... loading ...
دریاکنارے/لقمان اسد
پاکستان میں آئی پی پیز کی شروعات 90 کی دہائی میں اس وقت ہوئی جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے نجی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ یوں پاکستان میں پہلی مرتبہ آئی پی پیز نے کام شروع کیا۔بجلی کے ریگولیٹر ادارے نیپرا کی ویب سائٹ پر پاکستان میں اس وقت کام کرنے والے بجلی کے کارخانوں کی تفصیلات موجود ہیں جو سنہ 1994 سے کام کر رہے ہیں یا اس کے بعد کی حکومتوں میں لگائے گئے۔ایسے نجی کارخانوں کی کُل تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے جو بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت کر رہے ہیں،اس وقت ملک میں 41 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے وسائل ہیں جبکہ ضرورت اس وقت 30 سے 31 ہزار میگا واٹ بجلی کی ہے۔ لیکن بجلی کی تقسیم کے ڈسٹری بیوشن نظام میں صرف 22 ہزار میگا واٹ بجلی لے جانے کی سکت ہے۔دوسرے لفظوں میں اگر لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ملک میں بجلی نہیں ہے۔ بجلی تو ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن ہمارا نظام اپ گریڈ نہیں ہے۔ ‘اب یہ جو بجلی بن رہی ہے اس میں زیادہ تر پروڈکشن آئی پی پیز کر رہے ہیں۔ اور ان کے معاہدے میں یہ لکھا ہے کہ وہ اتنی بڑی سرمایہ کاری اس لیے کر رہے ہیں کہ حکومت ان سے بجلی خریدے گی۔ حکومت اگر ان سے بجلی نہیں بھی لیتی تو ان کی پیدوار کی کیپیسٹی کی 80 فیصد ادائیگی حکومت کو ہر صورت کرنا ہو گی۔’
اب عوام کے دبائو اورسوشل میڈیاپرعام آدمی کی مسلسل کمپیئین کی وجہ سے ا بتدائی طور پرحکومت نے پانچ آئی پی پیز حبکو پاور، روش پاور، اے ای ایس لال پیر پاور، صبا پاور اور اٹلس پاور سے”بجلی خرید معاہدے” ختم کر دیے ہیں اور نہ ہی ان پلانٹس کو کیپیسٹی سمیت آئندہ کے لیے کوئی ادائیگی کی جائے گی۔ ان پلانٹس کی منظوری کب دی گئی، مالکان کون ہیں، گزشتہ ایک سال میں کیپسٹی پیمنٹ کتنی کی گئی، گزشتہ ایک سال میں مجموعی ادائیگی کتنی کی گئی اور گزشتہ دس سالوں میں ان پانچوں پلانٹس کو کیپیسٹی پیمنٹ کتنی کی گئی، اس کے علاوہ معاہدے کے خاتمے کے بعد بچت کتنی ہو گی۔ میری نظر میں یہ پانچوں پرچون پاور پلانٹس ہیں، بڑی واردات پر بھی فوراً ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے چار پاور پلانٹس 1994 اور ایک پاور پلانٹ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگایا گیا ہے۔
حبکو پاور پلانٹ حبکو کمپنی نے لگایا ہے جس کے مالک حبیب اللہ صاحب ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں اس پلانٹ نے کوئی پیداوار نہیں کی یعنی ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی اس کے باوجود اس پلانٹ کو صرف ایک سال میں کیپیسٹی کی مد میں 24.24 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ گزشتہ دس سالوں میں اسی پلانٹ کو صرف کیپیسٹی کی مد میں 205.034 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ حبکو گروپ کے تمام پاور پلانٹس کو صرف ایک سال میں مجموعی ادائیگی 355.993 ارب روپے کی گئی جس میں صرف 267.90 ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹ شامل ہے۔
روش پاور داؤد گروپ کی ملکیت ہے جو گزشتہ ایک سال میں 4 فیصد چلا ہے یعنی سال میں 14 دن، اس پیداوار پر خرچہ 37.19 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔ کیپیسٹی پیمنٹ 6.884 ارب روپے یعنی 706.86 روپے فی یونٹ جبکہ مجموعی ادائیگی 7.256 ارب یعنی 745.05 روپے فی یونٹ۔ گزشتہ دس سالوں میں صرف کیپیسٹی کی مد میں 60 ارب کی وصولی کی گئی۔
اے ای ایس لال پیر میاں منشاء گروپ کی ملکیت ہے۔ گزشتہ ایک سال میں اس پلانٹ نے بھی صرف 11 فیصد پیداوار دی ہے یعنی سال میں صرف 41 دن چلا ہے، اس پیداوار پر خرچہ وصولی 14.96 ارب روپے یعنی 41.73 روپے فی یونٹ۔ کیپیسٹی پیمنٹ 8.49 ارب روپے یعنی 23.69 روپے فی یونٹ جبکہ مجموعی ادائیگی 23.45 ارب روپے یعنی 65.41 روپے فی یونٹ کے حساب سے کی گئی ہے۔ اس پاور پلانٹس کو گزشتہ دس سالوں میں کیپیسٹی کی مد میں 52.081 ارب روپے کی ادائیگی۔ منشاء گروپ کے چاروں پلانٹس کا گزشتہ ایک سال میں کیپیسٹی کی مد میں 25.77 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی جبکہ گزشتہ دس سالوں میں 184.126 ارب روپے کی کیپیسٹی ادائیگی کی گئی۔صبا پاور پلانٹ کوسٹل صبا پاور کمپنی لمٹیڈ نے لگایا جسے بعد میں اوریئنٹ کمپنی کا نام دے گیا۔ اس پاور پلانٹ نے گزشتہ ایک سال میں صرف 17 دن پیداوار دی ہے، اس پیداوار پر خرچہ وصول 3.36 ارب روپے یعنی 60.70 روپے فی یونٹ۔ کیپیسٹی پیمنٹ 3.132 ارب روپے یعنی 56.58 روپے فی یونٹ جبکہ مجموعی وصولی 6.50 ارب روپے کی گئی۔ اس پاور پلانٹ کو گزشتہ دس سالوں میں کیپیسٹی کی مد میں 17.833 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔اٹلس پاور پلانٹ شیرازی خاندان کی ملکیت ہے، اس پلانٹ نے بھی گزشتہ ایک سال میں 47 دن پیداوار دی ہے اس پیداوار پر خرچہ وصولی 10.103 ارب روپے یعنی 39.94 روپے فی یونٹ۔ کیپیسٹی پیمنٹ 4.47 ارب روپے یعنی 17.65 روپے فی یونٹ جبکہ مجموعی وصولی 14.57 ارب روپے یعنی 57.59 روپے فی یونٹ۔ گزشتہ دس سالوں میں اس پاور پلانٹ کو 43.173 ارب روپے صرف کیپیسٹی کی مد میں ادا کیے گئے۔اس حساب سے گزشتہ ایک سال میں ان پانچوں پاور پلانٹس کو 76.016 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی جس میں 47.216 ارب روپے صرف کیپیسٹی شامل ہے، اسی طرح گزشتہ دس سالوں میں ان پانچوں پاور پلانٹس کو 378.061 ارب روپے کیپیسٹی کی مد میں ادا کیے گئے۔
ان پانچوں پاور پلانٹس کی پیداواری صلاحیت 2465 میگاواٹ ہے۔ گزشتہ صرف ایک سال میں تمام 101 آئی پی پیز کو مجموعی ادائیگی 3127 ارب روپے جس میں 1929 ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹ شامل ہے۔ ان پانچوں پاور پلانٹس کے معائدہ خاتمے سے مجموعی طور پر 76.016 ارب یعنی 2.43 فیصد ادائیگیوں میں کمی آئے گی۔ مزید 18 پلانٹس کی کیپیسٹی ختم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے ان پلانٹس کو صرف بجلی پیداوار ادائیگی کی جائے گی۔