... loading ...
انجینئر افتخار چودھری
پاکستان کی بیٹی وہ مقدس امانت ہے جس کی عزت، حرمت اور وقار کی حفاظت ہر شہری کا فرض ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جہاں ہر طرف انصاف کی باتیں کی جاتی ہیں، وہاں کبھی کبھار ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو ہمارے دلوں کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ ایسے واقعات جو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ہماری اخلاقی اقدار اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ ہم دوسروں کی بیٹیوں کو کم تر سمجھتے ہیں؟ اس سچائی کی ایک تازہ مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب ایک بے بس لڑکی نے ایک ایس پی کو کہا کہ ”میں بھی کسی کی بیٹی ہوں، کیا آپ کی کوئی بیٹی نہیں ہے”؟ اس پر اس اعلیٰ افسر کا جواب تھا: میری بیٹی اتنی سستی نہیں ہے”۔ یہ جواب کسی انفرادی شخص کی سوچ نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی نظام کی ایک تشویشناک علامت ہے، جہاں انسانیت کے بنیادی اصول اور اقدار بُری طرح پامال ہو چکی ہیں۔
میںنے اس واقعے پر پہلے بھی ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا: ”بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں”۔ میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ پاکستان کا ایک المیہ ہے کہ ہماری بیٹیوں کو معاشرتی ناانصافیوں اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ بیٹیاں کسی بھی قوم کا وقار ہوتی ہیں اور ان کی حرمت کا تحفظ صرف ان کے والدین کا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا فرض ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی اس فرض کی ادائیگی کر رہے ہیں؟ کیا ہم ان اخلاقی اقدار کے علمبردار ہیں جو ایک باوقار قوم کے شایانِ شان ہوں؟بیٹیاں: ہر ایک کی بیٹی ہماری بیٹی ہے جس طرح میری بیٹی ربیعہ ہے
ایس پی کے دلخراش جواب نے معاشرتی بے حسی اور اخلاقی گراوٹ کی تصویر کشی کی ہے۔ ایک بیٹی کی حرمت کی بے قدری صرف اس کے والدین کے لئے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لئے ایک المیہ ہے۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اس ظلم کو کیسے دیکھ سکتے ہیں اور خاموش رہ سکتے ہیں؟ کیا ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دوسروں کی بیٹیاں ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں؟ کیا ہماری معاشرتی اقدار صرف اس بات تک محدود ہو چکی ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو تو محفوظ رکھنا ہے لیکن دوسروں کی بیٹیوں کی حفاظت کرنے کا کوئی احساس باقی نہیں؟بیٹی کا مقام ہمارے دین اور ثقافت میں بہت بلند ہے۔ قرآن اور حدیث میں بارہا بیٹیوں کی عزت اور ان کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ۖ نے فرمایا: ”جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے، تو وہ جنت کا حقدار ہوگا”۔ اس فرمان کی روشنی میں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ ہر بیٹی چاہے وہ کسی کی بھی ہو، ہماری اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے۔
یہ صرف ایک ایس پی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے نظام کا ہے۔ جب ایک اعلیٰ عہدیدار اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر حساس الفاظ استعمال کرتا ہے، تو یہ صرف اس کی ذاتی رائے نہیں ہوتی بلکہ اس سے پورے نظام کی بے حسی اور بگاڑ کی عکاسی ہوتی ہے۔ حکومتیں آئین اور قانون کے تحفظ کے لئے قائم کی جاتی ہیں، لیکن اگر یہی حکومتیں اور ان کے نمائندے عوام کے ساتھ ناانصافی کریں تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ آج بھی ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ ایک بیٹی جسے امریکہ کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑ رہی ہیں اور ہماری حکومتیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جب بیٹیاں اپنی قوم کی عزت اور فخر ہوتی ہیں، تب بھی ان کی حرمت کے تحفظ کے لئے ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیٹیاں صرف جسمانی حفاظت کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ ان کی عزت و وقار کا تحفظ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ ایک مثال ہے کہ کس طرح ہم نے اپنی بیٹیوں کی حرمت کو عالمی سطح پر پامال ہونے دیا۔ اور یہ مسئلہ صرف عالمی سیاست تک محدود نہیں، ہمارے اپنے ملک میں بھی بیٹیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور حکومتیں محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
یہاں ایک اور نکتہ اٹھانا ضروری ہے جو کہ ایس پی خاتون کی طرف سے سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہمیں گالیاں دی جاتی ہیں”۔ بلاشبہ گالیاں دینا ایک بری بات ہے اور کوئی بھی مہذب قوم اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگ گالیاں کیوں دیتے ہیں؟ کیا یہ ان کی فطرت میں شامل ہے یا پھر وہ مظلومیت کی آخری حدوں پر پہنچ کر احتجاج کا یہ طریقہ اپناتے ہیں؟اگر حکومت اور اس کے نمائندے انصاف کے اصولوں پر چلیں، اگر وہ عوام کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، تو لوگ گالیاں کیوں دیں گے؟ گالیاں اسی وقت دی جاتی ہیں جب عوام کو لگتا ہے کہ ان کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، ان کے مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور ان کی عزت و حرمت کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ لہٰذا، حکمرانوں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں، اپنے فرائض کی ادائیگی میں انصاف اور ایمانداری کو ملحوظ خاطر رکھیں، تاکہ عوام میں غم و غصے کی فضا نہ پیدا ہو۔
آخر میں یہ بات کہنی ضروری ہے کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر بیٹی کو اس کی عزت و حرمت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنی بیٹیوں کو وہی مقام نہیں دیتی جو ان کا حق ہے۔ ہر بیٹی کسی نہ کسی کی عزت ہوتی ہے اور اس کا تحفظ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کی تاریخ میں بیٹیوں کے ساتھ کیے جانے والے مظالم کو بھلایا نہیں جا سکتا، چاہے وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی، علیمہ خانم اور ان کی بہنیں ہوں یا کوئی اور۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی آواز سنے اور ایسے اقدامات کرے جو نہ صرف ان کی جان و مال کی حفاظت کریں بلکہ ان کی عزت و وقار کو بھی یقینی بنائیں۔ ہمیں اپنے معاشرتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی بیٹی کبھی بھی یہ نہ کہنے پر مجبور ہو کہ ”میں بھی کسی کی بیٹی ہوں، کیا آپ کی کوئی بیٹی نہیں ہے”؟
حکومت اور اداروں کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا، تاکہ پاکستان کی بیٹیوں کو ان کے حقوق اور عزت ملے اور وہ ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل کی امید رکھ سکیں۔آئی جی صاحب آپ کی بھی کوئی بیٹی ہوگی آپ خدا سے ڈریں یہ دنیا یقین کریں واقعی فانی ہے اچھا ہوتا کہ آپ ڈاکٹر بن کے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں نہ کہ ایسے ظالموں کے ہاتھوں کا کھلانا بن کے پورے پنجاب کو ایک دوزخ بنا کے آپ نے
رکھ دیا ہے۔ آپ کے دائیں بائیں بھی لوگ جی رہے ہیں تو اپ ہی کی طرح کا آئی جی ہے اس سے تو کوئی گلہ نہیں آپ پھر کیوں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کر رہے ہیں؟