وجود

... loading ...

وجود

ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟

هفته 19 اکتوبر 2024 ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟

بے نقاب /ایم آر ملک

میں سوچ کے کولہو پر مصلوب تھا ، مٹھہ ٹوانہ کے ملک عزیز الرحمان معاشرتی قدروں کی تباہی پر شکوہ کناں تھے۔ معاشرے کی بے ثباتی ،بے اعتنائی پر سراپا بحث نظر آئے! ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟
اُس دور میں جب انسان کے بارے میں رائے تھی کہ وہ تہذیب و تمدن سے ناآشنا تھا ۔میری نظروں نے انسانی تہذیب کے ارتقاء کی جو تاریخ چاٹی ہے اُس کے مطابق وہ رشتوں کی پہچان سے عاری تھا ، وحشی تھا۔ بے لباس تن کے ساتھ وہ بہن ،ماں ،بیٹی کے رشتے کو ایک ہی نام دیتا اور کہا جاتا ہے کہ وہ شعور سے نابلد تھا لیکن میرا ذہن نہیں مانتا۔ اسلام سے پہلے کی تاریخ میں بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جیسا واقعہ پنجاب کالج لاہور کی بچی نے جھیلا۔
مان لیا تب انسان شعور سے نابلد تھا ،ادراک سے خالی ،مگر ہزاروں برس کی تہذیب اور ارتقاء کے سفر نے اسے شعور بخشا پھر بھی وہ بیٹی جیسے مقدس رشتے کے لباس کو تار تار کیوں کر رہا ہے ،پنجاب کالج میں ایک بچی کو بے دردی سے نوچا گیا اور واقعہ کو چھپانے کیلئے ٹی وی چینلز کا بلیک چہرہ سامنے آیا ،جب یونیورسٹی میں ایک طالبہ پنکھے کے ساتھ جھول گئی ،زندگی سے آزادی حاصل کر لی کیا اس کے ذمہ دار ہم میڈیا والے نہیں کہ ایک خوفناک سین کی عکاسی کرنے سے ہمارا ضمیر قاصر رہا ،بے ضمیروں کی پریس کانفرنس میں رٹا رٹایا بیانیہ دُہرایا گیا ،عظمیٰ بخاری کی طرف سے لے پالک اور زر خرید صحافیوں کو دھمکی دی گئی کہ ”اگر کسی رپورٹر نے اونچی آواز میں بات کی یا بد تمیزی کرنے کی کوشش کی تو سن لو بات ان کی نوکریوں تک جائے گی”جب آپ سچ کو پسِ پشت ڈال کر کسی کے ٹکڑے کے محتاج ہو جائیں تو یہی ہوتا ہے ، پنجاب کی ٹک ٹاکر وزیر اعلیٰ ایک نئے بیانئے کی تلاش میں نکلی کہ ”کہ سراپا احتجاج بچوں کو کہیں سے ہلا شیری ملی ”۔یہ اخلاقی گراوٹ نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا اس من گھڑت بیانئے کو اب عوام قبول کر لیں گے ؟
اس بات سے بھی چلو انکار نہیں کہ تہذیب کے ارتقاء پکڑنے سے قبل انسان میں شعور نہیں تھا ،اُسے ادراک نہیں تھا وہ ایسا انسانیت سوز کام کرتا تو دوش کیسا؟مگر اُس نے یہ کام نہیں کیا ،تہذیبی ارتقا سے قبل عورت کو زندہ درگور تو کیا گیا مگر اُس کے جسم کو درندوں کی طرح بھنبھوڑا نہیں گیا۔ بانجھ سوچوں کے ساتھ میں یہ سوال جب اپنے دوستوں سے پوچھتا ہوں تو میرا ایک دوست کہتا ہے، انسان نے اپنا تن تو ڈھانپ لیا مگر ذہن ننگا ہو گیا۔ اس بار جب میں اپنے آبائی گائوں ”چوآ”گیا تو شہر خاموشاں میں میرا ہاتھ پکڑ کر چا چا نورا ایک قبر پر لے گیا
اُس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔
میں نے پوچھا !
چا چا !
یہ کوئی تمہارا عزیز ہے؟
چاچے نورے نے گردن نفی میں ہلا دی میں نے پوچھا
چاچا ! پھر تو یہ یقینا تمہارا دوست ہوگا!
اب کے بھی چاچے نورے کا جواب نفی میں تھا میں زچ ہو گیا۔
میں نے چاچے نورے کے کندھے کو پکڑ کر جھنجھوڑا آخر یہ کون ہے ؟
ایک انسان !
ہاں بیٹا ایک انسان جس میں انسانیت تھی ،رشتوں کی پہچان ہمیشہ جس کا وطیرہ رہا ۔ہمارے علاقے کا یہ نوجوان سپاہی تھا ۔صبح صادق ایک غیر مسلم بھنگن ان کی یونٹ میں جھاڑو دینے آیا کرتی تھی ایک سپاہی اسے نیت بد سے تنگ کرتا ۔ایک دن وہ رودی۔ اس لحد کے اندر سوئے ہوئے انسان نے کہا آج کے بعد تم اسے تنگ نہیں کرو گے وحشی نے کہا کیوں ،یہ تمہاری بہن لگتی ہے؟ ہاں آج سے یہ میری بہن ہے۔ پھر اگلے روز جب اُس وحشی نے اُس بھنگن لڑکی کو چھیڑا تو اِس لحد میں سوئے انسان نے اپنی رائفل کی پوری میگزین اُس وحشی کے ناپاک جسم پر خالی کردی وہ وحشی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور یہ ۔۔۔۔۔۔
ہاں بیٹا یہ کسی کی بہن کو اپنی بہن کہہ کر تختہ ٔ دار پر جھول گیا!
میں سچ کے حصار سے نکلنا بھی چاہوں تو نہیں نکل سکتا لیکن ایک بات سچی ہے اور اس سچ پر کسی بھی جھوٹ کی ملمع کاری نہیں کی جاسکتی کہ ہمارا بکا ہوا میڈیا مریم کے الفاظ منہ میں ڈال کر مورد الزام صرف اُس عوامی سیاسی جماعت کو ٹھہرا رہا ہے جس نے 8فروری کے الیکشن میں پنجاب میں ان کا تیا پانچہ کرڈالا ، طلبا اُن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ، وہ حقیقت پر مٹی ڈالنے کے خلاف شاہرات پر نکلے ہیں ، جن مجرموں نے یہ کام کرایا اُن کے خلاف ایک لفظ تک نہیں ،من پسند آئینی ترامیم میں شاہ محمود قریشی کی بہو،ریاض فتیانہ کے بیٹے کے اغوا ، ،بلوچستان کی خاتون سینیٹرنسیمہ احسان ،بلوچستان سے ہی گردوں کے مریض سینیٹر کی بیٹے سمیت اغوا کی واراداتیں کیا کسی ریاست میں پہلے کبھی ہوئیں؟ ایک دوست نے عرصہ پہلے کہا تھا کہ چاند پر قیامت گزر چکی ،زندہ ہم بھی نہیں ہیں ۔وہ پھر بھی راتوں کو روشن کیے ہوئے ہے ۔ہم نے اجالوں میں اندھیر مچا رکھا ہے۔ اُس نے اپنی سمت نہیں بدلی اور ہم اپنا چلن بھول گئے۔ وہ ماموں بن کر بہنوں کے آنگنوں میں ننھی منی کلیوں کو مہکا رہا ہے اور ہم باپ ہوکر بھی بہو ،بیٹیوں کو بے توقیر کر رہے ہیں ،دھبے ہیں ۔
اشرف المخلوقات جسے فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس منکر ہو گیا اور راندۂ درگاہ کردیا گیا۔ دنیا میں آج یہ ابلیس کو سجدہ کرتا پھرتا ہے۔
یہ کب ہوگا ؟
جب انسان انسان کا لہو نہ پیئے گا !
جب بے بسی کے آنسو موتی بن کر اُبھریں گے!
جب آہ عرش پر جائے گی تو نالوں کا جواب لائے گی!
جب انسانیت کی ناقدری پائوں تلے روندی نہ جائیگی!
جب بھوک کے عوض اقدار نہ بیچی جائیں گی !
دوستو !
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟


متعلقہ خبریں


مضامین
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟ وجود هفته 19 اکتوبر 2024
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟

قیامت کی چاپ:اسرائیل اورعالمی جنگ وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
قیامت کی چاپ:اسرائیل اورعالمی جنگ

جنرل(ر)جاوید ناصر اور تبلیغ دین وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
جنرل(ر)جاوید ناصر اور تبلیغ دین

اگرایساہواتو۔۔۔! وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
اگرایساہواتو۔۔۔!

مقبوضہ وادی میں صدر راج ، کشمیریوں کی شہادتیں وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
مقبوضہ وادی میں صدر راج ، کشمیریوں کی شہادتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر