کے اندر سر اٹھانے والوں کا سر کچل دیتے ہیں۔
حافظ حسین احمد نے کچھ سال پہلے کہا تھا کہ ہر پارٹی کے اندر ایک مشرف ہوتا ہے، ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔ میں نے کبھی پاکستانی ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں حافظ حسین احمد کو بڑے دلیرانہ انداز میں بات کرتے ہوئے سنا ہے۔ میں یہاں سنی سنائی باتیں نہیں کرتا، میں ایک عرصے سے سیاست میں ہوں خاص طور پہ میں نے 65 کی جنگ کے بعد ہوش سنبھالا تھا وہ دن بھی مجھے یاد ہیں کہ جب شورش نے چٹان کے سرورق پہ طوائف کو ناچتے ہوئے دکھایا تھا اور لکھا تھا
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
میں نے مفتی محمود کو بھی دیکھا، اور میں اُس جلسے میں بھی شریک ہوا جو 1977 میں بھٹو کے خلاف ہوا اور جس میں پنڈی سے گوجرانوالہ پہنچنے میں25 گھنٹے لگے تھے۔ میں نے اصغر خان کی سیاست کو بھی دیکھا ہے، مگر جتنی حیران کن سیاست میں نے مولانا فضل الرحمن کی دیکھی ہے، میں نے کسی کی نہیں دیکھی۔ یہ گزشتہ دو چار ماہ میں پاکستان کے ہیرو بنے رہے ہیں، ہر ایک نے ان پر اعتبار کیا، مگر میں نے ہمیشہ یہ کہا کہ مولانا اپنی مرضی کے جب فیصلے کروا لیں گے تو پی ٹی آئی کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
میں کبھی ایسی بات نہیں کرنا چاہتاجس سے سیاسی کارکن بد دل ہوں ۔ مگر سیاسی کارکنوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، اپنے لیڈروںسے ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ فلاں غلط ہے، فلاں غدار ہے، فلاں برا ہے۔ انشاء اللہ جو پارٹی کے قائد کر رہے ہیں، وہ بہتر کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، ہمارے اوپر جنگ مسلط کر دی گئی ہے اور ہمارے مخالفین کوئی چھوٹے موٹے بندے نہیں ہیں۔
میں نے دیکھا کہ میاں اسلم صاحب جماعت اسلامی کے نائب امیر ہیں، ان کے گھر اجلاس جاری تھا جس میں چوہدری نثار، عمران خان، اور اے پی ڈی ایم کے دیگر لیڈر بھی موجود تھے۔ قاضی حسین بھی موجود تھے، ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ صوبہ سرحد میں ان کی حکومت تھی اور مرکز میں اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن تھے۔ بات ایم ایم اے کی حکومت کے استعفیٰ دینے پر رکی ہوئی تھی۔ قاضی حسین احمد بار بار کہہ رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمن مکہ مکرمہ چلے گئے ہیں اور میری ان سے بات ہوئی ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ ہم استعفے دیں گے۔ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ میری بات یاد رکھ لیں، کہ مولانا فضل الرحمن کبھی ایسا نہیں کریں گے بلکہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔اگرچہ آج بھی نامکمل، سینٹ ہے لیکن ترمیم انہوں نے منظور کر لی ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ ہم نے اس سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں۔ نہیں مولانا، ایسا نہیں ہوا، آپ کبھی بھی اپوزیشن صحیح معنوں میں نہیں کرتے۔ آپ نے اس وقت بھی اپنے آپ کو بچا کے رکھا جب لال مسجد پہ حملہ ہوا۔ مجھے یاد ہے، میں عمران خان کا ڈپٹی سیکریٹری انفارمیشن تھا، اور عمران خان نے یہ موقف اپنایا تھا کہ ہم ہر قسم کی زیادتی کے خلاف ہیں زیادتی کوئی بھی کرے وہ ناقابل قبول ہے۔آپ کو پتہ ہے لال مسجد پہ حملے کے بعد جو کچھ ہوا کتنی لاشیں گریں ،کتنے بم دھماکے ہوئے تاریخ سے کوئی سیکھتا نہیں ،لال مسجد کے واقعے کے بعد جو کچھ پاکستان نے دیکھا جو اس کی قیمت ادا کی اس کا ایک عام آدمی کو اندازہ نہیں لوگ سمجھتے کیوں نہیں اپنی انکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ کوئی بھی ظالم جو ہے وہ تا دیر زندہ نہیں رہتا، کتنے لوگ آئے اور کتنے چلے گئے خطے میں۔ ایک شہنشاہ رضا شاہ پہلوی بھی ہوتا تھا جس کو دفن کے لیے دوگز زمیں بھی نہ ملی ۔کیا مثالیںدیں ۔لوگ سب سمجھتے ہیں
آج مولانا فضل الرحمن نے سیاسی منظرنامے میں اپنے مخالفین کو چن چن کر شکست دی ہے۔اور اپنا مقصد پورا کر لیا ہے اور انہوں نے اپنا رانجھا بھی راضی کیا ہے ۔
آج ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پی ٹی آئی نے ماضی میں کتنی جدوجہد کی ہے، اور میں اس بات کا یقین رکھتا ہوں کہ ہم مل کر ہر چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے کارکنوں کی محنت کی قدر کرنی چاہیے اور ایک مضبوط پلیٹ فارم پر کھڑے رہنا چاہیے۔آخر میں، مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا مستقبل دیکھتے ہوئے، بلاول بھٹو کا وزیرِاعظم بننا اور مولانا فضل الرحمن کا صدر پاکستان بننا کوئی دور کی بات نہیں۔ مولانا نے اپنی سیاست کے سفر میں ہمیشہ اپنے مفادات کو فوقیت دی اور آج وہ اپنے تمام مخالفین کو مات دے چکے ہیں۔ہاں قرآن پاک میں بھی ہے کہ لوگ مکر کرتے ہیں اور اللہ تعالی ان کے ساتھ بہتر سلوک کرے گا۔ سیاسی کارکنوں کو کبھی بھی گھبرانا نہیں چاہئے۔ اُنہیں صرف اپنی جدوجہدپر یقین رکھنا چاہئے۔