وجود

... loading ...

وجود

عمران خان کی رہائی کا مطالبہ

منگل 22 اکتوبر 2024 عمران خان کی رہائی کا مطالبہ

جاوید محمود

جب عمران خان کرکٹ کے عروج پر تھے، اس وقت عمران خان میری انتہائی ناپسندیدہ شخصیت تھے ۔مجھے ایسا لگتا تھا کہ عمران خان انتہائی مغرور اور تکبر سے بھرا انسان ہے۔ اس کا بات کرنا، اس کا اٹھنا بیٹھنا ،چلنا مجھے انتہائی ناپسند تھا ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ کرکٹ کی دنیا کے کارنامے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ماضی میں کرکٹ کے نتائج کو ہمیشہ متنازع بنا دیا جاتا تھا اور اس کا ذمہ دار ایمپائر کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ ہارنے والا اپنی ہار تسلیم نہیں کرنا تھا۔ ایمپائر کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان دنوں عمران خان نے نیوٹرل ایمپائر کی تجویز پیش کی اور اس کے لیے مہم چلائی۔ بآلاخر نیوٹرل ایمپائر رکھنے کو انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ نے اپنی پالیسی کا حصہ بنا لیا۔ اس کام کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے۔ عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں ایسے کارنامے کیے جو ہمیشہ تاریخ میں یاد کیے جائیں گے۔ 1989ء میں بھارتی کھلاڑی سری کانت عمران خان کی بال پرآؤٹ ہونے کے بعد سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پویلین کی طرف جاتے ہوئے سرجھٹک رہے تھے جس پر عمران خان نے ایمپائر سے کہہ کے انہیں واپس بلایا اور انہیں کھیلنے کی دعوت دی ۔عمران خان کی اگلی بال پر وہ آؤٹ ہو گیا اور انتہائی شرمندگی کے ساتھ میدان چھوڑنے پہ مجبور ہوا۔ ایسے درجنوں واقعات ہیں جو عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں ایک اچھے اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا مظاہرہ کرتے رہے۔
عمران خان کی والدہ کا کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ عمران خان نے اپنی والدہ کو کینسر کی تکلیف میں مبتلا دیکھنے کے بعد عہد کیا کہ وہ کینسر اسپتال بنائیں گے۔ جہاں غریب لوگ اپنا مفت علاج کرا سکیں ۔عمران خان نے مشورہ لینے کے لیے اپنا منصوبہ 20 نامور ڈاکٹروں کے سامنے رکھا جس میں سے 19ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں، جبکہ ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ہسپتال بنانا تو ممکن ہے لیکن مفت علاج ممکن نہیں ہوگا ۔لیکن عمران خان نے ان کے مشوروں کو نظر انداز کر کے یقین و یکسوئی کے ساتھ اس پر کام کرنا شروع کر دیا اور عوام سے چندہ جمع کرنے کے بعد ایک ہسپتال نہیں بلکہ تین کینسر ہسپتال بنانے میں کامیاب ہو گئے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ ہسپتال عالمی معیار پر پورے اُترتے ہیں ۔عمران خان نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ انہیں پیسوں کی بھوک اور لالچ نہیں ہے جب ان کی شادی جمائما سے ہوئی تو ان کے سسر کا شمار دنیا کے چوتھے نمبر کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو شادی پر انتہائی شاندار گھر تحفے میں دیا لیکن عمران خان نے جمائما کو یہ کہہ کر گھرلینے سے انکار کر دیا کہ ہمیں برطانیہ میں نہیں رہنا ۔عمران خان کی جب جمائما سے طلاق ہوئی تو برطانیہ کے قانون کے مطابق انہیں جمائما کی وراثت کا 50فیصد مل سکتا تھا لیکن انہوں نے اس میں کسی قسم کی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
عمران خان نے جب سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو ان کے بہت سے دوستوں اور عزیز واقارب نے منع کیا لیکن عمران خان نے کسی کسی کی نہ سنی اور سیاست میں کود پڑے۔ سیاست کی اونچ نیچ سے گزرنے کے بعد سخت مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن تقریبا ساڑھے تین سال بعد اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور وہ وزارتِ عظمی سے محروم ہو گئے۔ عمران خان پہ سینکڑوں مقدمات قائم کر دیے گئے اور وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر نے کے باوجود جیل میں ہیں ۔صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کے قید پر عالمی سطح پر ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔
عمران خان کو سزا سنائے جانے کے ایک سال بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے تحت منصفانہ ٹرائل کی کئی خلاف ورزیوں کا پتہ لگایا ہے جس کے نتیجے میں ان کی من مانی نظر بندی ہوئی ہے اور ان کی آزادی کے حق سے انکار کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عمران خان کے مقدمات کی اہم دستاویزات کا جائزہ لیا ہے اور ٹرائل میں شامل وکلا ء سے بات کی ہے۔ عمران خان کو حراست میں رکھنے اور تمام سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے قانونی نظام کو ہتھیار بنانے کا ایک نمونہ نوٹ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کو صوا بد یدی پری ٹرائل حراست سے فوری رہا کریں ۔جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کام کرنے والے گروپ نے پاکستان کے قید سابق وزیراعظم عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حراست میں لیا گیا ہے۔ امریکن سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کے ساتھ بات چیت میں خبردار کیا کہ قید سابق وزیراعظم عمران خان کی حفاظت امریکہ کی اولین ترجیح ہے ۔کانگریس کے سابق سب سے طاقتور ڈیموکریٹک ٹول کی طرف سے پاکستان کو گزشتہ ماہ کے آخر میں جاری کیا گیا انتباہ پاکستانی تارکین وطن کے ارکان کی جانب سے شدید سرگرمی کے بعد سامنے آیا ۔ان خدشات کے درمیان کہ پاکستانی ادارے سابق وزیراعظم خان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جنہیں 2022 میں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ عمران خان اس وقت کرپشن کے الزامات میں قید ہیں ،جنہیں بڑے پیمانے پر سیاسی طور پرمحرکات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خان جنہیں پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول سیاستدان سمجھا جاتا ہے کو اپریل 2022 میں ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ترتیب دیے گئے اور امریکی حوصلہ افزائی کے ساتھ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تب سے خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کو ایک وحشیانہ جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ جبکہ جمائما نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور ان کے سیل کی بجلی بند کر دی گئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی انہیں اپنے بیٹوں سلمان اور قاسم خان سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ ایکس پر تفصیلی بیان میں جمائما نے کہا کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران عمران خان کے ساتھ جیل میں ایک سنجیدہ صورتحال سامنے آئی ہے۔ پاکستانی حکام نے ان کے اہل خانہ اور وکلاء کو ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے اور تمام عدالتی کارروائیاں بھی موخر کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملاقاتوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عمران خان کے بیٹوں کے ساتھ فون پر بات چیت بھی 10 ستمبر سے بند کر دی گئی ہے ۔حالانکہ وہ لندن میں مقیم ہیں اور برطانوی شہری ہیں۔ جمائما نے مزید انکشاف کیا کہ جیل میں عمران خان کا باورچی بھی چھٹی پر بھیجا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو چکا ہے۔ وکلاء ان کی حفاظت کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران کے اہل خانہ ان کی جماعت کے اراکین اور حمایتیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ تمام سیاسی مخالفین کو خاموش کرانے کی کوشش کا حصہ ہے ۔ عمران خان کی بہنیں عظمی خانم اور علیمہ خانم پر امن احتجاج کے دوران گرفتار ہوئیں اور ان کی قانونی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جمائمانے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی سنجیدگی کے پیش نظر عمران خان کی بہنوں اور بھانجے کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے بیٹوں سے رابطہ بحال کیا جائے تاکہ انہیں یقین دہانی ہو سکے کہ عمران خان محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ برا سلوک نہیں ہو رہا ۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کا لیڈر تصور کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں کی جانے والی ان کی تقریر جو عالمی سطح پر سب سے زیادہ دیکھی گئی ، ایک ریکارڈ ہے ۔یہ وہ تقریر ہے جس نے میرے دل میں عمران خان کی عزت پیدا کی اور جو نفرت میرے سینے میں عمران خان کے لیے تھی ،ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زائل ہو گئی۔ جمائما خان کے اس پیغام نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ امریکن سینیٹ سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دیگر ادارے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان تمام مطالبات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس مسئلے کا جلد سے جلد کوئی حل نکالنا چاہیے تاکہ پاکستان کی ساکھ مزید مجروح نہ ہو۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر