... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
اسرائیل کے بدترین مظالم کا سامنا کرنے والے بے گناہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت جا ایک سال مکمل ہونے پرآج بروز پیر 7اکتوبر کو پاکستان بھر میں یوم یکجہتی فلسطین منایا جارہا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن سے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران کیا تھا۔وزیراعظم شہباز شریف غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر جاری ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے اور فلسطینی بھائیوں بہنوں کی حمایت کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کی بھی میزبانی کریں گے۔یوم یکجہتی کے موقع پر آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد اور تقریبات کی نگرانی کے لیے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، شیری رحمان، خواجہ سعد رفیق اور نیئر بخاری پر مشتمل ایک کمیٹی پہلے ہی تشکیل دے دی گئی تھی۔اسرائیلی بربریت کا ایک سال مکمل ہونے پر دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہوچکے ہیںجس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ میں بئے گناہ فلسطینیوں کی خونریزی کا سلسلہ فوری بند کیا جائے۔ایک غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے لئے احتجاجی مظاہروں کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ لندن کی سڑکوں پر 40ہزار مظاہرین نے احتجاجی مارچ کیا جبکہ ہزاروں افراد نے پیرس ،روم ، منیلا،کیپ ٹاون اور نیویارک سٹی میں جمع ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایااسی طرح وشنگٹن میں وائٹ ہاوس کے قریبمظاہرہ کیاجبکہ نیویارک سٹی میں مظاہرین نے سیاہ اور سفید لباس پہن کر فلسطینیوں کے حق میں نعرے لگائے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میںفلسطینی شہداء کی تعداد42ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہے جن میں سے نصف سے زائد بچے اور خواتین شامل ہیں۔بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگ کے کچھ اصول ہوتے ہیں جن کے مطابق جنگ کے دوران ہسپتالوں ،سکولوں اور رہائشی آبادیوں کو بمباری کا نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن اسرائیلی فوج نے ہسپتالوں،سکولوں اور رہائشی آبادیوں پر بھی شدید بمباری کی ،غزہ کی بستیاں قبرستان بن چکی ہیں، گھر، ہسپتال اور سکول کھنڈر بن چکے ہیں،23لاکھ کی آبادی بے گھر اور فاقہ کشی کی شکار ہوچکی ہے۔اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA)نے خبردار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔یو این آر ڈبلیو کے کمشنرجنرل فلپ لازارینی کہا کہنا ہے کہ غزہ میں بچوں کی پوری نسل نفسیاتی صدمے کا شکار ہے اور وہاں بیماریاں اور قحط بڑھتا جارہا ہے۔
ایڈولف ہٹلر نے جب یہودیوںکا بڑے پیمانے پرقتل عام کیا تو بعد میں لفظ”نسل کشی” متعارف ہوا، سن1948میں اقوام متحدہ نے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور اس کا رتکاب کرنے والوں کے لئے سزا سے متعلق پہلا معاہدہ منظور کیا جسے نسل کشی کنونشن کہا جاتا ہے۔ 19دفعات پر مشتمل کنونشن میں درج ہے کہ نسل کشی قابل سزا جرم ہے اور اس جرم سے کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں خواہ وہ آئینی حکمران ہوں،سرکاری عہدیدار یا عام لوگ ہوں،اس جرم کا رتکاب کرنے والوں پر مقدمہ اس ملک کی مجاز سرزمین پر یا عالمی عدالت میںبھی چلایا جاسکتا ہے۔اسی کنونشن کے تحت جنوبی افریقہ نے نیدر لینڈ کے شہر” دی ہیگ ”میں قائم عالمی عدالت انصاف میں ایک دعوی دائر کیا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے اورکنونشن کے قوانین پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا ہے ابھی عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آنا باقی تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پہلے ہی اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عالمی میڈیا میں بیان دیا ہے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے کسی فیصلے کو نہیں مانے گا اورغزہ میں جنگ جاری رکھے گا۔ہٹلر کی طرح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا جنگی جنون بھی بڑھتا جارہا ہے جوتیسری عالمی جنگ کی وجہ بنتا جارہا ہے۔عالم انسانی کا آج اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ایک سوال ہے کہ جس طرح ہٹلر کایہودیوں کے قتل عام پر نسل کشی کے خلاف کنونشن منظور کرایا گیا تھا آج اسی عالمی قانون پر خود یہودی عملدرآمد کیوں نہیں کررہے ؟ اسی طرح امریکہ جس طرح افغانستان میں انسانی حقوق کے نام پر جنگ مسلط کرتا رہاہے ٹھیک اسی طرح فلسطینیوں کے لئے ا نسانی حقوق کاجذبہ آج کہاں گیا؟ یہ وہ سوالات ہیںجن کے جواب اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر کے پاس نہیںہیں اور شائد تاریخ میں جب بھی ہٹلر کی بربریت کا ذکر ہوگا تو ان دونوں کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔