... loading ...
سمیع اللہ ملک
گزشتہ کئی برسوں سے ایران پرحملہ کرنے کیلئے اسرائیل بہانے تلاش کررہاتھااوربالخصوص گزشتہ سال7/اکتوبرسے غزہ میں جس درندگی کاوہ اظہارکررہاہے،وہ مسلسل ایران کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کررہاتھااورایک طویل عرصے سے ایران کواشتعال دلانے کیلئے اس کے ایٹمی پروگرام پرحملوں کی دھمکیاں بھی دے رہاتھاجس میں بالآخراسرائیل کامیاب ہوگیاہے۔اس سے قبل رواں برس اپریل کے آغاز میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے دوسینئرکمانڈرشام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر ہونے والے میزائل حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔اسرائیل کی جانب سے اس حملے کی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تھی تاہم عام خیال یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔
ایرانی دارالحکومت تہران میں رواں برس31جولائی ایرانی وقت کے مطابق دوبجے حماس کے سیاسی رہنمااسماعیل ہنیہ کوان کے ذاتی محافظ کے ساتھ ایرانی صدرمسعودپزشکیان کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بعد فوج کے زیرانتظام ایک مہمان خانے پر میزائل حملے میں شہیدکردیاگیاتھااوراب27ستمبر2024کواسرائیلی میزائل حملے میں حزب اللہ کے انتہائی مقبول رہنما 64سالہ حسن نصراللہ و دیگر ساتھیوں سمیت ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے جنرل عباس نیلفروشان کی شہادت کے بعدایران کے صبر کاپیمانہ لبریزہونے پربالآخر منگل جویہودیوں کے نئے سال کاپہلادن تھا،کی شب اسرائیل پرصرف 4سوسیکنڈمیں 200بیلیسٹک ایرانی میزائل حملوں کی بارش نے دنیا بھر کی نظریں ایک بارپھرمشرقِ وسطیٰ پر مرکوز کردی ہیں جہاں ایک خونیں تنازع اب ہرگزرتے دن کے ساتھ مزیدخطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ا سٹاک مارکیٹس سے لے کرعالمی امورپرنظررکھنے والے تجزیہ کاروں تک سب ہی مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورتحال اور فریقین کے اگلے قدم کے حوالے سے پیشگوئی کرنے کی کوشش کررہے ہیں اوراس بات پرپریشان ہیں کہ دنیاکی تین بڑی طاقتیں امریکا، چین اورروس اس تنازع کاحل تلاش کرنے میں بدستورکیوں ناکام ہیں۔7/اکتوبر کے حملوں کے بعدمشرقِ وسطیٰ میں بڑھنے والی کشیدگی اب غزہ، لبنان، یمن،شام کے بعد ایران تک پھیلتی ہوئی نظرآرہی ہے اوراسرائیلی حملوں میں اب تک حماس اورحزب اللہ کے سینئررہنماؤں سمیت ہزاروں افرادشہیدہوچکے ہیں اوراب تواسرائیل کے دفاع کیلئے سینہ ٹھونک کرامریکابھی میدان میں اترآیاہے اوریقیناامریکاکے اتحادی بھی اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے حزب اللہ،حماس اورایران کے خلاف کارروائیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔
بظاہرتوامریکا،برطانیہ اوریورپی یونین میں شامل متعددممالک نہ صرف غزہ بلکہ لبنان میں بھی جنگ بندی کی کوششیں کررہے ہیں لیکن یہ کوششیں تاحال کارگرثابت نہیں ہوئی ہیں۔ امریکا سمیت متعددممالک کویہ اندیشہ ہے کہ غزہ اورلبنان میں لڑی جانے والی جنگ پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیل سکتی ہے جبکہ گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران امریکی صدرجوبائیڈن نے کہاتھاکہ باقاعدہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔اس مسئلے کاسفارتی حل اب بھی ممکن ہے بلکہ کثیرالمیعادسکیورٹی کو یقینی بنانے کا راستہ بھی یہی ہے لیکن تمام تراپیلوں کے باوجوداسرائیل نے غزہ اورلبنان میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اوراب ایران کے حملے کے بعداس کی جانب سے ایک بارپھرایران پرحملے کی دھمکی دی ہے۔
سات اکتوبر2023کے بعد سے جہاں غزہ پراسرائیل کی مسلسل بمباری کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 40,602افرادشہیدہوچکے ہیں ،94 ہزارسے زائدافراد زخمی ہیں جبکہ لاکھوں بے گھرہوچکے ہیں وہیں ستمبر2024میں لبنان پر اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد ایک ہزارسے زیادہ ہے۔ غزہ کی پٹی میں گزشتہ ایک سال سے زائدعرصے میں حماس کے خلاف کی گئی زمینی کارروائیوں کے دوران اسرائیل کے درجنوں فوجی ہلاک وزخمی ہوئے ہیں جبکہ حزب اللہ کی جانب سے سات اکتوبر کے بعدسے اسرائیل پرراکٹس داغے جانے کاسلسلہ بھی جاری رہاہے اوراسرائیلی وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ ایک برس کے دوران حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے مختلف علاقوں پرمجموعی طورپرآٹھ ہزارسے زیادہ راکٹ داغے جاچکے ہیں۔یمنی حوثی بھی غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے بحیر احمر میں اسرائیل آنے اورجانے والے بحری جہازوں کونشانہ بناتے آئے ہیں۔اس سے قبل رواں برس اپریل کے آغاز میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے دو سینیئر کمانڈر شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر ہونے والے میزائل حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔اسرائیل کی جانب سے اس حملے کی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تھی تاہم عام خیال یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔
دوسری طرف لبنان کامحاذگرم ہونے سے قبل امریکااسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی کروانے کیلئے مذاکرات کی کوشش بھی کرتا رہا ہے،تاہم یہ مذاکرات تاحال تعطل کا شکارہیں لیکن عالمی تجزیہ نگارامریکاکے ایسے بیانات کوشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ابھی بھی نیتن یاہوکی جانب سے جاری ہونے والے بیانات کودیکھ کرصاف پتہ چلتاہے کہ جنگ بندی کے مطالبات اورسفارتی کوششوں کااسرائیل پر کوئی اثرنہیں ہورہا۔پیرکو سوشل میڈیا”ایکس”پرشیئرکیے گئے ایرانی عوام کے نام تین منٹ کے ویڈیوپیغام میں اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اسرائیل نہیں پہنچ سکتا، کوئی ایسامقام نہیں جہاں ہم اپنے لوگوں اورملک کی حفاظت کیلئے نہیں جا سکتے۔ نیتن یاہونے ایرانی عوام کومخاطب کرتے ہوئے مزیدکہاکہ” ہرگزرتے لمحے کے ساتھ(ایرانی)حکومت معززفارسی عوام کوتباہی کے قریب لے جارہی ہے۔جب ایران بالآخرآزادہو جائے گاتو سب کچھ بدل جائے گااوردونوں قومیں امن سے رہ سکیں گے۔جنونی ملاؤں کو اپنی امیدیں اورخواب کچلنے نہ دیں،آپ بہتری کے مستحق ہیں۔ایرانی عوام جان لیں کہ اسرائیل آپ کے ساتھ کھڑاہے۔ہم ساتھ مل کر خوشحال اورپرامن مستقبل دیکھیں گے”۔
ایران کے میزائل حملوں کے بعدیہ سوال پیداہوتاہے کہ دنیاکی بڑی طاقتیں آخراس تنازع میں شامل فریقوں کوفائربندی پررضامند کیوں نہیں کر پارہیں اور امریکا کے علاوہ روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اس معاملے پر کوئی موثر کردار کیوں ادا نہیں کر پارہیں؟ مشرقِ وسطیٰ اور بین الاقوامی خارجہ پالیسی پرنظررکھنے والے ماہرین اورتجزیہ کاروں کاکہناہے کہ امریکا،روس اورچین جیسے ممالک کے درمیان عدم تعاون اورامریکاکی اندرونی سیاست کچھ ایسے عوامل ہیں جس کے سبب اسرائیل کوجنگ بندی کیلئے قائل کرنامشکل ہو رہا ہے۔ کیا امریکا، چین اورروس کے درمیان اختلافات اسرائیل کوروکنے میں ناکامی کی وجہ ہیں؟یااس خطے میں چین کابڑھتاہوامعاشی اثرورسوخ روکنا مقصود ہے؟کیونکہ اس خطے میں چین نے بڑی کامیابی کے ساتھ ایران اورسعودی عرب کے درمیان یمن میں جاری ایک تلخ جنگ کوختم کرانے میں ایک اہم کرداراداکیاہے جویقیناامریکی اسلحہ سازکمپنیوں کیلئے سراسر جہاں ایک خسارہ کی شکل اختیارکرگیاہے وہاں ایران پر عالمی پابندیوں کے باوجود چین27مارچ2021میں ایران کے ساتھ اسٹرٹیجک تعاون کے25سالہ معاہدے پردستخط کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔یہ طویل المدتی معاہدہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے شدید مشکلات کے شکارایران کودرپیش کئی متنوع اقتصادی امور کا احاطہ بھی کرتاہے۔یہی وجہ ہے اپنی ضرورت کاوافرتیل ایران سے خریدتاہے۔
چین کے ساتھ کیاجانے والایہ معاہدہ ایران کیلئے کسی بڑی عالمی طاقت کے ساتھ کیاگیاپہلاطویل المدتی سمجھوتہ ہے۔اس سے قبل 2001 میں ایران نے روس کے ساتھ بھی زیادہ ترجوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کے ایک معاہدے پردستخط کیے تھے مگر اس معاہدے کی مدت صرف دس سال تھی۔بعدمیں اس معاہدے میں دومرتبہ پانچ پانچ سال کیلئے توسیع کردی گئی تھی،اس طرح اس روسی ایرانی سمجھوتے کی مجموعی مدت بیس سال ہوگئی تھی۔چین اورایران کے باہمی تعلقات میں کافی زیادہ گرم جوشی پائی جاتی ہے اور2019میں دونوں ممالک نے روس کے ساتھ مل کر شمالی بحرہندمیں کی جانے والی مشترکہ بحری مشقوں میں بھی حصہ لیاتھا۔بیجنگ اورتہران کے باہمی تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ حالیہ برسوں میں دونوں کے مابین تجارت کاسالانہ حجم تقریبا20بلین ڈالرتک پہنچ چکاہے۔قبل ازیں 2014 میں اس تجارت کی سالانہ مالیت تقریبا52بلین ڈالررہی تھی مگرپھرایران کے خلاف امریکی پابندیوں اورعالمی منڈیوں میں تیل کی بہت کم ہو جانے والی قیمتوں کے باعث یہ حجم کم ہوگیاتھا۔اس لئے کسی حدتک یہ کہاجاسکتاہے کہ حالیہ جنگ بندی میں کسی بھی صورت میں چین کی جنگ بندی میں کسی بھی کوشش کوامریکاکامیاب نہیں ہونے دے گااوریوکرین جنگ کی بناپرروس کے راستے میں بھی امریکاسب سے بڑی رکاوٹ بنے گا۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگرایک طرف امریکامشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کوروکنے کی کوشش کررہاہے تو دوسری طرف بطوراتحادی جہاں وہ اسرائیل کو عسکری طاقت بڑھانے کیلئے اربوں ڈالرفراہم کررہاہے وہاں اس نے اپنی تمام فورسزکواسرائیل کے دفاع کاحکم دے دیا ہے گویاامریکاتواس جنگ میں ایک فریق بن گیاہے جس کی وجہ سے اس کے جنگ بندی کے حالیہ بیانات کی قلعی کھل کرسامنے آگئی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نے کہا تھاکہ امریکاکی جانب سے آٹھ ارب70کروڑڈالرکاامدادی پیکیج ملاہے تاکہ وہ اپنی عسکری مہمات کوجاری رکھ سکے۔
چینی تھنک ٹینک تائیہی انسٹٹیوٹ کے سینیئرفیلواینارتانجین کے مطابق:ایک طرف امریکاجنگ بندی کی بات کرتاہے لیکن دوسری جانب وہ (اسرائیل کو)اسلحہ،گولہ باروداور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کررہاہے جس کااستعمال خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں عام شہریوں کے قتل کیلئے کیاجارہاہے۔امریکااب توجنگ بندی کی بات کررہاہے لیکن ماضی میں اس کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی قراردادوں
کوویٹوبھی کیاگیاہے۔اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کی برطانوی نمائندہ مارگریٹ میکلوئیڈنے عالمی میڈیاکوبتایاکہ ہم نے اسی قرار داد کی مخالفت کی جس میں حماس کی دہشتگردی کونظراندازکیاگیایاجس میں اسرائیل کے حقِ دفاع کونظراندازکیاگیا۔دوسری جانب روس اور چین جیسی دیگربڑی طاقتیں بیانات کی حدتک توایسے حملوں کی مذمت کرتی ہوئی نظرآتی ہیں جن سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کاامکان ہو لیکن ان کی جانب سے اب تک کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
حالیہ برسوں میں دنیابھرمیں چین کااثرورسوخ بڑھتاہوانظرآرہاہے۔اس اثرورسوخ کی مثال گذشتہ برس چین کی کوششوں کے باعث تقریباًسات برسوں بعدایران اورسعودی عرب کے تعلقات بحال ہونے کے علاوہ خطے میں سب سے بڑے معاشی پارٹنرکے ہیں اور شدید ترین سرحدی تنازع کے باوجود انڈین خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق یہ دوطرفہ تجارت جو2001میں1.83/ارب امریکی ڈالرز تھی وہ رواں سال کے11ماہ میں بڑھ کر123/ارب ڈالرتک پہنچ گئی ہے۔
لیکن لبنان میں اسرائیلی حملے میں حسن نصر اللہ سمیت حزب اللہ کی متعدد سینیئر رہنماں کی ہلاکت کے بعدعالمی سیاست میں چین کی خارجہ پالیسی میں احتیاط اوراعتدال کایہ حال ہے کہ اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ وہ لبنان کی خود مختاری اورسکیورٹی کیخلاف ورزی کی مخالفت کرتا ہے اورعام شہریوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی مذمت کرتاہے۔چین کی وزارتِ خارجہ کایہ بھی کہناتھاکہ لبنان اوراسرائیل کے درمیان کشیدگی غزہ میں تنازع کے سبب بڑھی ہے اوریہ کہ چین کوخطے میں بڑھتے تناپرتشویش ہے۔چین تمام متعلقہ فریقین خصوصاً اسرائیل سے درخواست کرتاہے کہ وہ صورتحال کودرست کرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں اوراس تنازع کوبے قابوہونے سے روکیں۔
دوسری جانب روس ہے جوکہ اس خطے میں ایران کااہم اتحادی بھی ہے،اس کابھی اس تنازع میں حل کیلئے کوئی مؤثر کردارتاحال نظر نہیں آیاہے،تاہم مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پراس نے مذمت پراکتفاکیاہے۔پیرکوکریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہاتھاکہ روس حزب اللہ کے سربراہ کی ہلاکت کی مذمت کرتاہے اوریہ کہ اس کے سبب مشرقِ وسطیٰ میں بڑی جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ روس ایسی تمام کاروائیوں کی مذمت کرتاہے جس کے سبب خطے کی صورتحال مزیدکشیدگی کاشکارہوجائے۔
امریکی تھنک ٹینک سٹمسن سینٹرکی فیلوباربراسلاون کے مطابق2022میں روس کے یوکرین پرحملے اورروس پر امریکی پابندیوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی بگڑچکے ہیں۔چین اورامریکاکے تعلقات میں موجودہ سرد مہری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اورایسے میں چین کیوں مشرقِ وسطیٰ میں تنازع کے خاتمے کیلئے امریکاکے ساتھ تعاون کرے گا؟ لیکن اس کے جواب میں اینارتانجین کہتے ہیں کہ چین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ امریکاکویاجوہری طاقت کے حامل اسرائیل کوڈکٹیٹ کرسکے۔چین نے ہمیشہ ہی جنگ بندی کامطالبہ کیا ہے اورایسے مذاکرات کی حمایت کی ہے جس سے(اسرائیل اورفلسطین کے مسئلہ کا)دوریاستی حل ممکن ہوسکے۔خیال رہے دہائیوں سے یہی سمجھاجاتارہاہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیارموجودہیں لیکن اس کی جانب سے کبھی اس بات کی تصدیق یاتردیدنہیں کی گئی لیکن چین کے بیان سے صاف ظاہرہے کہ ایٹمی قوت کوڈکٹیٹ کرناکس قدرمشکل ہوتاہے،کیاکبھی پاکستان کے مقتدرحلقوں نے اللہ کی عطا کردہ اس نعمت کے فوائدکے بارے میں سوچاہے؟
امریکا میں5نومبر2024کوصدارتی انتخابات ہورہاہے جس میں امریکی نائب صدرکملاہیرس اورٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔سٹمسن سینٹرسے منسلک باربرا سلاون کہتی ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل حامی مؤقف رکھتی ہیں۔جوبائیڈن اسلحے کی فراہمی کو محددوکرکے اسرائیل پراصل دباؤڈالنے میں ہمیشہ ہچکچاہٹ کاشکاررہے ہیں۔اب جب امریکی الیکشن صرف چند ہی ہفتے دورہے تو میرا نہیں خیال کہ بائیڈن یاکملاہیرس دونوں اسرائیل کے مخالف سخت فیصلوں کی تجویز کریں گے کیونکہ اس سے ٹرمپ کودوبارہ صدر بننے میں مددمل سکتی ہے۔جوبائیڈن کی طرف سے اسرائیل کی سلامتی کی مکمل ذمہ داری کابیان باربراکے بیان کی کھلی تائید بھی کرتاہے۔دوسری طرف اگرآپ کویادہوتوبطورصد ر ٹرمپ نے2017میں یروشلم کواسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیاتھاجس پرمتعدد ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا تھاتاہم باربراکہتی ہیں کہ اگرکملاہیرس جیت جاتی ہیں توکیاپتا ، غزہ اورلبنان میں جنگ بندی کیلئے امریکی دباؤبڑھتاہوانظرآئے لیکن اس سب کادارومداراس پرہوگاکہ اسرائیل اورایران اس تنازع کے موجودہ مرحلے میں کہاں لکیرکھینچتے ہیں۔
ماضی قریب میں عالمی رہنماایران اورخطے میں اِس کے اتحادیوں بشمول حماس اورحزب اللہ پرزور دیتے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایسے جوابی حملوں سے بازرہیں جوخطے میں مزیدکشیدگی کوبھڑکاسکتے ہیں۔ایران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعدبرطانیہ،فرانس اور جرمنی نے ایک مشترکہ بیان میں ایران پرزوردیاتھاکہ وہ اسرائیل کے خلاف کاروائی سے گریزکریں تاہم ایران نے اس درخواست کو ”ضرورت سے بڑی درخواست”قراردیاتھالیکن ان ممالک کی اسرائیل کوجدیدترین اسلحہ کی سپلائی اورمالی اعانت کے ساتھ منافقت کایہ عالم ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ بھی اپنی ناجائزاولاد اسرائیل کی درندگی کی مذمت نہیں کی جس کی وجہ سے عالمی امن کوشدیدخطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
لبنان میں حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعدایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نصیر کنعانی نے اپنے بیان میں کہاتھاکہ ایران لبنان یاغزہ میں اپنی فورسز نہیں بھیجے گا۔ایران کی رضا کار فورسزکو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لبنان اورفلسطینی علاقوں میں موجود فائٹرزجارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت اورطاقت رکھتے ہیں۔دوسری جانب امریکی حکام بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ بندی کیلئے امریکی کوششیں ابھی تک ناکافی ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی برطانوی نمائندہ مارگریٹ میکلوئیڈ کے مطابق جب تک جنگ بندی نہیں ہو گی تب تک میںیہ نہیں کہوں گی کہ امریکی حکومت نے کافی کام کیاہے۔ہم سمجھتے ہیں وہ تنازع جواسرائیل اورحماس کے درمیان میں ہورہاہے وہ سفارتکاری سے حل ہوناچاہیے ۔ انہوں نے اسرائیل اورلبنان سے آنے والی خبروں کوتشویشناک قراردیتے ہوئے کہاکہ” سات اکتوبرکے بعد امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن مشرقِ وسطی کے گیارہ دورے کرچکے ہیں کیونکہ امریکاکی خواہش ہے کہ یہ معاملہ سفارتکاری سے حل ہو”۔ لیکن جنگ کے بڑھتے ہوئے شعلے جس تیزی کے ساتھ عالمی امن کوتباہ کرنے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں،یہودی نژادامریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کی گیارہ دوروں کاہی تونتیجہ ہے۔
یاد رہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پرحملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جبکہ لبنان پرفضائی حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل زمینی حملے کاآغازبھی کرچکاہے اوراس نے شام اوریمن پربھی فضائی حملوں کاآغازکردیاہے۔ایسے میں کیا خطے میں ایک نئی اوربڑی جنگ
چھڑ سکتی ہے اورکیاایران اوراسرائیل کے درمیان براہِ راست کھلی جنگ خطے کے دوسرے ممالک کوبھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جن کا کردار بظاہر غیرجانب ہی نظرآرہا ہے جبکہ ایران نے برملاان ملکوں کواسرائیل کاحامی قراردیتے ہوئے خوفناک نتائج کی دھمکی بھی دی ہے؟