وجود

... loading ...

وجود

طاقت کی وحشت کا زوال !

بدھ 09 اکتوبر 2024 طاقت کی وحشت کا زوال !

بے نقاب /ایم آر ملک

دنیا میں جتنی عمر ظلم کی ہے اُتنی اُس کے خلاف احتجاج کی ہے!
لیکن یہ جمہوری معاشروں میں ہوتا ہے کہ آپ کے احتجاج کو ثبات ملے، پاکستان میں وہ کھوٹے سکے جو اس کی بنیاد کے ساتھ ہمارے حصے میں آئے آج تک اقتدار کے ایوانوں پر بر اجمان ہیں جنہوں نے سچائی کی طاقت کو اپنے حق میں مولڈ کرنے کی کوشش کی۔ ازل سے ایسے واقعات ہمارے سامنے صفحۂ قرطاس پر بکھرے بااثر کے مظالم کی یاد دلاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کو چوروں کے ساتھ کھڑا کیا گیا ،سقراط کو زہر کا پیالہ محض اس لئے پینا پڑا کہ وہ اپنے عہد کا سچا انسان تھا۔ پاک دھرتی پر ہر آمر کے خلاف کسی نہ کسی سچے کی بغاوت کا ایک ایسا باب ملتا ہے جو کھلنے کے بعد بند ہونے کا نام نہیں لیتا ۔صفحے پلٹتے ہیں تو ظلم کی نئی داستان کا آغاز ملتا ہے۔
صحافت میں ایسے ایسے باکردار ملتے ہیں جن کے کردار سے آنکھیں وضو کرتی ہیں شورش کاشمیری کے قد کے سامنے ہر کوئی ہیچ نظر آتا ہے ۔ایوبی آمریت کے ایوانوں میں زلزلہ بر پا کر دینے والی اس آواز کو خاموش کرنے کیلئے شاہی قلعہ کے زنداں میں ڈالا گیا ،مگر موت سے واپسی بھی اُس کے سچ پر ضرب نہ لگا سکی ،حسن ناصر ضیائی آمریت کے دوران لاہور کے اسی شاہی قلعے میں سچائی پر کاربند رہنے کے جرم میں شہید کہلایا ،کئی کمریں آج بھی اُن کوڑوں کے نشانات لئے ہوئے ہیں جو ایک آمر کی فسطائیت کی شکل میں اُن کے جسم پر برس گئے مگر اپنے حقوق کیلئے احتجاج کا کارواںچلتا رہا ،شہر اقتدار کے ڈی چوک میں شہروں سے رواں دواںدھرتی کے بیٹوں نے اپنے طاقتور احتجاج سے ثابت کیا ہے کہ سچائی پر کھڑے لوگوں کو شکست دینا ہمیشہ ناممکن رہا ،ریاستی پولیس ،ایف سی کے دستوں اور رینجرز کے ذریعے جذبات اور نظریات کو فتح کرناناممکن ہوتا ہے ۔یہ طاقت کی وحشت کا زوال ہے!
2024کے الیکشن میں شریف خاندان کو ملنے والی مبینہ جیت کی شکست کے اثرات آئے روز گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کے شعور پر فتح کے جھوٹ کو مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش ناکامی سے دوچار ہے۔ زر خرید ٹی وی چینلز نے 9فروی کو جس جشن کا سماں باندھا وہ دراصل عوام کے حق ِ خود ارادیت کے چرائے جانے کا تماشا تھا۔ فارم 47پر ایک سرمایہ دار حکمران کی جس مبینہ جیت کو عوامی حمایت قرار دیا جا رہا تھا محض ایک فریب تھا ،ایک دھوکہ تھا ۔یہ انتخابی نتائج لے پالک الیکشن کمیشن کی طرف سے کئے گئے بے ہودہ فراڈ کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ایک ایسی جمہوریت کا ناٹک جو خود ساختہ تخلیقی اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے ۔
میاں برادران کے حواریوں ،قلم بیچ کر نقش خیال مرتب کرنے والے اور جمہور نامے لکھنے والے عرفان صدیقی جیسے میر منشیوں کیلئے کھوکھلی اُمید کا آخری موقع ہے۔ حکمران لاکھ وضاحتیں کریں کہ معیشت کا پہیہ چل پڑا ہے ۔غیر جانبدار حلقے اس دھول کو اپنی آنکھوں میں پڑنے نہیں دیں گے وہ اس سچ پر جھوٹ کی تہہ نہیں چڑھنے دیں گے کہ ”ہم قلم والوں کے ساتھ ہیں غلیل والوں کے ساتھ نہیں ”کے پس پردہ مقاصد کیا تھے ؟ رجیم چینج کے ذریعے جو خونی فصل پنجاب کے حکمرانوں نے بوئی ،وہ اُنہی کے ہاتھوں کٹے گی ،لذ تِ گریاں سے وہی محظو ظ ہوں گے ۔خاندانی شہنشاہی آمریت کیلئے ناکام خواہشات کا تسلسل ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آرہا جس میں ایک خواہش عوامی طاقت پر شب خون مار کر ڈی چوک اسلام آباد پر ناکام قبضے کی کوشش ہے ۔نواز شریف کی طرف سے قوم پر مسلط آمر مشرف کی طرح جس نے 12مئی 2007کو کراچی میں بے گناہوں کے لہو سے خون کی ہولی کھیلی اور خود شہر اقتدار میں مُکا لہرا لہراکر عوامی حمایت کا ڈھنڈورا پیٹا ۔یقینا رائیونڈ کے حکمرانوں کو تحریک انصاف کے لاکھوں جانبازوں اور سیاسی کارکنوں کو جوابدہی کا سامنا ہے جو 8فروری 2024کو اپنی زندگی میں حقیقی تبدیلی کیلئے سچی اور سر گرم جدوجہد کے جاں سوز مرحلے سے گزرے اُنہوں نے الیکشن جیت کر دکھایا ۔آپ اسے عمران کے پرستاروں کے انقلابی جوش و جذبے کا ہی نتیجہ کہہ سکتے ہیں کہ رائے ونڈ کے شریفوں کے ہاتھ سے لاہور بھی نکل گیا۔ یہی کچھ پنجاب کے ہر گائوں ،ہر قصبہ میں ہوا ۔ن لیگ نے دیکھا کہ عوامی حمایت تحریک انصاف کی دسترس میں چلی گئی۔ بھٹو مرحوم نے کہا تھا وطن عزیز میں سیاست کا آغاز جس نے لاہور سے نہیں کیا اُس کی سیاست نامکمل ہے اور جس کے ہاتھ سے لاہور نکل گیا اُس کے ہاتھ سے سیاست نکل گئی۔
المیہ یہ ہے کہ بھٹو مرحوم اور محترمہ بے نظیر کے بعد اپنے دور کی سب سے بڑی سیاسی جماعت (تب اب نہیں )پر مسلط ہونے والی حادثاتی قیادت نے بجائے عوامی حقوق کی جنگ لڑنے والی اپوزیشن کا ساتھ دینے کے ،عوام کو متحرک کرنے کے ”ایک وفادار ”کا فریضہ انجام دینے پر اکتفا کیا ،اس طرح بھٹو مرحوم کی پارٹی نے اُن کو قتل کرنے والی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی مسلم لیگ ن کو وہ طاقت فراہم کی جو عوام کی جدوجہد کو روکنے اور کچلنے کے کام آتی ہے چنانچہ اس بات پر حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ پی پی پی کا مضبوط ووٹ بینک ایک عوامی اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کی بنا پر تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا ، پی پی نے دانستہ خاندانی شہنشاہی حکومت کی باقاعدہ فوج بننے کا عمل کیا ۔
آج حکمران طبقات اور اُن کی حلیف پارٹیوں کے معیارات صرف اور صرف اس نکتے پر جمے ہوئے ہیں کہ اڈیالہ جیل کے قیدی کو کس طرح گرانا ہے ، زیادہ سے زیادہ منافعوں کو ممکن بنانے والی پالیسیاں ہی سوچی اور عمل میں لائی جائیں ،یہ پالیسیاں اس نظام ِسرمایہ داری میں محنت کشوں کی ناکامی کا باعث بنتی چلی آرہی ہیں جو کسی طور پر مسائل کی حقیقی وجوہات کا نہ تعین کرتی ہیں اور نہ مداوا اور ہو بھی کیوں کہ یہ بھی تو ہمارے مسائل کا ہی ایک حصہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع بنانے کے اپنے طریقے ہوتے ہیں جس میں سرمایہ دار حکمران محنت کشوں کا استحصال اُنہیں منافعوں اور روز گار کے حقوق سے محروم کرنے کی صورت میں کرتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس کیلئے یہ بھی ایک ناکام خواہش کا تسلسل ہے کہ پی پی اورمسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم میں 300اور200یونٹ فری بجلی کے خوشنما وعدے عوام سے کئے لیکن اقتدار پر قبضہ کے بعدپنجاب کی مس ٹک ٹاکر کی لفاظی بھی مبہم ہو کر ماند پڑ گئی۔
منصور علی شاہ کا نوٹیفیکیشن نہ ہونا اور قاضی کی ایکسٹینشن کیلئے ترامیم بھی انہی ناکا م خو اہشات کا نتیجہ ہے جو شخصی آمریت کو دام بخشنے کیلئے مقصود ہیں۔ یہ ایک اور ”طوفانِ بد تمیزی ”تھا پشتیبانوں نے اپنے خلاف ایک اور محاذ کھول لیا ،اور لوگ ڈی چوک تک آپہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر