... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
میں سوچ کے کولہو پر مصلوب تھا ، مٹھہ ٹوانہ کے ملک عزیز الرحمان معاشرتی قدروں کی تباہی پر شکوہ کناں تھے۔ معاشرے کی بے ثباتی ،بے اعتنائی پر سراپا بحث نظر آئے! ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟
اُس دور میں جب انسان کے بارے میں رائے تھی کہ وہ تہذیب و تمدن سے ناآشنا تھا ۔میری نظروں نے انسانی تہذیب کے ارتقاء کی جو تاریخ چاٹی ہے اُس کے مطابق وہ رشتوں کی پہچان سے عاری تھا ، وحشی تھا۔ بے لباس تن کے ساتھ وہ بہن ،ماں ،بیٹی کے رشتے کو ایک ہی نام دیتا اور کہا جاتا ہے کہ وہ شعور سے نابلد تھا لیکن میرا ذہن نہیں مانتا۔ اسلام سے پہلے کی تاریخ میں بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جیسا واقعہ پنجاب کالج لاہور کی بچی نے جھیلا۔
مان لیا تب انسان شعور سے نابلد تھا ،ادراک سے خالی ،مگر ہزاروں برس کی تہذیب اور ارتقاء کے سفر نے اسے شعور بخشا پھر بھی وہ بیٹی جیسے مقدس رشتے کے لباس کو تار تار کیوں کر رہا ہے ،پنجاب کالج میں ایک بچی کو بے دردی سے نوچا گیا اور واقعہ کو چھپانے کیلئے ٹی وی چینلز کا بلیک چہرہ سامنے آیا ،جب یونیورسٹی میں ایک طالبہ پنکھے کے ساتھ جھول گئی ،زندگی سے آزادی حاصل کر لی کیا اس کے ذمہ دار ہم میڈیا والے نہیں کہ ایک خوفناک سین کی عکاسی کرنے سے ہمارا ضمیر قاصر رہا ،بے ضمیروں کی پریس کانفرنس میں رٹا رٹایا بیانیہ دُہرایا گیا ،عظمیٰ بخاری کی طرف سے لے پالک اور زر خرید صحافیوں کو دھمکی دی گئی کہ ”اگر کسی رپورٹر نے اونچی آواز میں بات کی یا بد تمیزی کرنے کی کوشش کی تو سن لو بات ان کی نوکریوں تک جائے گی”جب آپ سچ کو پسِ پشت ڈال کر کسی کے ٹکڑے کے محتاج ہو جائیں تو یہی ہوتا ہے ، پنجاب کی ٹک ٹاکر وزیر اعلیٰ ایک نئے بیانئے کی تلاش میں نکلی کہ ”کہ سراپا احتجاج بچوں کو کہیں سے ہلا شیری ملی ”۔یہ اخلاقی گراوٹ نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا اس من گھڑت بیانئے کو اب عوام قبول کر لیں گے ؟
اس بات سے بھی چلو انکار نہیں کہ تہذیب کے ارتقاء پکڑنے سے قبل انسان میں شعور نہیں تھا ،اُسے ادراک نہیں تھا وہ ایسا انسانیت سوز کام کرتا تو دوش کیسا؟مگر اُس نے یہ کام نہیں کیا ،تہذیبی ارتقا سے قبل عورت کو زندہ درگور تو کیا گیا مگر اُس کے جسم کو درندوں کی طرح بھنبھوڑا نہیں گیا۔ بانجھ سوچوں کے ساتھ میں یہ سوال جب اپنے دوستوں سے پوچھتا ہوں تو میرا ایک دوست کہتا ہے، انسان نے اپنا تن تو ڈھانپ لیا مگر ذہن ننگا ہو گیا۔ اس بار جب میں اپنے آبائی گائوں ”چوآ”گیا تو شہر خاموشاں میں میرا ہاتھ پکڑ کر چا چا نورا ایک قبر پر لے گیا
اُس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔
میں نے پوچھا !
چا چا !
یہ کوئی تمہارا عزیز ہے؟
چاچے نورے نے گردن نفی میں ہلا دی میں نے پوچھا
چاچا ! پھر تو یہ یقینا تمہارا دوست ہوگا!
اب کے بھی چاچے نورے کا جواب نفی میں تھا میں زچ ہو گیا۔
میں نے چاچے نورے کے کندھے کو پکڑ کر جھنجھوڑا آخر یہ کون ہے ؟
ایک انسان !
ہاں بیٹا ایک انسان جس میں انسانیت تھی ،رشتوں کی پہچان ہمیشہ جس کا وطیرہ رہا ۔ہمارے علاقے کا یہ نوجوان سپاہی تھا ۔صبح صادق ایک غیر مسلم بھنگن ان کی یونٹ میں جھاڑو دینے آیا کرتی تھی ایک سپاہی اسے نیت بد سے تنگ کرتا ۔ایک دن وہ رودی۔ اس لحد کے اندر سوئے ہوئے انسان نے کہا آج کے بعد تم اسے تنگ نہیں کرو گے وحشی نے کہا کیوں ،یہ تمہاری بہن لگتی ہے؟ ہاں آج سے یہ میری بہن ہے۔ پھر اگلے روز جب اُس وحشی نے اُس بھنگن لڑکی کو چھیڑا تو اِس لحد میں سوئے انسان نے اپنی رائفل کی پوری میگزین اُس وحشی کے ناپاک جسم پر خالی کردی وہ وحشی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور یہ ۔۔۔۔۔۔
ہاں بیٹا یہ کسی کی بہن کو اپنی بہن کہہ کر تختہ ٔ دار پر جھول گیا!
میں سچ کے حصار سے نکلنا بھی چاہوں تو نہیں نکل سکتا لیکن ایک بات سچی ہے اور اس سچ پر کسی بھی جھوٹ کی ملمع کاری نہیں کی جاسکتی کہ ہمارا بکا ہوا میڈیا مریم کے الفاظ منہ میں ڈال کر مورد الزام صرف اُس عوامی سیاسی جماعت کو ٹھہرا رہا ہے جس نے 8فروری کے الیکشن میں پنجاب میں ان کا تیا پانچہ کرڈالا ، طلبا اُن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ، وہ حقیقت پر مٹی ڈالنے کے خلاف شاہرات پر نکلے ہیں ، جن مجرموں نے یہ کام کرایا اُن کے خلاف ایک لفظ تک نہیں ،من پسند آئینی ترامیم میں شاہ محمود قریشی کی بہو،ریاض فتیانہ کے بیٹے کے اغوا ، ،بلوچستان کی خاتون سینیٹرنسیمہ احسان ،بلوچستان سے ہی گردوں کے مریض سینیٹر کی بیٹے سمیت اغوا کی واراداتیں کیا کسی ریاست میں پہلے کبھی ہوئیں؟ ایک دوست نے عرصہ پہلے کہا تھا کہ چاند پر قیامت گزر چکی ،زندہ ہم بھی نہیں ہیں ۔وہ پھر بھی راتوں کو روشن کیے ہوئے ہے ۔ہم نے اجالوں میں اندھیر مچا رکھا ہے۔ اُس نے اپنی سمت نہیں بدلی اور ہم اپنا چلن بھول گئے۔ وہ ماموں بن کر بہنوں کے آنگنوں میں ننھی منی کلیوں کو مہکا رہا ہے اور ہم باپ ہوکر بھی بہو ،بیٹیوں کو بے توقیر کر رہے ہیں ،دھبے ہیں ۔
اشرف المخلوقات جسے فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس منکر ہو گیا اور راندۂ درگاہ کردیا گیا۔ دنیا میں آج یہ ابلیس کو سجدہ کرتا پھرتا ہے۔
یہ کب ہوگا ؟
جب انسان انسان کا لہو نہ پیئے گا !
جب بے بسی کے آنسو موتی بن کر اُبھریں گے!
جب آہ عرش پر جائے گی تو نالوں کا جواب لائے گی!
جب انسانیت کی ناقدری پائوں تلے روندی نہ جائیگی!
جب بھوک کے عوض اقدار نہ بیچی جائیں گی !
دوستو !
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟