... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا اور کئی ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ملک کے ہندؤوں اور ہندو مذہب کے لیے خطرہ ہے۔ بعض رہماؤں نے سبھی کے لیے خاندانی منصوبہ بندی یا دو بچوں کا ضابطہ لازمی کرنے اور مسلمانوں کی جبری نس بندی تک کرنے کی بات کی ہے۔سخت گیر تنظیموں نے ‘ہم چار ہمارے 40 ‘کا جھوٹا پرچار کر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چھیڑ رکھی ہے۔بھارت مسلمان تیزی سے بدلتے ہوئے بھارت میں تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔بھارت میں اس وقت دائیں بازو کی سیاست زور پر ہے لیکن ملک کی نام نہاد سیاسی جماعتوں نے بھی مسلمانوں کو پسماندگی سے نکالنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔دائیں بازو کی جماعتیں تو اب اقتدار میں آئی ہیں۔ 50 برس تک تو نام نہاد سیکیولر جماعتوں کی حکومت رہی۔ سارے مسائل تو اسی وقت کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ملک کی کئی ریاستوں بالخصوص جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں نے ترقی کی ہے لیکن شمالی ریاستوں کے بیشتر مسلمان غربت اور افلاس کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام کہتے ہیں: ‘مسلمانوں کو آگے بڑھنے کے لیے تعلیم اور کاروبار پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔ چھوٹے کاروبار اور پیشے میں مسلمان پہلے ہی آگے آ رہے ہیں۔ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمان سیاسی طور پر بے سہارا ہونے کے احساس سے سے گزر رہے ہیں۔ آئین اور سیکیولرزم کا تحفظ کرنے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی یقین دہانیوں کے باوجود بی جے پی اور ہندو تنظیموں کے سخت گیر رہنما وقتاً فوقتاً مسلم مخالف اور نفرت انگیز بیانات دیتے رہے ہیں۔بھارت اس وقت سیاسی تغیر کے دور سے گزر رہا ہے اور بھارت کے 18 کروڑ مسلمان تیزی سے بدلتے ہوئے بھارت میں تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔
مودی نے انتخابات میں 400 نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن سادہ اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا۔ اپنی شکست کا بدلہ مودی سرکار بھارت کی مختلف ریاستوں میں تعینات بی جے پی کے وزراء کے ذریعے لے رہی ہے۔ معصوم عوام بالخصوص اقلیتوں اور نچلے طبقے کے افراد پر بی جے پی کے وزراء کا ظلم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ حال ہی میں اتر پردیش مودی سرکار کے انتہا پسند لیڈر آدتیہ ناتھ کی ظالمانہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اتر پردیش کی حالیہ صورتحال انتہائی کشیدہ ہو چکی ہے جس میں عوام کا معمول کے مطابق زندگی گزارنا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اتر پردیش کے انتہا پسند وزیر اعلیٰ نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں کی زندگی بھی اجیرن کر دی ہے۔مودی سرکار اور ا س کے وزراء کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ۔ بی جے پی نے مذہب میں بھی سیاست کو گھسیٹتے ہوئے بغض کی انتہا کر دی۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے رواں ہفتے ہندو یاتریوں کو کنور یاترا کی مذہبی رسومات ادا کرنے میں بھی شدید مشکلات سے دوچار کیا۔ بے جا پابندیوں کا نفاذ کرتے ہوئے کنور یاترا کے موقع پر آدیتہ ناتھ نے حکم جاری کیا کہ کنور یاترا کے راستے میں تمام دکاندار اپنی شناخت ظاہر کریں گے ورنہ سامان نہیں بیچ سکتے۔ کنور یاترا سے متعلق اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے احکامات سے عوام اور دیگر سیاسی جماعتوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
بھارت میں مسلمان رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے بھارتی پارلیمنٹ میں بجٹ پر بحث کے دوران مسلمانوں کے ساتھ حکومت کے رویے پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کررہی ہے۔ وزیرخرانہ نرملاسیتارمن کے بجٹ میں مسلمانوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ بجٹ تقریر میں وزیر خرانہ نے چارکمیونٹیز کا ذکر کیا۔ کیا اس ملک کے 17کروڑ مسلمانوں میں غریب، نوجوان، کسان یا خواتین نہیں ہیں۔ اس ملک میں مسلمانوں میں سب سے زیادہ غربت ہے اور مسلم خواتین کی محرومی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
حیدرآبادسے منتخب رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ 15سے 24سال تک کی عمر کے صرف 29فیصد مسلمانوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہے جبکہ درجہ فہرست ذاتوں میں یہ تناسب 44فیصد، ہندو دیگر پسماندہ طبقات میں 51فیصد اور اونچی ذات کے ہندوئوں میں 59فیصد ہے۔ اعلی تعلیم میں مسلمانوں کا اندراج صرف 5فیصد ہے۔ مسلمانوں کی معاشی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 58.4فیصد مسلمان خودروزگارکماتے ہیں۔ مستقل اجرت والے روزگار میں مسلم برادری کی نمائندگی کافی کم یعنی صرف 15فیصد ہے۔مسلم نوجوانوں کو نوکریاں یا تعلیمی مواقع نہیں مل رہے۔ اسد الدین اویسی نے وزارتِ اقلیتی امور کا بجٹ 5ہزار کروڑ روپے سے گھٹاکر 3ہزار کروڑ روپے کرنے کی مذمت کی۔ حکومت مسلمانوں کو اچھوت سمجھتی ہے۔ اس نے انہیں سیاسی نمائندگی اور ملک کی ترقی میں حصے سے محروم کررکھا ہے۔ سال 08۔2007سے اقلیتی سکالرشپس میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ حج کمیٹی کرپشن کا اڈہ بن گئی ہے۔ انہوں نے اس کی سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمان سیاسی طور پر بے چارگی کے احساس سے گزر رہے ہیں۔گجرات کے معروف دانشور اور سماجی کارکن جے ایس بندوق والا مسلمانوں کے حقوق کے لیے ایک طویل عرصے سے سرگرم رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ گجرات، مہاراشٹر، اور کئی دوسری ریاستوں میں آبادیاں مذہب کے نام پر سکڑ رہی ہیں اور نئے علاقوں، بستیوں اور بازاروں میں مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو دور رکھا جا رہا ہے۔مسلمانوں کی بستیاں گیٹو بنتی جا رہی ہیں جہاں نہ سکول ہیں، نہ اچھے کالج۔ بینک اچھی سڑکوں اور جدید سہولیات کی شدید کمی ہے۔ یہ آر ایس ایس کا پرانا منصوبہ ہے کہ دلتوں کو پوری طرح ہندو مذہب میں ضم کر لیا جائے اور ان کی جگہ مسلمانوں کو اچھوت بنا دیا جائے۔ایک عرصے تک سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا رہا اور جب برسوں بعد سارے کیس جھوٹے ثابت ہوتے ہیں یا جب انھیں فرضی پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا جاتا ہے تو میڈیا میں کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ سیاسی جماعتیں اور ملک کا سیاسی نظام دانستہ طور پر مسلمانوں کے ساتھ تفریق برت رہا ہے۔