... loading ...
ریاض احمدچودھری
سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید ناصر انتقال کر گئے۔ انہیں نماز جنازہ کے بعد آبائی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ انہوں نے پاکستان کیلئے بے شمار خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے لڑاکا فوج میں اعلیٰ ذہانت پیدا کرنے والے جرنیل تیار کئے تاکہ بھارت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ وہ پاک فوج کے ENC انجینئر انچیف اور WAR COURSE کے چیف بھی رہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کرنے میں 45 سال صرف کیے۔ پاکستان کے میزائل سازی کے پروگرام میں اہم کردار ادا کیا۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں بھی حصہ لیا تھا۔امام مسجد جناب نعیم خالد صاحب نے جنازے سے خطاب میں بتایا کہ میرا مرحوم سے 35 سالہ تعلق ہے۔ میں نے فوج کے بہت سے جرنیل دیکھے ہیں مگر ان جیسا جنرل نہیں دیکھا جس کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے ہوں۔یہ اس بات کی شہادت ہے کہ انہوں نے دین کی تبلیغ کا حق پوری طرح ادا کیا۔ جہاں بھی جس ملک میں بھی رہے، نماز کبھی ترک نہیں کی۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے جنرل تھے جن کی داڑھی تھی۔جہاں کہیں نماز کا وقت ہوتا، اذان دیتے بلکہ اقامت بھی پڑھتے یا امامت بھی کرادیتے۔ یہ ان کا روزمرہ کا معمول تھا کہ وہ نماز کے وقت مسجد میں بہت پہلے آجاتے، اذان دیتے، اقامت پڑھتے ، نماز کے بعد وہ اکثر قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے۔ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کیلئے بہت کام کیا۔ میاں نواز شریف اپنے دور حکومت میں ان کو جوائنٹ چیف آف اسٹاف بنانا چاہتے تھے مگر یہ دین کی تبلیغ کیلئے پہاڑوں پر چلے گئے۔ ان کی تلاش میں ہیلی کاپٹر بھی بھیجے گئے کہ وہ واپس آئیں اور اپنا عہدہ سنبھالیں مگر جنرل صاحب نہ ملے۔
پاکستانی انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) مبینہ طور پر بوسنیائی جنگ کے دوران میں ایک فعال فوجی انٹیلی جنس پروگرام چلا رہی تھی جو 1992ء سے 1995ء تک جاری رہا۔ مبینہ طور پر جنرل جاوید ناصر کی نگرانی میں، اس پروگرام پر عملدرآمد ہوا جس میں جنگ کے دوران میں بوسنیا کے مجاہدین کے مختلف گروہوں کو اسلحہ کی منظم فراہمی اور تقسیم کو مربوط کیا گیا۔ برطانوی مؤرخ مارک کرٹس کے مطابق، آئی ایس آئی نے بوسنیائی دستہ، سعودی عرب کی مالی اعانت کے ساتھ منظم کیا تھا۔
پاکستان نے جولائی 1995ء میں جنیوا میں مسلم ممالک کے اجلاس میں اقوام متحدہ کی اسلحہ پابندی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر، فاروق لغاری نے بیان دیا کہ سربیا کے جارحیت پسندوں کو مطمئن کرنے کی مغربی پالیسی اثر نہیں دکھا رہی ہے۔ اس کے بعد پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے اسلحہ کی پابندی کے باوجود بوسنیا کی حکومت کو اسلحہ فراہم کرے گا۔ پاکستان بوسنیا میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے لیے چوتھی سب سے بڑی امدادی جماعت بن گیا اور اس نے بوسنیا کے مسلمانوں کی حفاظت اور سربوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنے فوجیوں کو وہاں رکھنے کا وعدہ کیا جب کہ فرانس اور دیگر ممالک اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے اپنی فوج واپس لانا چاہتے تھے۔جنرل ناصر نے بعد میں اعتراف کیا کہ، بوسنیا میں اقوام متحدہ کے اسلحے کی پابندی کے باوجود، آئی ایس آئی نے بوسنیائی مجاہدین کو اینٹی ٹینک ہتھیاروں اور میزائل دیے جنھوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کے حق میں جنگ کا رخ موڑ دیا اور سربوں کو محاصرہ ختم کرنے پر مجبور کر دیا۔2011ء میں، سابق یوگوسلاویا کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل نے 1990ء کی دہائی میں سربیا کی فوج کے خلاف بوسنیا کے مسلم جنگجوؤں کی مبینہ حمایت کے لیے آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر کو تحویل میں رکھنے کا مطالبہ کیا تھا، حکومت پاکستان نے، خراب صحت کا حوالہ دیتے ہوئے، ناصر کو اقوام متحدہ کے ٹریبونل کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اس تنازع کے عروج کے دوران میں، پاکستان کی وزارت خارجہ نے متعدد خطرے سے دوچار بوسنیائی پاشندوں کو تنازع والے علاقوں سے نکال لیا جو پاکستان ہجرت کر گئے۔ 1998ء میں پاکستانی ڈراما الفا براوو چارلی میں اس پروگرام کی چھوٹی سی نوعیت کا ذکر کیا گیا تھا اور ان پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ تب سے، پاکستان اور بوسنیا کے مابین خارجہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
جنرل جاوید ناصر (ر) مرحوم کے جنازے میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر جناب لیاقت بلوچ ، تبلیغی جماعت کے سرکردہ رہنما، سیاسی و مذہبی رہنما،عزیز و اقارب، دوست احباب بھی جنازے میں شریک ہوئے۔انہوں نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ دین کی تبلیغ کیلئے تبلیغی جماعت کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سفر کئے۔ اپنے علاقے میں بھی ہفتے کے روز ہر گھر میں جا کر لوگوں کو دین کی ، باجماعت نماز کی دعوت دیتے تھے۔ مسجد کے ساتھیوں کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ خراب موسم میں بھی ساتھیوں کو گھر تک چھوڑ کر جاتے ۔ شوگر کے مریض تھے۔ کچھ عرصے سے بیمار تھے۔ علاج کے بعد کچھ طبیعت سنبھل گئی تو مسجد میں چلے گئے۔ وضو کیا اسی سے ان کی طبیعت بگڑ گئی اور گھر پہنچ کر فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔