... loading ...
ریاض احمد چودھری
بھارت عالمی امن و امن کی صورتحال کو خراب کرنے کے لیے دہشت گردی میں پیش پیش رہا ہے ، جس کے شواہد اور رپورٹس مختلف اوقات میں منظرعام پر آتے رہتے ہیں جب کہ بھارت اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں بھی براہ راست شامل ہے۔جنوری 2024 میں بھارتی دفاعی کمپنی میونیشنز انڈیا لمیٹڈ کی جانب سے اسرائیل کو گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد فراہم کیا گیا۔بھارتی وزارت دفاع کے تحت ایک پبلک سیکٹر انٹرپرائز میونیشنز انڈیا لمیٹڈ کو جنوری2024 تک اپنی مصنوعات اسرائیل بھیجنے کی اجازت دی گئی۔اڈانی ڈیفنس اور اسرائیل کے ایلبٹ سسٹمز کے درمیان مشترکہ منصوبے میں واقع اڈانی ایلبٹ ایڈوانسڈ سسٹمز انڈیا لمیٹڈ نے 2019ء سے 2023ء کے درمیان اسرائیل کو بھارتی ایرو اسٹرکچرز اور سب سسٹمز کی شکل میں 20 Hermes اور 900 سے زائد ڈرونز اور گولہ بارودفراہم کیا۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ کے تحت ایک نجی بھارتی کمپنی پریمیئر ایکسپلوسیوز لمیٹڈ کو گزشتہ سال غزہ پر اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے دو بار ہ جنگی ہتھیاروں کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔18 اپریل 2024 کو میونیشنز انڈیا لمیٹڈ نے اسرائیل سے دوسرے مرحلے میں گولہ بارود اور دیگر ہتھیار برآمد کرنے کے لیے درخواست دی ہے۔ بھارتی کمپنی میونیشنز انڈیا لمیٹڈ کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی دوسری برآمد کی منظوری بھی زیر غور ہے۔
مودی سرکار نے اسرائیل کے ساتھ بہت سے تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق بھارت نے گزشتہ برسوں کے دوران اسرائیل سے 2.9 ارب ڈالر مالیت کا ملٹری ہارڈ ویئر درآمد کیا جس میں ریڈار، نگرانی اور جنگی ڈرونز اور میزائل شامل تھے۔ رواں سال بھی اڈانی گروپ کے ڈرون بھارت سے اسرائیل بھیجے گئے تھے جو غزہ میں نہتے مسلمانوں پر استعمال کیے گئے۔مودی سرکار کی جانب سے اسرائیل کو فلسطین کے خلاف استعمال کے لیے ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی اور نسل کشی کے فروغ کا حامی ہے۔بھارت انسانی حقوق کے کارکنوں، ججوں، مصنفوں اور دیگر نے مودی حکومت کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط میں تحریر ہے کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو فوجی سازو سامان کی فراہمی میں اپنا تعاون فوری طور پر معطل کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ اسرائیل کو فراہم کئے گئے ہتھیار نسل کشی یا بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے استعمال نہ ہوں۔ وزارت دفاع بھارتی کمپنیوں کی طرف سے اسرائیل کو فوجی ہتھیاروں اور گولہ بارود کی سپلائی کے تمام موجودہ لائسنسوں کا جائزہ لیں اور انہیں منسوخ کرے۔
بھارت اسرائیل کی ہر طرح مدد کے بدلے میں مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف اسرائیل کی مدد حاصل کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں1990ء سے ہی اسرائیل فورسز کی تربیت ، سراغرساں امور میں تعاون اور کشمیری حریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیلئے بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے اپنے اس تعاون کو اب مزید مضبوط اور موثر بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارت اوراسرائیل کے ایک مشترکہ وفد کی مقبوضہ کشمیر آمد اور بعض لوگوں سے ملاقاتیںاسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کشمیری عوام یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارتی حکمران اسی طرح کشمیر میں مسلمانوں کو بے بس اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جسطرح اسرائیل نے فلسطین میں کیا ہے۔ بھارتی حکمران کشمیر یوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے اور اپنی حق پر مبنی جدوجہد آزادی سے دستبردار کرنے کیلئے مکمل طور پراسرائیل کی رہنمائی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھارت بھی چاہتاہے کہ کشمیر میں اسرائیل کی موجودگی کو تعلیم، طب، کلچر اور تجارت کی شکل میں مضبوط اور موثر بنایا جائے۔بھارت اور اسرائیل جموں و کشمیر اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر اپنااپنا غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے کے لئے کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کا خون بہانے میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اور انتہا پسند ہنود و یہود کے اس ظالمانہ کھیل میں انہیں امریکہ کی اشیرباد بھی حاصل ہے۔غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے بھارت کی طرف سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں نفرت پیدا ہوگی جو بالآخر بھارت کو تباہ کردے گی۔ اگر یہ سچ ہے کہ بھارت اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ نفرت کو فروغ دے رہے ہیں اورمجھے لگتا ہے کہ اس سے بھارت تباہ ہو جائیگا۔ طویل مدت میں نئی دہلی کو اس چیز کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑیگی۔
بھارت کے ماہرین تعلیم، ریٹائرڈ سفارت کار و سرکاری ملازمین نے غزہ پر جنگ کے دوران اسرائیل کو فوجی سازوسامان کی برآمد کا لائسنس منسوخ کرنے کی سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے۔بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت میں 417 صفحات پر مشتمل رٹ پٹیشن دائر کی گئی جس میںبھارت میں سرکاری و نجی شعبے کی کمپنیوں کے بارے میں معلومات درج ہیں۔فہرست میں درج کمپنیاں ہتھیاروں اور گولہ بارود کی تیاری اور برآمد سے متعلق ہیں، جنہیں غزہ جنگ کے دوران بھی اسرائیل کو اسلحہ برآمد کے لیے لائسنس دیے گئے ہیں۔درخواست گزاروں کا موقف ہے ‘ملک کی اعلیٰ عدلیہ حکومت کو یہ لائسنس منسوخ کرنے اور نئے لائسنس جاری کرنے سے روکنے کا حکم جاری کرے۔’ہتھیاروں کی یہ فروخت بین الاقوامی قانون کے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی اور ملکی آئینی دفعات کی خلاف ورزی ہے جب کہ ریاست کا فرض بین الاقوامی معاہدوں کو برقرار رکھنا ہے۔پٹیشن میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا حوالہ سے کہا گیا ہے ایک ایسی ریاست جو ممکنہ نسل کشی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے اسے ہتھیار بیچنے کا یہ عمل ملکی قانون اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔