وجود

... loading ...

وجود

اسرائیل:امریکاکاکرائے کاسپاہی

پیر 14 اکتوبر 2024 اسرائیل:امریکاکاکرائے کاسپاہی

سمیع اللہ ملک

یہ سوچ بہت عام ہے کہ یہودی یااسرائیلی اس قدرچالاک اورذہین قوم ہے کہ امریکاجواس وقت دنیاکی واحدسپرپاورہے، بظاہر اسرائیل کی مرضی کے کچھ بھی نہیں کرتایاکرسکتا۔ پوری دنیاکی معیشت پریہودیوں کاقبضہ ہے۔میڈیا پرکوئی موضوع یا خبر ان کی مرضی کے بغیر چل نہیں سکتی۔امریکامیں کوئی شخص کانگریس کاممبریاامریکاکاصدریہودی لابی کے پیسے اورسیاسی مددکے بغیرنہیں بن سکتا،یہ تاثرات اس وقت اورمضبوط ہوجاتے ہیں جب امریکامشرق وسطی میں اسرائیل کی حمایت میں نہ توکسی مخالفت کی پرواکرتاہے اورنہ ہی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کوتوڑنے میں شرم محسوس کرتاہے،اس کے علاوہ فری میسنزکی کہانیاں،اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں،فوج اورکمانڈوزکی طاقت کے قصے ایساتاثرپیداکردیتے ہیں کہ یہ یقین ہونے لگتاہے جیسے دنیاکی اصل طاقت توایک چھو ٹی سی قوم یہودہے جس نے امریکایورپ اوردنیاکی تمام بڑی قوموں کوقابوکررکھاہے۔دنیامیں جوبھی فسادہوتاہے اس کے پیچھے یہودکاہاتھ ہوتاہے اورمسلمانوں پرہونے والے تمام مظالم کے ذمہ داریہودی ہیں۔اس تاثرکے نتیجے میں مسلمانوں میں یہ خیال جڑپکڑلیتاہے کہ اصل برائی امریکایااس کااستعماری نظام سرمایہ داریت نہیں بلکہ اسرائیل یایہودہیں۔اگران کی طاقت کاخاتمہ کردیاجائے تومسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ دوبارہ بحال کرلیں گے۔
مسلمان پراللہ نے یہ لازم کیاہے کہ وہ دین اسلام کوتمام ادیان پرغالب کریں،اس عمل کی انجام دہی کیلئے ضروری ہے کہ ہم دنیاکی سیاست کوسمجھیں،طاقت کے مراکزاورمسائل کی جڑکی صحیح نشاندہی کریں۔اگرہم نے اپنے دشمن کاصحیح تعین نہ کیاتوہماری توانائی غلط ہد ف پر ضائع ہوجائے گی اورحقیقی دشمن مزیدطاقتورہوجائے گا۔یہ بات ہرشخص جانتاہے کہ سپر پاوراس ملک کو کہاجاتاہے جس کی مرضی کے مطابق دنیاکے تمام یابیشتر معاملات چلتے ہوں۔اس وقت امریکاکودنیاکی واحد سپرپاوراس لیے کہا جاتاہے کہ دنیاکے کسی بھی معاملے میں اس کی مرضی کوچیلنج کرنے والی کوئی دوسری طاقت موجودنہیں ہے۔امریکاکی معیشت دنیاکی معیشت کا17فیصدہے۔امریکاکادفاعی بجٹ روس، چین،برطانیہ اورفرانس کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ ہوتاہے۔یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ کس طرح اسرائیل جوکہ سپرپاورنہیں اپنا تحفظ امریکی فوجی اورسیاسی مددکے بغیرکرنہیں سکتا،جس کی معیشت ہر سال امریکی امدادکی محتاج ہووہ کس طرح امریکاکواپنے اشاروں پر چلنے پرمجبورکرسکتاہے؟یاپھریہ کہ اسرائیل کی طاقت کے تمام قصے بے بنیادہیں۔
عموعی طورپریہ سمجھاجاتاہے کہ امریکاکی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی اسرائیل کی مرضی کے تابع ہوتی ہے۔امریکا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کومضبوط کرنے یااپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے فوجی بغاوتوں اورآمرحکمرانوں کی حمایت کرتاہے اور کبھی جمہوری قوتوں کی،کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگاتاہے توکسی ملک کوامداددیتاہے،کبھی اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین نافذ کروانے کیلئے سیاسی اورفوجی اثرورسوخ استعمال کرتا ہے توکبھی اقوام متحدہ اوربین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتاہے،اب امریکاکے ان اعمال کایہ جواز پیش کرناکہ ایسا وہ صرف اورصرف اسرائیل کے دباؤکی وجہ سے کرتاہے،غلط ہوگا۔ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکاافریقی ممالک لاطینی امریکا اور مشرق بعید میں بھی اپنے مفادا ت کے حصول کیلئے ایسے ہی تمام اقدامات اٹھاتا ہے جیساکہ وہ مشرق وسطیٰ اورجنوبی ایشیامیں کرتا ہے۔ اگر امریکا مشرق وسطیٰ کے علاوہ دنیاکے دوسرے حصوں میں بھی ایسے ہی اقدامات کرتاہے جہاں کوئی اسرائیلی مفادنہیں تواس کامطلب یہ ہے کہ امریکااتنی طاقت رکھتاہے کہ وہ اپنی من مانی مرضی سے پالیسیاں بناتاہے چاہے جن سے دوسرے اتفاق نہ کرتے ہوں۔اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکاکئی بین الا قوامی امورمیں جن کااسرا ئیل کی سلامتی یامفادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، پوری دنیاکی رائے کی مخالفت کرتا ہے، چاہے اس وجہ سے اس کوپوری دنیامیں شدیدتنقیدکانشانہ ہی کیوں نہ بنناپڑے ۔ پوری دنیانے زیرزمین بارودی سرنگوں کے خاتمے بین الا قوامی عدالت برائے جنگی جرائم کے قیام اوردنیامیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے کیلئے ان پردستخط کیے لیکن امریکانے ان معاہدوں کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا۔اس تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ امریکامشرق وسطیٰ میں بھی ایسے اقدامات اس لیے کرتاہے کیونکہ بنیادی طورپریہ اس کے مفادمیں ہوتے ہیں نہ کہ اس وجہ سے کہ اس پراسرائیل کاکوئی دباؤہوتاہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکامیں موجود تمام یہودی اسرائیل کی حمایت میں ایک ہوکرامریکاپردباؤڈالتے ہیں۔یہ تصورمعلومات کی کمی کا نتیجہ ہے جہاں امریکامیں یہودیوں کی ایک بڑی تنظیم امریکااسرائیل پبلک افیئرزکمیٹی اوراس سے منسلک درجنوں ایسی یہودی تنظیمیں ہیں ، جو امریکی کانگریس پراسرائیل کے حق میں پالیسیاں بنانے کیلئے دباؤڈالتی ہیں جو بظاہر اسرائیل کے وجودکے خلاف تونہیں ہیں لیکن اسرائیل کی یہودی آباد کاروں کے حوالے سے پالیسی،نئے علاقوں پرقبضہ کرنے،دیوار کھڑی کرنے اورامریکاکی اسرائیل کی ہرحال میں حمایت کی شدیدمخالفت بھی کرتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کے اراکین کی بہت بڑی اکثریت کواپنے حلقوں سے جیتنے کیلئے نہ تویہودی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اورنہ ہی ان کے پیسوں کی۔ایسے تمام اراکین کانگریس جوکہ اسرائیلی پالیسیوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں ان کاتعلق ان علاقوں سے ہوتاہے جوان کے محفوظ ترین حلقے ہوتے ہیں اوروہ وہاں سے کئی دہائیوں سے جیتتے آرہے ہوتے ہیں ۔مثلاامریکی اسپیکرکانگریس نینسی پلوسی جوکہ اسرائیل کی کھل کرحمایت کرتی تھی،ہر دفعہ80فیصدسے زائد ووٹ لیکر منتخب ہوجاتی تھیں۔
یہ کہناکہ یہودی لابی بہت مالدارہے اورپیسے استعمال کرکے امریکی اراکین کانگریس پردباؤڈالتے ہیں، بالکل غلط مفروضہ ہے۔ پیسوں کے لحاظ سے سب سے طاقتور لابی امریکامیں دفاعی یااسلحہ بنانے والے اداروں،تیل کی کمپنیوں اورادویات بنانے والے اداروں کی ہے۔ صرف” اے آئی پی اے سی ”اور”لاک ہیڈمارٹن ”اپنے اداروں کی لابنگ پر”نارتھ گرومین اورجنرل الیکٹرک بوئنگ” کے مقابلے میں بالترتیب سات اور پانچ گنازیادہ خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح کی لابنگ کاخرچہ اوردوسرے ایسے کئی اداروں سے بہت کم ہے جودفاعی صنعت سے منسلک ہیں۔امریکامیں یہودیوں کی آبادی5فیصد سے بھی کم ہے ۔اس میں سے بھی جب ایک معقول تعداداسرائیل کی ہر حال میں حمایت کی مخالفت کرتی ہو۔یہودی ووٹ امریکا کے99فیصدسے زیادہ حلقوں میں کوئی اہمیت نہ رکھتے ہوں،دولت کی بنیادپر یہودیوں سے زیادہ مضبوط لابیزموجودہوں توہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ دویاتین فیصدیہودی امریکاانتظامیہ پرکتنازورڈال سکتے ہیں؟ ان تمام حقائق کے باوجوداگرہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکااسرائیل کی مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتاتو میں یہاں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ یہ بھی خیال ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔کسی بھی امریکی صدرنے جب یہ دیکھاکہ اسرائیل لابی کی طرف سے جس پالیسی کواپنانے کیلئے دباؤڈالاجارہاہے وہ امریکی مفاد میں نہیں توامریکی صدرنے ہمیشہ اسرائیل کومجبور کردیاکہ وہ امریکی پالیسی کو اختیار کرے۔ 1956 میں جب اسرائیل برطانیہ اور فرانس نے نہرسوئزپرقبضہ کرنے کیلئے جنگ کاآغازکیاتواس وقت کیامریکی صدرآئزن ہاورنے اس جنگ پر شدیدناراضی کااظہار کیااوراسرائیل کودھمکی دی کہ اگراس نے مصری علاقوں سے قبضہ ختم نہ کیاتوامریکامیں اسرائیلی بونڈزاورنجی طور پر اسرائیل بھجوائی جانے والی،رقوم پرٹیکس کی چھوٹ ختم کردی جائے گی۔امریکی صدرآئزن ہاورنے اسرائیل کویہ دھمکی اس وقت دی تھی جب صرف چندہفتوں بعدامریکامیں صدارتی انتخابات ہونے جارہے تھے ۔ امریکی صدرآئرن ہاورکی اس دھمکی کے نتیجے میں اسرائیل نے چند مہینوں میں تمام مصری علاقے خالی کردیے۔اسی طرح جب1978میں جب اسرائیل نے لبنان پرحملہ کیااوردریائے لیتانی تک آ گیا توامریکی صدرجمی کارٹرنے اسرائیل کوامداد بندکرنے کی دھمکی دیکرمجبورکردیاکہ وہ لبنان کی سرحدمیں چند کلومیٹرتک محدودرہے۔اس کے بعد اگلے امریکی صدررونالڈ ریگن نے1981میں”اے آئی پی اے سی”کے بھرپوردباؤکومستردکرتے ہوئے فوکس طیارے سعودی عرب کو بیچے۔اس کے 10سال بعدبش سینئرنے ”اے آئی پی ایس ”کے بھرپوردباؤکاکامیابی سے مقابلہ کیااوراسرائیل کی ناک رگڑتے ہوئے 10/ارب کاقرضہ جاری نہیں کیاجب تک مشرقِ وسطیٰ میں امریکی امن منصوبے کی راہ میں رکاوت”یزٹحاک شمیر”کوشکست نہیں ہو گئی کیونکہ یہ امریکی منصوبے میں رکاوٹ تھا۔
2004میں بش جونیئرنے اسرائیل کونہ صرف چین سے اس معاہدے کوتوڑنے پرمجبورکردیاجس کے تحت اسرائیل نے طیاروں کو جدید بنایا تھا بلکہ اسرائیلی وزارت دفاع کے ”ڈائریکٹرجنرل آموس یارون ”کوبھی استعفیٰ دیناپڑا۔اسی طرح اسرائیل پچھلے کئی سالوں سے امریکا کو ایران پر حملے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہاہے لیکن نہ صرف یہ کہ امریکا اس کی اس خواہش کوپورا نہیں کررہابلکہ امریکانے اسرائیل کو بھی سختی سے ایران پرکسی بھی قسم کے حملے سے روک دیاہے۔ ان تمام حقائق کے باوجودآخرامریکاکیوں اسرائیل کی اس قدرحمایت کرتا ہے۔سب سے پہلے تواس بات کوذہن نشین کرلیناچاہیے کہ امریکاایک نظریاتی ریاست اوردنیاکی واحد سپرپاورہے۔امریکا جوبھی فیصلے کرتا ہے اپنی ضرورت اورمفادات کو سامنے رکھ کر کرتاہے۔مشرق وسطیٰ کاعلاقہ کئی اعتبارسے اہمیت رکھتاہے۔دنیاکے تمام تجارتی بحری قافلے اس کے بحری علاقوں سے گزرتے ہیں،دنیاکے66فیصدسے زائدتیل وگیس کے ذخائراس علاقے میں موجودہیں اوران تما م باتوں سے بڑھ کریہ علاقے مسلم اکثریتی آبادی رکھتے ہیں۔مشرق وسطی کی اہمیت کو واضح کر نے کیلئے سابق برطانوی وزیر اعظم ہنری کیمپ بل (بینرمین) کاایک ہی تبصرہ کافی ہے:
”یہاں پروہ لوگ(مسلمان )رہتے ہیں جواس زبردست علاقے اوراس زمین میں موجود ذخائرکوکنٹرول کرتے ہیں۔ان کی زمین انسانی تہذیب اورمذاہب کاگہوراہ ہے،ان لوگوں کاعقیدہ زبان، تاریخ اورجذبات ایک سے ہیں۔کوئی قدرتی رکاوٹ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے جدانہیں کرسکتی اوراگرکبھی جداہوبھی جائیں تویہ دوبارہ ایک مملکت میں ضم ہوجائیں گے۔پھریہ دنیاکی قسمت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اوریورپ کوباقی دنیاسے کاٹ دیں گے۔ان وجوہات کوسنجیدگی سے لیاجائے توضروری ہے کہ ایک بیرونی اکائی کو اس قوم کے دل میں پیوست کردیاجائے تاکہ اس قوم کی صلاحیتوں کوکبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں میں ضائع کر دیاجائے۔یہ بیرونی اکائی مغرب کیلئے ایک ایسے پلیٹ فارم کاکام بھی کرے گی جہاں سے وہ اپنے خفیہ منصوبوں کوانجا م دے سکے گا”۔
یہ ہیں وہ بنیا دی وجوہات جن کی بناپرپہلی جنگ عظیم کے بعداس وقت کی سپرپاوربرطانیہ نے مشرق وسطیٰ کے علاقے میں یہودی مملکت کی کوششوں کاآغازکیااورپھردوسری جنگ عظیم کے بعدجب امریکاسپرپاوربن گیاتواس کے مفادکاتقاضہ بھی یہی تھا کہ اسرائیل کی ریاست قائم کی جائے اوراس کومضبوط بنایاجائے۔اسرائیلی ریاست کے ذریعے اس علاقے کو مسلسل جنگوں میں مبتلارکھاجاتاہے جس سے ایک طرف امریکی اسلحے کی فیکڑیاں چلتی رہتی ہیں تودوسری طرف ان ممالک کی کمزوری کے سبب امریکاان ممالک میں اپنے اثرورسوخ کوبڑھاتااوربرقراررکھتاہے۔
دنیاکی واحدسپرپاورامریکاہے جوسرمایہ داریت کے نظریے کاعلم بردارہے۔مسلمانوں اوراسلام کاحقیقی دشمن یہودی یا اسرئیلی ریاست نہیں بلکہ امریکااورسرمایہ داریت کانظام ہے، اسرائیل تومحض امریکی مفادات کوپوراکرنے والاایک کھلا ڑی ہے۔اس کھلاڑی کی یہ جرأت اورطاقت نہیں ہوسکتی کہ وہ وقت کی واحدطاقت کواپنے مفادات کے مطابق چلاسکے۔ اسرائیل کی اس حقیقت کوایک اسرائیل استاداورامن کیلئے کام کرنے والے کارکن نے اس طرح سے بیان کیاہے:اسرائیل اپنے قبضوں کواس لیے برقراررکھ پاتاہے کیونکہ وہ مغرب خصوصاًامریکاکے استعماری مفادات کوپوراکرنے کیلئے تیاررہتاہے اورحقیقت میں اب اسرائیل امریکاکا ایک آزمودہ سپاہی بن چکاہے۔سابق امریکی وزیرخارجہ الیگزینڈرہیگ نے اسرائیل کے متعلق بڑااہم بیان دیاتھا:اسرائیل امریکاکا واحدسب سے بڑابحری وہوائی بیڑہ ہے جوڈوب نہیں سکتا۔
تاریخی اعتبارسے یہوداپنی سازشوں،مال واسباب اورسیاسی اثرورسوخ کے باوجودکبھی بھی اپنے سیاسی اہداف بغیرکسی بیرونی طاقت کی مدد کے بغیرحاصل نہیں کرسکے۔پچھلے چودہ سوسال میں یہودعباسی خلافت،عثمانی خلافت،اسپین کی اموی حکومت، یورپ اورامریکامیں معاشی لحاظ سے ہمیشہ خوش حال رہے ہیں لیکن کبھی بھی کسی علاقے میں یہودکوئی قابل ذکرسیاسی مقام نہیں بناسکے۔ریاست مدینہ میں بنو قریظہ،بنوناصر،بنوقینقاع اورخیبرکے یہوداپنی معاشی سیاسی اور فوجی قوت کے باوجودکبھی بھی مدینہ کی ریاست کوبراہ راست چیلنج نہیں کر سکے بلکہ ہمیشہ قریش مکہ کی مددکاانتظارکرتے تھے اورآخرمیں اپنی سازشوں اوروعدہ خلافیوں کی بناپران کوبے دخل ہوناپڑا۔
یہودیورپ میں ہمیشہ دوسرے درجہ کے شہری رہے اورجب کسی حکمران نے ان پرظلم وستم کرناچاہاتوان کی معاشی طاقت کبھی کام نہ آئی۔ جب عثمانی خلافت اپنے کمزورترین دور سے گزررہی تھی تویہودیوں نے خلیفہ عبدالحمید دوئم کواس بات کی پیش کش کی کہ اگرانہیں فلسطین کی زمین دے دی جائے توخلافت عثمانہ کے تمام قرض وہ اداکردیں گے لیکن اپنی معاشی قوت اورخلافت کی کمزوری کے باوجودیہوداپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔وہ قوم جوپچھلے ڈھائی ہزارسال سے اپنی تمام ترسازشی ذہنیت اورمال واسباب کے باوجود دربدر تھی، بالآخر برطانوی وزیراعظم ہنری کیمپ بل کی وفات کے چالیس سال بعداس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے برطانیہ عربوں کے سینے میں خنجر گھونپ کرفلسطین میں اسرائیل مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔خطے میں اسرائیل کاقیام اس وجہ سے ضروری تھاکہ مسلمانوں کوہمیشہ کیلئے منقسم رکھنے اورخطے میں اپنے مفادات کے مستقل حصول کیلئے یہ ضروری ہے کہ یہودکوایک ریاست کی شکل میں طاقت دی جائے۔اللہ فرماتے ہیں۔
”یہ تمہاراکچھ بگاڑنہیں سکتے،زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستاسکتیہیں۔اگریہ تم سے لڑیں گے تومقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے ان کومددنہ ملے گی۔ یہ جہاں بھی پائے گئے ان پرذلت کی مارہی پڑی،کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تویہ اوربات ہے۔یہ اللہ کے غضب میں گھرچکے ہیں،ان پرمحتاجی ومغلوبی مسلط کر دی گئی ہے،اوریہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفرکرتے رہے اورانہوں نے پیغمبروں کوناحق قتل کیا۔یہ ان کی نافرمانیوں اورزیادتیوں کاانجام ہے۔ (سورہ آل عمران 111۔(112
اللہ نے قوم یہودپرہمیشہ ہمیشہ کی ذلت مسلط کردی ہے۔یہودسیاسی،معاشی اورفوجی لحاظ سے کبھی بھی مسلمانوں کے ہم پلہ نہیں رہے، آج اگریہودمسلمانوں پرغالب ہیں توصرف اپنے استعماری آقاامریکاکی قوت کی وجہ سے۔ہم مسلمانوں کویہ سمجھناچاہیے کہ امریکادانستہ اس نظریے کوفروغ دیتاہے کہ یہودی لابی اس قدرطاقتورہے کہ امریکاجیسی طاقت بھی اس کے آگے مجبورہوجاتی ہے،اس بات کوفروغ دینے سے امریکادوفائدے حاصل کرتاہے۔
1۔وہ مسلمانوں کی امریکاسے نفرت کارخ یہودکی طرف موڑدیتاہے۔
2۔مسلمان اسرائیل کواپنااصل دشمن سمجھ کرصرف اسرائیلی قوت کوختم کرنے کی کوششو ں میں لگ جا تے ہیں،اس طرح نہ تو امریکاختم ہوتاہے اورنہ ہی اسرائیل۔
امریکاغدارمسلم حکم رانوں کے ذریعے اس بات کوممکن بناتاہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں مسلمانوں کی فوجی قوت منتشر رہے اورپھریہ مسلم افواج آپس میں بھی قومیت اوروطنیت کی کفریہ بنیادوں پر لڑتی رہیں،مسلمانوں کوجان لیناچاہیے کہ جب تک وہ اپنی گردنوں پرمسلط غدار امریکی ایجنٹ حکمرانوں سے نجات حاصل نہیں کرتے امریکااوراس کے سرمایہ داری نظام سے چھٹکارا نہیں پاسکتے۔یہاںیہ بتانابھی بہت ضروری ہے کہ یہاں امریکااوراسرائیل حکومتوں کی طرف اشارہ ہے۔جس طرح اسلامی حکومتیں مسلم عوام کی خواہشات کی علمبردارنہیں بلکہ اسی طرح مغرب اورامریکاکی حکومتیں بھی یہاں کے عوام کی مکمل خواہشات کی آئینہ دار نہیں۔اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ جب امریکا،برطانیہ اوران کے دیگراتحادیوں نے عراق پرحملہ کرنے کا اعلان کیا تو یورپ کی تاریخ کاسب سے بڑا ملین افراد کامظاہرہ برطانیہ میں ہواجہاں ہر مکتبہ فکرکے افرادنے اس حملے کی بھرپور مخالفت کی اورآج بھی آئے دن برطانیہ،یورپ اور امریکا میںہزاروں افرادسڑکوں پر بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام روکنے کیلئے سراپااحتجاج ہیں لیکن یہاں بھی سب سے بڑی رکاوٹ اس سرمایہ داری نظام کا پیداکردہ جمہوری نظام ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ دنیامیں جاری اس ظلم وستم کے خلاف جوادراک پیدا ہو رہاہے،اس کو فوری طورپربہتر اورجاری جمہوری اندازمیں حاصل کرنے کیلئے یہاں کی تمام سیاسی جماعتوں میں عملًا شمولیت اختیارکی جائے اورسیاسی سفر میں قانون سازاداروں میں پہنچ کرحق وصداقت کیلئے قانون سازی میں اپناکرداراداکیاجائے۔یقیناایک دن ضرورآئے گا کہ جب مظلوم کو انصاف ملے گااوریہی افرادجوآج سڑک پردنیامیں ہونے والے اسرائیلی،امریکی جارحیت کے خلاف اپنااحتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں،وہ آئندہ انتخابات میں اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ہرامیدوارسے یہ وعدہ ضرور لیں گے کہ وہ پارلیمنٹ میں جاکرایسی قانون سازی کریں جن کی بنیادپرہرظالم کولگام ڈالی جاسکے۔کچھ بھی تونہیں رہے گا،کچھ بھی تونہیں،بس نام رہے گااللہ کا!


متعلقہ خبریں


مضامین
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟ وجود هفته 19 اکتوبر 2024
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟

قیامت کی چاپ:اسرائیل اورعالمی جنگ وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
قیامت کی چاپ:اسرائیل اورعالمی جنگ

جنرل(ر)جاوید ناصر اور تبلیغ دین وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
جنرل(ر)جاوید ناصر اور تبلیغ دین

اگرایساہواتو۔۔۔! وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
اگرایساہواتو۔۔۔!

مقبوضہ وادی میں صدر راج ، کشمیریوں کی شہادتیں وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
مقبوضہ وادی میں صدر راج ، کشمیریوں کی شہادتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر