... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہم سے بچھڑے ہوئے تین سال گزر گئے اور ہم نے اپنی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھی بھلا دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بچپن میں جو مٹی کی خوشبو اپنے اندر بسا لی تھی وہ آخر دم تک ان کے ساتھ رہی اور مرنے کے بعد بھی اسی مٹی میں دفن ہوئے، جس کی محبت میں انہوں نے ایک خوشحال زندگی کو لات مار کر اپنے ملک کی خدمت کا فیصلہ کیا جو ان کاایک خواب بھی تھا۔ بلاشبہ ان کے اس خواب کو پورا کرنے میں سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو ،سابق انٹرنیشنل اسمگلر سیٹھ عابد اور سابق سفیر میاں عبدالوحید سمیت بہت سے کردار ہیں شاید ہی کوئی پاکستانی ہوگا جو ڈاکٹر صاحب سے محبت،پیار اور عقیدت نہ رکھتا ہو۔ انہی میں سے میں بھی ڈاکٹر صاحب کا عقیدت مند تھا اور اب بھی ہوں ۔ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے اور ملنے کا بہت شوق تھااور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میں اپنے ہیرو کے ساتھ ان کے گھر کے برآمدے بیٹھ کر کئی کئی گھنٹے انکی باتیں سنتا۔ اس دوران ہمارے درمیان کوئی تیسرا شخص نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ ہر وقت ان کے ساتھ سائے کی طرح چمٹا ہوا آرمی کا میجر بھی نہیں ہوتا تھا ۔ڈاکٹر صاحب ہوتے تھے میں ہوتا تھا یا پھر سامنے کی دیوار پھلانگ کر آنے والے بندر ہوتے تھے جنہیں ڈاکٹر صاحب کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتے بھی دیکھا ۔
ڈاکٹر صاحب سے میری قربت اس وقت بنی جب انہوں نے تحریک تحفظ پاکستان (ٹی ٹی پی ) ایک سیاسی جماعت بنائی اور اس پارٹی کے سیکریٹری جنرل خورشید زمان خان جو پاکستان کے سب سے کم عمر پارلیمنٹیرین بھی تھے انہوں نے مجھے اس پارٹی کا سیکریٹری اطلاعات بنا دیا اور ساتھ میں انچارج میڈیا سل پنجاب کی ذمہ داری بھی دے ڈالی۔ الیکشن قریب تھے خوب تیاری کی پارٹی کو انتخابی نشان میزائل بھی الاٹ کردیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک قریبی دوست نواب کیفی نے اسلام آباد میں ایف 6 سپر مارکیٹ کے سامنے اپنی کوٹھی الیکشن آفس کے لیے دے دی جہاں ہم نے ڈیرے لگالیے۔ الیکشن کی گہما گہمی شروع ہوئی تو پورے ملک سے ٹکٹ لینے والوں کی لائن لگ گئی۔ اسی دوران شام کے وقت ڈاکٹر صاحب کے گھر میٹنگ وغیرہ بھی ہوتی اور مختلف سیاسی قائدین سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ خیر الیکشن ہوئے اور ہماری پارٹی کا کوئی ایک امیدواربھی جیت نہ سکا بلکہ سب کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں۔ جس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے الیکشن کمیشن میں درخواست دیکر تحریک تحفظ پاکستان کو ختم کردیااور وہ خبر بھی اخبارات میں میرے ہی نام سے چلی ۔پارٹی ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنا ترجمان رکھ لیا اور ان کی مشاورت سے ملکی صورتحال پرکبھی کبھی ان کابیان جاری کردیتا۔ میں جب کبھی اسلام آباد جاتا تو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ضرور ہوتی جس میں کوئی تیسرا فرد نہیں ہوتا تھا۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ڈاکٹر صاحب ننگے پائو ں سرحد پار کرکے پاکستان داخل ہوئے تو اس وقت ان کے قدموں نے اپنی مٹی کا جو لمس محسوس کیا وہ پھر ساری زندگی ان کے جسم سے نکل نہ سکا۔ ڈاکٹر صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ ہار جیت الیکشن کا حصہ ہے اور ابھی تو ہمارا پہلا الیکشن تھا پھر پارٹی بند کرنے کی وجہ کیا تھی جس پر ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے ملک اور قوم کے لیے سب کچھ قربان کردیا اور قوم بھی مجھے محسن پاکستان سمجھتی ہے ۔میں جہاںجاتا ہوں لوگ ہاتھ چومتے ہیں اور عقیدت کی انتہا کردیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے حالانکہ میں عوام کی غربت دور کرنے ملک میں ایٹمی بجلی گھر بنا کرسستی بجلی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا ۔ملک کو قرضوں کے جال سے نکال کر چوروں اور ڈاکوئوں کے چنگل سے آزاد کروانا چاہتا تھا۔ غربت،پستی اور جہالت کی دلدل میں غرق ہوتی ہوئی قوم کو ترقی کی بلندیوں تک لے جانا چاہتا تھا۔1947سے لیکر اب تک اندھیروں میںگم ہونے والی پریشان قوم کو روشنیوں کے سفر میں لانا چاہتا تھا۔ جھوٹے وعدے کرکے عوام پر حکمرانی کرنے والوں سے جان چھڑوا کر محب وطن ،ایماندار اور وعدوں پر پہرہ دینے والے حکمران لانا چاہتا تھالیکن ہماری قوم ایک پلیٹ بریانی اور چند پیسوں کے عوض انہیں ووٹ دیکر اپنے سروں پر سوار کرلیتے ہیں جو پھر ساری عمر ان کے سروں پر جوتے برساتے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا جتنا وقت ڈاکٹر صاحب کے قریب گزرا وہ زندگی کا ایک انمول اور نایاب وقت تھا۔
میں اپنے ہیرو کے ساتھ بیٹھ کر ان کی سنتا اور اپنے دل کی کہتا تھا ڈاکٹر صاحب ملک میں بہتر اور معیاری نظام تعلیم لا کر قوم کا شمار مہذب قوموں میں کرا نے کی سوچ رکھتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو اگر قوم ایک موقع دیتی تو وہ غربت اور جہالت کا خاتمہ کر کے ریاست کو خوشحال بنا سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے ہم وہ قوم ہیں جو اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑا چلاتے ہیں اور اسی شاخ کو کاٹتے ہیںجس پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔اوپر میں نے دو شخصیتوں کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں مجھے ڈاکٹر صاحب نے ہی بتایا تھا ایک تو سیٹھ عابد جسے لوگ ا سمگلر کے نام سے جانتے ہیں، اسی کی بدولت ہم ایٹمی قوت بنے ۔کیونکہ انہوں نے جن جن طریقوں سے ایٹمی مواد پاکستان پہنچایا وہ اسی کا کام تھااور دوسرے میاں عبدالوحید ہیں جو اس وقت وہاں سفیر تھے جنہیں ڈاکٹر صاحب نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے خط لکھا ۔میاں عبدالوحید سفارت کاری کے بعد لاہور سے دو مرتبہ ایم این اے بنے۔ میری ان سے ملاقات شیخ رشید کے قریبی ساتھی اور متحرک سیاسی ورکر امجد گولڈن نے کروائی تو میں نے انہیں تحریک تحفظ پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی جس پر انہوں نے مجھے ڈاکٹر صاحب کے خط کا قصہ سنایا کہ ہمارے پاس بہت سے ایسے خطوط آتے رہتے ہیں جسے ہم خاطر میں نہیں لاتے اور ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیتے ہیں لیکن اس خط میں نہ جانے کیا بات تھی میں نے وہ خط سیدھا وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا دیا۔ جس کے بعد بھٹو صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو ملاقات کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ یوں پاکستان میں ایٹمی پاور پلانٹ کا کام شروع ہوا ۔جب میں نے میاں صاحب کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تو انہوں نے اس شرط پر آنے کی ہامی بھری کہ ڈاکٹر صاحب خود ان کے گھر تشریف لائیں۔ میں نے جب ڈاکٹر صاحب سے میاں صاحب کا ذکر کیا تو انہوں نے فورا ہامی بھری اور ڈاکٹر صاحب لاہور میں مال روڈ اور نہر کے قریب ان کی کوٹھی میں آئے جہاں میاں صاحب نے اپنے درجنوں ساتھیوں کے ساتھ تحریک تحفظ پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔کھانے کے دوران میں نے میاں صاحب کی خط والی بات ڈاکٹر صاحب سے کی تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ایسا ہی ہوا تھا ۔میں نے پاکستان کی خدمت کا فیصلہ کیا تو خط سفارت خانے کو ہی لکھا تھا اور اس وقت میاں عبدالوحید ہمارے ہاں سفیر تعینات تھے۔ میاں صاحب نے بھی میزائل کے نشان پر الیکشن لڑا لیکن وہ بھی ہار گئے۔ کیونکہ ہم اپنے ہیروز کا حشر ایسا ہی کرتے ہیں کیونکہ ہم من حیث القوم محسن کش اور جاہل ہیں۔ ہمیں کھوٹے اور کھرے کی پہچان نہیں۔ آج بھی ملک کی سمت درست ہوسکتی ہے لیکن اس پہلے ہمیں اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر میں چلتے چلتے میں ڈاکٹر صاحب کے نہایت قریبی اور اعتماد والے ساتھی رائو نعمان صاحب کا بھی مشکور ہیں جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی برسی کے حوالے سے اہم اقدامات کیے اور جن سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو ان سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خوشبو آتی ہے ۔