... loading ...
معصوم مرادآبادی
ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے سب کو حیران کردیا ہے ۔ انتخابات کا تجزیہ کرنے والے مختلف پہلوؤں سے ہریانہ میں کانگریس کی شکست کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ سب ہی کو یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ کامیابی سے اتنا قریب پہنچنے کے باوجود کانگریس وہاں چناؤ کیوں ہارگئی؟سچ پوچھئے تو یہ سوال بی جے پی کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے ، جو ہریانہ میں اپنی ممکنہ شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگائے ہوئے تھے ۔تمام اندازوں اور پیشین گوئیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ہریانہ میں بی جے پی نے لگاتار تیسری بار جیت درج کرائی ہے ۔بی جے پی کی یہ غیر متوقع کامیابی کانگریس لیڈروں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہے یا پھر وہاں کے نتیجے بدلنے کے لیے کچھ کاریگری کی گئی ہے ؟ یہ سمجھنا مشکل ہے ۔ بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہریانہ میں وزیراعلیٰ کی کرسی کے لیے مقامی کانگریسی لیڈروں میں جو کھینچ تان چل رہی تھی، اسی کے نتیجے میں پارٹی نے جیتی ہوئی بازی ہاری ہے ۔کانگریس نے یہاں دس سال بعد اقتدار حاصل کرنے کا جو خواب دیکھا تھا، اسے وزیراعلیٰ بننے کی شدید خواہش سے مجبور کانگریسی لیڈروں ہی نے چکنا چور کردیا۔ کانگریس نے اس شکست کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کا الزام ای وی یم کے سرڈالا ہے ، لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ سابق وزیراعلی بھوپندر سنگھ ہڈا، کماری شیلجہ اور سورجے والا کی آپسی لڑائی نے ہریانہ میں کانگریس کے جہاز کو ڈبویا ہے ۔
ہریانہ کے نتائج کو قطعی غیر متوقع اور عوامی جذبات کے خلاف قراردیتے ہوئے کانگریس جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے کہا ہے کہاس مینڈیٹ کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صوبے میں ‘تنتر’کی جیت اور ‘لوک تنتر’کی ہار ہوئی ہے ۔ جے رام رمیش نے دعویٰ کیا ہے کہ تین چار اضلاع میں ای وی ایم کے تعلق سے شکایتیں ملی ہیں۔رمیش نے یہ بھی کہا کہ ہم سے جیت چھینی گئی ہے اور جو نتیجے آئے ہیں وہ زمینی حقیقت کے برخلاف ہیں۔ کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے کہا ہے کہ’حصار،مہندر گڑھ اور پانی پت ضلعوں سے مسلسل شکایتیں موصول ہوئی ہیں کہ یہاں ای وی ایم میں گڑبڑتھی۔ ان جگہوں پر کانگریس کو ہرانے والے نتیجے آئے ہیں۔اپنے مطالبات کو لے کر کانگریس کا ایک اعلیٰ سطحی وفد الیکشن کمیشن سے بھی رجوع ہوچکا ہے ۔مگر اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ وہ اس پر کوئی کارروائی کرے گا۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کانگریس اسمبلی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجائے گی یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کو حاصل ہونے والے ووٹوں کا فیصد برابر ہے ۔ یعنی دونوں ہی نے تقریباً39/فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں، لیکن گیارہ سیٹوں کے فرق سے بی جے پی نے بازی مارلی ہے ۔ گزشتہ عام انتخابات میں اکثریت سے محروم رہنے والی بی جے پی کو ہریانہ میں اپنے بل بوطے پر اقتدار حاصل کرکے راحت ضرور ملی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے پارٹی دفتر پہنچ کر اپنے کارکنان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کا اثر عنقریب ہونے والے مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات پر بھی پڑے گا۔وہاں بھی بی جے پی جیت کے خواب دیکھنے لگی ہے ۔حالانکہ مہاراشٹر میں وہ ایک مخلوط حکومت کا حصہ ہے ۔ تمام پارٹیوں میں نقب لگاکر بی جے پی نے وہاں اقتدار حاصل کرنے کا جو کھیل کھیلا تھا، اس کے معکوس نتائج آنے والے اسمبلی انتخابات میں برآمد ہوناضروری ہیں۔البتہ جموں وکشمیر میں انڈیا اتحاد کی کامیابی نے اپوزیشن کے آنسو ضرورپونچھے ہیں۔ یہاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے مل کر الیکشن لڑا تھا۔حالانکہ نیشنل کانفرنس نے اپنے دم پر اکثریت حاصل کرلی ہے ، لیکن وہ کانگریس کو بھی حکومت میں شامل کرنے کی خواہش مند ہے ۔ ریاست میں کانگریس کو چھ سیٹیں ملی ہیں، البتہ جموں ریجن میں اس کی خراب کارکردگی بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔عام آدمی پارٹی نے بھی یہاں اپنا کھاتہ کھولا ہے اور اس کا ایک امیدوار کامیاب ہوا ہے ۔البتہ ہریانہ میں عام آدمی پارٹی کا کھاتہ نہیں کھل سکا ہے ۔
ہریانہ میں اسمبلی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ہرطرف سے خبریں آرہی تھیں کہ یہاں کانگریس شاندار کامیابی حاصل کرے گی۔ تمام اکزٹ پول نے بھی یہی پیشین گوئی کی تھی کہ کانگریس ہریانہ میں بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آرہی ہے ۔پیشین گوئی کرنے والوں میں گودی میڈیا کے چینل بھی شامل تھے ۔8/اکتوبر کی صبح جب ای وی ایم کھلنا شروع ہوئیں تو رجحانوں میں کانگریس کی سبقت صاف نظر آئی، لیکن گیارہ بجے سے پہلے ہی پانسہ پلٹ گیا اور بی جے پی کانگریس سے آگے نکل گئی۔ہریانہ کی 90/ اسمبلی سیٹوں میں سے 48پر بی جے پی نے کامیابی کاپرچم لہرایا جبکہ کانگریس کو 37/سیٹیں ملیں۔ان میں کم ازکم 16/اسمبلی نشستیں ایسی ہیں جہاں باغی اور آزادامیدواروں نے کانگریس کے امیدواروں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔انھوں نے کئی نشستوں پر بیس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔ ان میں کئی امیدوار وہ تھے جو پارٹی کی وفاداری کے انعام میں ٹکٹ چاہتے تھے ، لیکن بھوپندر سنگھ ہڈا نے ان کی بجائے اپنے وفا داروں کو میدان میں اتارا۔ نتیجے کے طورپر انھوں نے پارٹی سے بغاوت کی اور آزاد امیدواروں کے طورپر پرچہ داخل کرکے کانگریس کی کامیابی کے امکانات کو ختم کردیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ ملک کے مختلف صوبوں میں گانگریس کے صوبائی لیڈروں کے د رمیان جاری رسہ کشی ہی اس وقت کانگریس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی پارٹی شکست کے وہی اسباب تھے جو ہریانہ میں نظر آتے ہیں۔ہریانہ میں انتخابی مہم کے دوران یہ خبریں آرہی تھیں کہ پارٹی کی سینئر لیڈر کماری شیلجہ اور سابق وزیراعلیٰ بھوپندرسنگھ ہڈا کے درمیان زبردست ٹکراؤ چل رہا ہے ۔ بعض اخبارات نے تو یہاں تک لکھ دیا تھا کہ کماری شیلجہ بی جے پی میں شامل ہوسکتی ہیں۔ ہڈا اور شیلجہ کی اس جنگ کو ختم کرانے کے لیے راہل گاندھی ہریانہ گئے اور انھوں نے دونوں لیڈروں کو ایک اسٹیج پر جمع کرکے ان کے ہاتھ بھی ملوادئیے ۔ مگر یہ سب کچھ اس مصرعہ کے مصداق تھا دل ملے نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے ۔ہاتھ ملانے کے باوجود دلوں کی کدورت باقی رہی۔ کانگریس کا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ اس کی صوبائی یونٹوں میں لیڈرشپ کے درمیان زبردست ٹکراؤ ہے ۔ سینئر لیڈران نوجوان قیادت کو موقع نہیں دینا چاہتے ۔ انھیں کرسی کا لالچ اتنا ہے کہ وہ کسی بھی طوراس سے دستبردار ہونا نہیں چاہتے ۔ اس کا ایک نظارہ آپ نے راجستھان اور مدھیہ پردیش کے گزشتہ اسمبلی چناؤ کے دوران دیکھا ہوگا۔ وہاں اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کے ٹکراؤ نے پارٹی کی نیّا ڈبودی تھی۔ اشوک گہلوت اس حدتک آگے بڑھ گئے تھے کہ پارٹی ٹوٹنے کے کگار پر پہنچ گئی تھی۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ نے پارٹی کو پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی سمجھ کر ہائی کمان کو بے معنی کردیا تھا۔
حالیہ نتائج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کانگریس نے ہریانہ میں جتنے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دئیے تھے ، وہ سب کے سب چناؤ جیت گئے ہیں۔ کامیاب ہونے والے پانچ امیدواروں میں اکرم خاں (جگادھری) آفتاب احمد (نوح)مامن خان (فیروزپور) محمد الیاس (پنہانہ) اور محمداسرائیل (ہتھین)شامل ہیں۔اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں نے عام انتخابات کی طرح اب بھی کانگریس پر اپنا اعتماد بحال رکھا ہے ۔ حالانکہ عام انتخابات میں کانگریس نے مسلمانوں سے جو دوری اختیار کی تھی وہ ابھی تک برقرار ہے ۔ہریانہ میں بی جے پی نے جن دومسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا، ان کی ضمانت ضبط ہوگئی ہے ۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر بی جے پی نے ‘مسلم کارڈ’ کھیلتے ہوئے جن 25/امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا، وہ سبھی الیکشن ہارگئے ہیں۔خاص طورپر وادی میں ان سب کی ضمانت ضبط ہوگئی ہے ۔بہرحال کانگریس کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ اپنا گھر درست کرے اور ان لیڈروں کو باہر کا راستہ دکھائے جو خود کو پارٹی سے بڑا سمجھنے لگے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔