... loading ...
ماجرا/ محمدطاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ پلٹ کر وار کرتی ہے۔ اس کا انتقام نام نہاد جمہوریت سے زیادہ گہرا ہے۔ عدلیہ کے تماشے میںکردار ڈوب اور اُبھر رہے ہیں۔ مگر تاریخ کی دیوی ،انصاف کی دیوی کو بھی آئینہ دکھا رہی ہے۔دوسری طرف سازشیں، حشرات الارض کی طرح رینگ رہی ہیں۔ پارلیمنٹ مقتدر قوتوں کی ٹھوکر پر ہے۔ سیاست دان ، دانش سے دست بردار ہو کر تعصبات کی دلدل سے نکلنے کو تیار نہیں۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح اب تاریخ کے رحم و کرم پر ہیں۔تاریخ ہی کا سبق ہے کہ حالات امید اور مایوسی کے درمیان بگڑتے، سنورتے ہیں۔ ایک طرف روشنی ہے، دوسری طرف تاریکی!نیپلس میں پیدا ہونے والے انیسویں صدی کے مورخ ، سیاست دان جان ڈیلبرگ ایکٹن نے کہا تھا:
History is not a burden on the memory but an illumination of the soul.
(تاریخ صرف یادداشت پر بوجھ نہیں، بلکہ روح کی روشنی بھی ہے)
پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ روح کی روشنی کہاں؟تاریخ یہاں الٹی قلابازیوں کے ایک مکروہ سفر کے ساتھ یادداشت پر ایک بوجھ کی طرح رہتی ہے۔بے رحم تاریخ سپریم کورٹ کی طرف متوجہ ہے۔ صرف پندرہ روز باقی ہے ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دور ختم ہو جائے گا۔ نظام پر مستقل بوجھ رہنے والوں نے بھی اس بوجھ کو اُٹھانے سے انکار کردیا ۔ نون لیگ کے چند وزراء کو چھوڑ کر اکثریت کہہ رہی ہے اب ہمہ صفت موصوف اثاثہ نہیں بوجھ ہیں۔ دارالحکومت کے گلی کوچوں میں دماغ کا کام ہاتھ سے لینے والی مخلوق نے بھی خطرات کی آہٹیں اس کے باوجو دسن لی ہیں کہ طاقت ،دماغ ہی نہیں گوش ہوش سے بھی محروم ہوتی ہے۔علی امین گنڈا پورکی پراسرار گمشدگی و واپسی کو ابھی نظر انداز کردیں۔ اس پر حتمی رائے عمران خان کے بیان کے بعد قائم کی جاسکے گی۔ جن سے رابطوں کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ تاکہ ابہام پھیل سکے۔ تحریک انصاف کے کارکنان بددل ہوں،مگر تابکے! حکمت عملی واضح ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے بعد آئینی ترمیم پیش کی جائے گی، جو 15 اور 16 اکتوبرکے سربراہی اجلاس کے بعد اختتام پزیر ہوگی۔ انگریزی محاورے کے مطابق جلدی پکنے اور جلدی سڑنے (Soon ripe, soon rotten) کی تصویر جناب بلاول بھٹو کے مطابق وقت 25 اکتوبر تک کا ہے۔ یہ وقت نہیں، مہلت ِ بدعملی ہے۔ جان جوکھوں میں ہے۔ فارم47 کی مخلوق کی جان آئینی ترمیم کے طوطے میںہے۔اصل خطرہ اب بھی تحریک انصاف کے کارکنان ہیں۔ یہ نکتہ سمجھ میں آنے لگا ہے کہ انہیں قابو نہیں کیا جا سکتا۔وہ اپنے قائد عمران خان سے طاقت لیتے ہیں۔ محسن نقوی کی لن ترانیاںان کا راستہ نہیں روک سکتی۔تاج اچھالنے اور تخت گرانے کے لیے بے تاب خلق خدا کے تیور بے قابو ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے قبل آئینی ترامیم منظورکرانے کا منصوبہ اوندھے منہ گر چکا ہے۔ اندازا یہی کیا جا رہا ہے کہ عمران خان پر 18 اکتوبر تک ملاقاتوں پرپابندی کا مطلب یہ ہے کہ کانفرنس کے اختتام کے فوراً ہی بعد یعنی 17 اکتوبر کو آئینی ترمیم کا پاندان پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ گویا شنگھائی تعاون کانفرنس کے عرصے میں پس پردہ اکھاڑ پچھاڑ کا کھیل ہوگا۔ تب ذرائع ابلاغ کی پوری توجہ کانفرنس پر ہوگی۔
نئے چیف جسٹس کے طور پر منصور علی شاہ کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا ایک شاطرانہ عندیہ دیا جا رہا ہے۔مگر درون خانہ سودے بازی کی سازش کی بھنک بھی ہے۔ آرٹیکل 63اے کے نظر ثانی کیس کا فیصلہ ، توسیع کے جس مقصد سے بعجلت عام اور بسرعت تمام آیا تھا، وہ اپنا جادو نہیں جگا سکا۔ توسیع کی آرزو موقع پرستی کے قبرستان میں ہی دفنانے کی تیاری ہے۔ موقع پرست کبھی اپنے موقع پرست ساتھیوں کے لیے بھی ایثار نہیں کرتے۔ تاریخ کا سبق ہے، یاد نہیں رکھا گیا۔ شکوہ سنج زبانوں سے یہ الفاظ اسی لیے ادا ہو رہے ہیں:جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو”۔تاریخ کا منحوس دائرہ حرکت میں ہے۔ بلاشبہ قاضی صاحب نے بہت احسانات کیے۔ فارم 47 کی مخلوق اُن ہی کے دم قدم سے محفوظ رہی۔ 9فروری کی دھاندلی کافی نہ تھی کہ تحریک انصاف کی بچ جانے والی نشستیں بھی چھین چھین کر عدالتی فیصلوں سے نون لیگ کو تھمائی گئیں۔ حکومت کے حق میں انتخابی نتائج آنے کا سلسلہ آج تک اُن کے ہی وجودِ بابرکت سے جاری ہے ۔ پھر دھاندلی کو تحفظ دینے کے لیے انتظامی سطح پر سارے بندوبست بھی عدالتی دماغ سے کیے گئے۔ یہ بھی کافی نہ تھا کہ 12 جولائی کے فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہونے دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی کتاب الحیل کا تحفظ بھی آپ ہی کی بدولت ہیں۔ احسانات کی فہرست بہت طویل ہیں۔مگر اس سب کے عوض وہ ایک توسیع بھی نہ لے پائیں تو اس سے بڑا شر کیا ہوگا؟ قاضی صاحب نے جن پر احسان کیے اُن کی احسان فراموشی کی داستان بھی خاصی طویل ہیں۔ جنرل ضیاء اور جنرل حمید گل سے لے کر جنرل باجوہ تک کتنے ہی نام ہیں، خود عدلیہ میں بھی ایسے منصفوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو احسان فراموشی کا یہی طعنہ دیتے ہوئے تاریخ کی کالی کوٹھری میںگم ہوگئے۔تحریک عدم اعتماد کی کھکھیڑ اپریل 2022ء میں اٹھانے والے جنرل(ر) باجوہ کی مثال تو بہت تازہ ہے۔ جن سے درونہ خانہ کوئے محبت کی تمام آوارگیوں سے اچانک ہاتھ اُٹھا لیا گیا۔ ذوق کا ذوق جناب نواز شریف نے سیاسی بازار میں کیسا نبھایا ہے
آوارگی سے کوئے محبت کی ہاتھ اٹھا
اے ذوق یہ اٹھا نہ سکے گا کھکھیڑ تو
تاریخ کا وار جاری ہے۔ نواز شریف صرف کہاں، یہ ”مقدس ہالہ” تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات بابرکات کو بھی گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ کیلنڈر پر 19جون 2020 کی تاریخ ماتم کناںہے۔جب اسی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا تھا ۔اس ریفرنس کو کالعدم قرار دینے والے نو منصفین میں جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظہر عالم بھی شامل تھے۔ یہ محسن بھی تو ایک شر کے شکار رہے۔محسن کشی کی مکروہ روایت کے ساتھ مکافات عمل کا دائرہ بھی حرکت میں رہتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بڑے احسانات کیے، آج وہ محسن کشی کے شکار ہیں۔مگر تاریخ کے دامن میں مکافات عمل کی چنگاریاں بھی سلگ رہی ہیں۔ جسٹس قاضی منصور علی شاہ وہی جج ہیں جنہوں نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے مل کر وہ ”تاریخ ساز” فیصلہ صادر کیا جس نے قومی سیاست کو ایک آتش فشاں بنائے رکھا۔ یاد کیجیے! نومبر2019 میںسپریم کورٹ نے پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے اپنے فیصلے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میںتوسیع کر دی تھی۔ اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ کر رہا تھا۔ تمام قوانین خاموش تھے۔ مگر سپریم کورٹ نے جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع دے کر پارلیمنٹ کو مزید قانون سازی کا حکم دے دیا تھا۔ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا۔تاریخ کا ہی نہیں مکافات ِعمل کا قانون بھی حرکت میں ہے۔جسٹس منصور شاہ نے کل قانون نہ ہوتے ہوئے مدت ملازمت میںتو سیع کا نوٹیفکیشن جاری کرایا۔ آج وہ قانون ہونے کے باوجود اپنے چیف جسٹس کے نوٹیفکیشن کا انتظار ایک دھڑکے کے ساتھ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بے رحم تاریخ کے شکار ہو گئے۔ اُن کا بوجھ وہ بھی اُٹھانے کو تیار نہیں جو خود ایک بوجھ بن کر نظام پر مسلط ہیں۔ وہ ہر گزرتے دن مکافات عمل کا سامنا کریں گے۔ کوئی دن جائے گا کہ جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹیفکیشن ہو جائے گا۔ جس میں خود اُن کا اپنا کمال شاید کچھ بھی نہ ہو۔ ابھی وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کے پاس تلافی مافات کا موقع ہوگا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پاس تو یہ موقع بھی نہیں۔ تاریخ کا وار ایسا ہی ہوتا ہے۔