... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
اقوام متحدہ کے زیراہتمام خوراک کا عالمی دن ہر سال 16 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں غذائی عدم تحفظ اور بھوک کی صورتحال پر توجہ دلانا ہے۔ یہ دن نہ صرف ہمیں اس مسئلے کی شدت کا احساس دلاتا ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ ہم کس طرح اس مسئلے کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔اس سال کا تھیم ہے ”بہتر زندگی اورمستقبل کے لئے خوراک کا تحفظ ”۔دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر مناسب غذائیت حاصل نہیں کرپاتے۔ یہ صورتحال خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں زیادہ نمایاں ہے، جہاں غربت، جنگ، اور قدرتی آفات کی وجہ سے خوراک کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر نو میں سے ایک شخص بھوک کا شکار ہے جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔خوراک کے عالمی دن کا مقصد عوامی آگاہی بڑھانا اور حکومتوں، تنظیموں اور افراد کو اس مسئلے کے حل کی جانب متوجہ کرنا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خوراک کا مسئلہ صرف پیداوار تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں تقسیم، رسائی اور استعمال بھی شامل ہیں۔ ہمیں اپنی خوراک کے ضیاع کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ہر سال دنیا میں 1.3 ارب ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے جو کہ ایک بے حد خطرناک صورتحال ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)کے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال دس میں سے ایک شخص آلودہ یعنی غیر معیاری کھانا کھانے کے باعث بیمار پڑجاتا ہے جبکہ اسی آلودہ کھانے کی وجہ سے سالانہ چار لاکھ بیس ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اس طرح سالانہ (33 )تینتیس ملین افراد صحت مند زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔چند روز قبل صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کی سربراہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے باغ سرداراں مرغی منڈی میں 29گاڑیوں میں لائی گئی 25ہزار کلو مرغیوں کی چیکنگ کی تو اس میں سے 2ہزار کلو مرغیاں کم وزن ،بیماراور لاغر پائی گئیں جنھیں نہ صرف تلف کردیا گیا بلکہ ایسی مرغیاں سپلائی کرنے والے گاڑی کے مالک کو 50ہزار جرمانہ بھی کیا گیا۔اب یہ تصور کریں کہ اگر بیمار اور لاغر مرغیوں کا گوشت تلف نہ کیا جاتا تو وہ کہاں جانا تھا ؟ ایسے ہی مضر صحت گوشت سے تیار کھا نے ،برگر،شوارمے اور پیزے بڑے شوق سے کھانے والے بے خبر اور معصوم افراد نہ جانے معدے اور دیگر خطرناک امراض کا شکار ہوسکتے تھے ۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق بیمار ،مردہ اور لاغر مرغیوں کی گوشت میں خطرناک قسم کے بیکٹیریا، وائرس اور کیمیکلز شامل ہوتے ہیں جن سے عام بیماری ڈائیریا (اسہال) سے لے کر کینسر تک کے خطرناک امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسہال کی بیماری سب سے زیادہ عام ہے جس کی زیادہ تربنیادی وجہ مضر صحت گوشت اور آلودہ کھانے ہیںجس کے نتیجے میں ہر سال 550 ملین افراد بیمار اور2 لاکھ 30 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا 40فیصد5 سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے،سالانہ ایک لاکھ پچیس ہزار کم عمر بچے آلودہ کھانے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
ایک عالمی رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں غیر محفوظ خوراک کے نتیجے میں پیداواری اور طبی اخراجات میں ہر سال 110 بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔بدقسمتی سے کھانے پینے کی ہر چیز میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ۔آئے روز اخبارات اورمیڈیا میں یہ خبریںسامنے آتی رہتی ہیں کہ مضر صحت خوراک سے بچوں اور بڑوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں حال ہی میں موٹر وے پر ایک بیکری سے ایکسپائر مضر صحت جوس پینے سے کار میں سوار ایک ہی خاندان کے چار افراد کی ہلاکتیں اس امر کی نشاندہی کررہی ہیں ملاوٹ اور مضر صحت خوراک کا گھناونا کاروبار کرنے والے سنگدل انسانی جانوں کے بدلے پیسہ کمانے میں ذرہ برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔افسوس منافع خور کتنے سنگدل ہیں جوانسانی جانیں لے کر بھی ملاوٹ کے نت نئے طریقے اپنانے میں مصروف رہتے ہیں،کبھی دودھ میں یوریا کھاد ملائی جارہی ہے تو کبھی مرچوں میں بھوسے،مکئی اور چوکر کی ملاوٹ کی جارہی ہے،کبھی مردہ جانوروں کے خون سے کیچ اپ تیار کی جارہی ہے تو کبھی مردہ مرغیوں،بکروں اور گائے کا گوشت پیچا جارہا ہے،کولڈڈرنکس میں مضر صحت کیمیکل شامل کئے جارہے ہیں،مکھن اور دودھ کے نام اور تصویریں استعمال کرکے اندرکچھ اورہی بیچا جارہا ہے،ملاوٹ شدہ آٹا،گھی،دالیں اورچینی بیچی جارہی ہیں حتیٰ کہ گلے سڑے پھل اورگندی سبزیاں بھی فروخت کی جارہی ہیں۔
پاکستان میں فوڈ سیکورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس کے تحت بلا جواز مہنگائی ذخیرہ اندوزی، یا ملاوٹ کرنے والے افراد کو 6ماہ قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ ہو سکتی ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس آرڈیننس کے اجراء کے باوجودملاوٹ شدہ اور غیر معیاری اشیائے خوردونوش کی فروخت پر قابو نہیں پایا جاسکا۔صارفین یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں کے دوران بند ہونے والے کاروبار کچھ عرصہ بعد پھرکھل جاتے ہیں ۔ خوراک کی حفاظت کے لیے ہمیں ایک مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے، پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ زراعت کی جدید تکنیکوں کو متعارف کرائے جبکہ عوام کو بھی صحت مند طرز زندگی اور مقامی مصنوعات کی حمایت کی ضرورت ہے۔ آج کے دن ہمیں یہ عہد کرنا ہوگاکہ ہم اپنی زندگی میں ان اقدار کو اپنائیں گے جو بھوک اور غذائی عدم تحفظ کے خاتمے کی راہ ہموار کریں گی۔ اگر ہم مل کر کام کریں تو ہم ایک ایسی دنیا تخلیق کر سکتے ہیں جہاں کسی کو بھی بھوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔