... loading ...
ریاض احمدچودھری
گزشتہ سال جنوری میں قابض انتظامیہ نے تجاوزات ہٹانے کے نام پر ایک نام نہاد مہم کا آغاز کیاتھا جس کا مقصد تقریبا 22لاکھ 40ہزارکنال اراضی پر قبضہ کرنا تھا جس کا رقبہ ہانگ کانگ کے رقبے کے برابر ہے۔قابض انتظامیہ کے اس اقدا م سے مقامی لوگوںمیں اپنی سرزمین اور گھروں سے بے دخلی کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور وہ شدید خوف و دہشت میں مبتلا ہیں۔کشمیریوں کی اراضی اور املاک پرقبضے کو 2019کے بعد مودی حکومت کی طرف سے نافذ کئے گئے نئے قوانین کے تحت تحفظ فراہم کیاگیا ہے۔ان اقدامات کے تحت قابض انتظامیہ نے ایک ماہ کے عرصے میں کشمیریوں کی دس لاکھ کنال سے زائد راضی پر قبضہ کیا۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کے وسیع تر نسلی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو نشانہ بنانااورانہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو بگاڑناہے۔
فرانس میں قائم حقوق انسانی کی معروف تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضے کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ فیڈریشن نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کی گئی “آپ کی سرزمین ہماری ہے”کے عنون سے 56صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں2019کے بعدسے بھارتی حکومت کی طرف سے کی گئی سخت قانونی اور پالیسی ترامیم کی وجہ سے کشمیریوں کے انسانی حقو ق خصوصا اراضی کے مالکانہ حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے کشمیریوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے اراضی کے مالکانہ حقوق میں ترامیم سے بھارتی قابض حکام کو ہزاروں کشمیریوں کو جبری طورپر ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کااختیار مل گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ بھارت کی طرف سے 2019سے متعارف کرائے گئے نئے قوانین کے تحت اب کوئی بھی بھارتی شہری جموں و کشمیر میں مستقل رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ بھارتی شہریوں کو بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں زمین خریدنے، ملازمتوں کے حصول اور انتخابات میں ووٹ دینے کا حق بھی دیاگیا۔رپورٹ میں اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوںکا حوالہ دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ مودی حکومت نے اگست 2019 سے پہلے کے کشمیریوں کے مالکانہ حقوق میں تبدیلی کر کے نئے ظالمانہ قوانین اور پالیسیاںنافذ کی ہیں ، جن کی وجہ سے جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب اور کشمیریوں کے سیاسی ،سماجی اور معاشی حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ان قوانین کے ذریعے مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے خدشات بڑھ گئے ہیں اور کشمیری انہیں جموںوکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت پر ایک حملہ قراردے رہے ہیں۔رپورٹ میں مودی حکومت کی طر ف سے سرینگر میں “خصوصی سرمایہ کاری کوریڈور” کے قیام کی تجویز پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ شبہ ظاہر کیاگیا ہے کہ کوریڈو ر کے ذریعے پیدا ہونیوالی دس لاکھ نئی ملازمتوں پر غیر کشمیری ہندوئوںکو بھرتی کیاجاسکتا ہے۔ مستقل رہائش کے قوانین، اراضی کے مالکانہ قوانین، اور جموںوکشمیرتنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت لیز کے معاہدوں میں ترامیم کے علاوہ نئے ریزرویشن قوانین پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس نے بھارتی حکومت سے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ سمیت دیگر کالے قوانین کی منسوخی اورکشمیریوں کے جمہوری حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔اس رپورٹ کی ریسر چ رواں سال جنوری اور اگست کے درمیان کی گئی ، جس میں کشمیر کے ماہرین تعلیم، وکلا اور صحافیوں کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ میڈیا رپورٹس اور تاریخی دستاویزات کے حوالے بھی شامل کئے گئے ہیں۔
مودی حکومت نے کشمیریوں کی زمینوں پر کسی نہ کسی بہانے قبضہ جمانے اور ان پر بھارتی ہندوؤں کو بسانے کی اپنی مذموم مہم اگست 2019ء میں مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد تیز کر دی ہے جس کا واحد مقصد علاقے کے مسلم اکثریتی تشخص کو نقصان پہنچانا ہے۔مودی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں اپنے نوآبادیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ضلع بڈگام کے علاقے ا چھگام میں ”مہاراشٹر ہاؤس” کی تعمیر کیلئے 20 کنال اراضی مہاراشٹر حکومت کو فراہم کی ہے۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ سے ‘مہاراشٹرا بھون’ کی تعمیر کے لیے علاقے میں اراضی فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔اس اراضی پر77 کروڑ کی لاگت سے مہاراشٹر بھون تعمیر کیا جائے گا۔بھارتی حکومت پہلے ہی یہ اعتراف کر چکی ہے کہ مقبوضہ وادی کے تینوں خطوں، جموں، کشمیر اور لداخ میں فوج نے دس لاکھ چون ہزار سات سو اکیس کنال زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ آٹھ لاکھ پچپن ہزار چار سو سات کنال کے مجموعی رقبہ پر فوج، سی آر پی ایف، بی ایس ایف اور انڈو تبیتّن بارڈر پولیس یا آئی ٹی بی پی غیر قانونی طور قابض ہے۔ جبکہ ایک لاکھ ننانوے ہزار تین سو چودہ کنال کے حقوق حکومت نے مقامی قانون کی ر?و سے فوج اور دیگر ایجنسیوں کو منتقل کردیے ہیں۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن بڈگام نے مہاراشٹر حکومت کو زمین کی منتقلی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اراضی نئے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کے لیے تھی۔بارایسوسی ایشن نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر بڈگام نے مہاراشٹر حکومت کو اراضی کی منتقلی کی کارروائی کر کے ایک انتہائی منفی کردار ادا کیا کیونکہ ان کے اس اقدام سے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ بارایسوسی ایشن نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اراضی کی مہاراشٹر حکومت کو منتقلی کے اپنے فیصلے پر فوری نظر ثانی کرے اور اس پر ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔