وجود

... loading ...

وجود

خورشید ندیم کے بدلتے بیانیے : اصول یا شخصیت پرستی؟

اتوار 13 اکتوبر 2024 خورشید ندیم کے بدلتے بیانیے : اصول یا شخصیت پرستی؟

 

پاکستانی سیاست میں اصول اور نظریات کے ساتھ ساتھ فکری دیانت داری کا بھی فقدان نظر آتا ہے ، اور اس کی نمایاں مثال خورشید ندیم کے کالمز میں ملتی ہے ۔ ایک وقت تھا جب وہ احتجاج اور جمہوریت کے اصولوں کے حق میں اور غیر سیاسی عناصر کی سیاست میں مداخلت کے خلاف لکھتے تھے ، لیکن اب جب صورتحال مختلف ہے اور تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے ، تو انہی احتجاجات کو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ
قرار دیا جا رہا ہے ۔ ان کا قلم جس انداز سے بدلتا ہے ، وہ واضح طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے خیالات کا محور اصول نہیں بلکہ شخصیات ہیں۔جب نواز شریف اپوزیشن میں تھے ، تو ندیم صاحب جمہوریت اور احتجاج کے بڑے حامی تھے ۔ لیکن جب عمران خان اپوزیشن میں آئے ، تو وہی احتجاج ان کے نزدیک ملکی ترقی میں رکاوٹ بن گیا۔
خورشید ندیم کا 4 جنوری 2021 کا کالم ”کیا اصل مجرم سیاستدان ہیں”؟اُس وقت لکھاگیا جب نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن اپوزیشن میں تھیں۔ اس وقت ان کی تحریر میں جمہوریت کا اصولی بیانیہ واضح نظر آتا ہے ۔ وہ غیر سیاسی عناصر کی مداخلت کو سختی سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں
”ہر پند ‘ہر نصیحت کا مخاطب سیاست دان ہی کیوں؟ علاج میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے لیکن اگر تشخیص ہی میں اختلاف ہو تو علاج سرے سے ممکن نہیں رہتا۔ اہلِ دانش کو معاملہ یہ ہے کہ تشخیص کی طرف کوئی دھیان نہیں۔ سارا زور مریض پر ہے ۔ اس کو کوسا جا رہا ہے کہ احتیاط کیوں نہیں کرتا؟ گویا وائرس کا تو کوئی قصور نہیں، اصل مجرم مریض ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کیلئے سارا اصرار ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے پر ہو۔ ویکسین یا علاج کو سرے سے موضوع ہی نہ بنایا جائے ۔ کیا اس طرح کورونا ختم ہو سکتا ہے ؟اس طرح کورونا تو ختم نہیں ہو سکتا لیکن اس کا پورا اندیشہ ہے کہ انسان ختم ہو جائے” ۔
آگے لکھتے ہیں:
”اگر کسی جسم میں دل اپنا کام درست طور پر نہیں کر رہا تو اچھا معالج اس کا علاج کرے گا۔ اس کو صحت مند بنانے کے لیے ادویات تجویز کرے گا۔ وہ کبھی یہ نہیں کرے گا کہ دل کی رگوں کو کاٹ کر پھیپھڑوں سے جوڑ دے کہ آج کے بعد یہ کام بھی تم ہی سنبھالو۔ انسانی سماج کا معالج بھی یہی کرتا ہے ۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی نظام درست طور پر نہیں چل رہا تو اس کا علاج یہ ہے کہ اہلِ سیاست کی اصلاح کی جائے ۔ اس کا علاج یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی اور کو سیاسی امور سونپ دیے جائیں۔ اس پر سماجی ماہرین کا اجماع ہے” ۔
اسی کالم میں، وہ ایک اور اہم نکتہ اٹھاتے ہیں، جس میں وہ جعلی جمہوریت کو عدم استحکام کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں:
”انسانی سماج کو جو بڑے عوارض درپیش ہوتے ہیں’ ان میں ایک عدم استحکام ہے ۔ ان ماہرین نے یہ جانا کہ جن معاشروں میں اقتدار تک رسائی کا کوئی پُرامن راستہ موجود نہیں ہے ،ان میں ہمیشہ فساد برپا رہتا ہے ۔ جہاں طاقت کے زور پر اقتدار کا استحقاق ثابت ہوتا ہے، وہاں ہمیشہ قتل و غارت گری رہتی ہے ، لہٰذا اس کا علاج ہونا چاہیے کہ ایک معاشرے میں پُرامن انتقالِ اقتدار ممکن ہو سکے ۔ اس تشخیص کے بعد اس کا علاج جمہوریت کی صورت میں تجویز کیا گیا۔ یہ حق تلوار کے بجائے عوام کو دے دیا گیا کہ وہ جسے پسند کریں اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیں اور جسے چاہیں،تخت سے اتار دیں۔ عوام اپنے اس حق کا اظہار اپنے ووٹ سے کرتے ہیں۔ اس تشخیص اور اس علاج پر آج اجماع وجود میں آ چکا۔ اس سے اختلاف کرنے والے وہی ہیں جو جسمانی عوارض کو بھی کسی پھونک یا پھکی سے دور کرنا چاہتے ہیں؛
چنانچہ دیکھیے کہ جن معاشروں میں جمہوریت ہے ،وہاں استحکام ہے ۔ جہاں جمہوریت نہیں ہے یا جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہے ، جیسے برصغیر کے کچھ ممالک میں تو وہاں نتیجہ وہی ہے جو جعلی دوائی دینے کا ہو سکتا ہے ۔ گویا وہاں عدم استحکام کا سبب جمہوریت نہیں’ جعلی جمہوریت ہے ”۔
مگر جب عمران خان اور تحریک انصاف نے دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کیا تو خورشید ندیم کا نقطہ نظر یکسر بدل گیا۔ اب وہی احتجاج جو نواز شریف کے دور میںجمہوری حق تھا، عمران خان کے دور میں ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ 9اکتوبر 2024 کو خورشید ندیم نے اپنے کالم”احتجاج کی نفسیات” میں لکھا:
”احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے ، میرا خیال ہے یہ جملہ اب تفہیمِ نو کا محتاج ہے ۔احتجاج جس مفہوم کے ساتھ یہاں رائج ہے ‘ اس سے نجات کے بغیر ملک ترقی کر سکتاہے اور نہ جمہوریت کا شجر ثمربار ہو سکتاہے ۔ دو دن پہلے ہم نے جو احتجاج دیکھا،وہ بھی جاتے جاتے ایک جان لے گیا۔ اس طرح کے احتجاج کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں’۔
یہاں خورشید ندیم ایک نیا مفہوم پیش کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک، احتجاج اب جمہوریت کا حصہ نہیں رہا بلکہ وہ اسے ملکی ترقی کے خلاف ایک منفی عمل قرار دیتے ہیں۔حالانکہ یہی احتجاج جب نواز شریف کے دور میں ہوتا تھا، تو ندیم صاحب کے نزدیک وہ جمہوری حق تھا اور عوام کے مسائل کا حل احتجاج میں تھا۔خورشید ندیم کے بیانیے میں ایک اور بڑا تضاد اس وقت سامنے آتا ہے جب ہم غیر سیاسی عناصر کی سیاست میں مداخلت کا جائزہ لیتے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں خورشید ندیم بار بار اس بات پر زور دیتے رہے کہ غیر سیاسی عناصر کا سیاست میں مداخلت ملک کے لیے نقصان دہ ہے ۔ لیکن 2024 میں جب سیاسی حالات اور زیادہ سنگین ہو چکے ہیں، اور غیر سیاسی عناصر کی مداخلت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے ، خورشید ندیم نے اس موضوع پر مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے ۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے :کیا غیر سیاسی مداخلت صرف اُس وقت غلط تھی جب نواز شریف اپوزیشن میں تھے ؟ یا یہ اصولی موقف ہر دور میں یکساں ہونا چاہیے تھا؟خورشید ندیم کا حالیہ بیانیہ بتاتا ہے کہ یہ اصول صرف اُس وقت لاگو ہوتا ہے جب اپوزیشن میں نواز شریف ہوں، لیکن جب عمران خان اپوزیشن میں آئیں تو یہی غیر سیاسی مداخلت ایک غیر متعلقہ موضوع بن جاتا ہے ۔
2024 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی خورشید ندیم نے کبھی کھل کر بات نہیں کی۔ انتخابی دھاندلی، تحریک انصاف کے امیدواروں پر مقدمات، ان کے کاغذات نامزدگی کی منسوخی اور ان کے ووٹرز کے حق رائے دہی کو محدود کیا گیا، مگر خورشید ندیم ان تمام مسائل پر خاموش رہے ۔ حتیٰ کہ انتخابات کے دن دھاندلی کی متعدد رپورٹس سامنے آئیں اور فارم 47 کے ذریعے انتخابی نتائج میں تبدیلی کی گئی، مگر ندیم صاحب نے ان ایشوز کو کبھی اپنے کالم میں جگہ نہیں دی۔ خورشید ندیم کا یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنے قلم کا استعمال اصولوں کے بجائے شخصیات کے حق میں کرتے ہیں۔ جب نواز شریف اپوزیشن میں تھے ، تو وہ
جمہوریت کے حامی تھے اور احتجاج کو ایک جمہوری حق قرار دیتے تھے ۔ لیکن جب عمران خان اپوزیشن میں آتے ہیں، تو وہی احتجاج ان کے نزدیک ملکی استحکام کے لیے نقصان دہ بن جاتا ہے ۔
خورشید ندیم کے ان تضادات اور دُہرے معیارات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بیانیہ اصولوں کی بجائے سیاسی حالات کی تبدیلی کے ساتھ ڈھلتا ہے ، جس سے قاری ان کی تحریروں پر اعتماد کرنے کے بجائے انہیں شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
غیر جانبداری کا پردہ:سہیل وڑائچ کے کالموں کا دُہرا معیار

ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
ایران کے جوہری اہداف پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج

مودی،مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کاذمہ دار وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
مودی،مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کاذمہ دار

پاکستان کی بیٹیوں کا المیہ اور ہماری قومی غیرت کا امتحان وجود اتوار 20 اکتوبر 2024
پاکستان کی بیٹیوں کا المیہ اور ہماری قومی غیرت کا امتحان

ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟ وجود هفته 19 اکتوبر 2024
ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر