وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کامقدمہ

اتوار 06 اکتوبر 2024 پاکستان کامقدمہ

سمیع اللہ ملک
ملک کے تمام ائیرپورٹس کوآٹ سورس کرنے کاعمل تقریباپایہ تکمیل کوپہنچ چکاہے اورکبھی بھی اس کااعلان ہوسکتاہے کہ پہلے ہم نے خود اپنے ہاتھوں اپنی ائیرلائن کابیڑی غرق کیااور غیرملکوں میں ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے والوں کودربدرکردیا اوراب بھلاہمیں ان ائیرپورٹس کی کیا ضرورت ہے؟ان کوبھی گروی رکھ کرکام چلاتے ہیں،کچھ اپنی بھی چاندی ہوجائے گی۔
ہمیں یہ بتایاجارہاہے کہ دوسرے ملکوں میں یہی طریقہ کارفرماہے،بھئی دوسرے ملکوں کی اوربھی بہترین پریکٹس ہے،اس پر توآپ عمل نہیں کرتے۔آپ پی آئی اے بیچ رہے ہیں، 19ہزارایکڑپرمحیط کھربوں روپے مالیت کی کراچی اسٹیل مل کوکوڑیوں کے بھاؤبیچ رہے ہیں،بندرگاہوں کاسودا ہورہاہے،نیشنل بینک کی فروخت کاسلسلہ بھی چل رہاہے،سول ایوی ایشن بیچ رہے ہیں، امریکااوربرطانیہ میں جوپاکستانی اثاثے ہیں،انہیں بیچ رہے ہیں،قوم کو بتاناتوایک طرف،آپ نے توپارلیمنٹ کوبھی ربراسٹیمپ بنا کررکھ دیاہے۔آپ اپنی پارلیمنٹ پرجعلی برتری کی بنیادپرساراملک بیچنے پرتل گئے ہیں۔ابھی ایک آئینی ترامیم کاسونامی ڈبونے کیلئے تیارتھالیکن مولانانے اقلیت میں ہوتے ہوئے بالکل ویساہی اپنا وزن دکھایاجیسی کہ ان کے والدمرحوم نے صوبہ میں تیسری مگراقلیتی جماعت ہونے کے باوجودصوبہ کی وزارتِ اعلیٰ کویقین بنادیاتھایاجیسے پنجاب میں پرویزالہٰی صاحب نے صرف دس سیٹوں کی بدلوت پنجاب کی وزارتِ اعلی کواپنے گھرکی داسی بناکررکھ دیاتھا۔پچھلے کئی برسوں سے قوم کے ساتھ یہ کھلواڑہورہاہے اورکوئی پوچھنے والانہیں کہ قوم سے یہ کیا مذاق ہورہاہے۔پچھلی سات دہائیوں سے خبریں سن رہاہوں کہ ملک شدیدخطرے میں ہے لیکن جن کی وجہ سے خطرے میں ہے ،ان سے کوئی بازپرس کرنے والاکوئی نہیں۔
ایک اور مسئلے کی طرف بھی توجہ دلاناچاہتاہوں اوروہ بھی بہت اہم ہے۔ آپ خودانٹرنیٹ پرجاکرتحقیق کرلیں کہ اس وقت دنیاکے تین بڑے ممالک جوسی فوڈساری دنیاکوایکسپورٹ کررہے ہیں۔ان میں ایک ویتنام ہے جن کاسمندرگوادرسے کہیں چھوٹا ہے،وہ10/ارب کا”سی فوڈ”ایکسپورٹ کرتاہے اورہم گوادرسے کتناایکسپورٹ کر رہے ہیں،اس کاتخمینہ شرم دلانے کیلئے بھی کافی ہے جبکہ ہم تھوڑی توجہ کے بعد12/ارب کا ”سی فوڈ”آسانی سے ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔ ویتنام نے اپنے سمندرمیں45لاکھ افرادکوروزگارمہیاکیاہے اورہم نے کتنے افرادکوروزگارمہیاکیاہے اس کاجواب بھی ان کے پاس نہیں ہے؟ہمیں اللہ تعالی نے توبے تحاشا نعمتوں سے نوازاہے جس کویہ چندمقتدرحضرات اپنی اپنی باری پرخوب لوٹ کراپنا اپناسرمایہ غیرملکی بینکوں میں منتقل کررہے ہیں۔رب تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے باوجود ہم حکومتوں کی نااہلی ، انتظامیہ کی جاری کرپشن کی بناپرقرضوں کے کوہ ہمالیہ کے نیچے دبے ہوئے سسک رہے ہیں اور قوم کومہنگائی جیسے ظالم جن کے حوالے کرکے ان کاخون چوس رہے ہیں۔
ہماراوزیراعظم ایک غیرملکی خاتون کوانٹرویودیتے ہوئے فقیروں کی طرح ساری دنیاسے جس اندازسے مددطلب کررہاہے،اس کوسن کرانہیں توشائدشرم نہیں آئی لیکن ہم جیسے افراد جو ملک سے باہر بیٹھے اپنی تئیں ملک کواب بھی زرمبادلہ ارسال کررہے ہیں،انہیں بھی شرم آناشروع ہوگئی ہے۔ کیاآپ کودنیابھرمیں ایسی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ پاکستان میں ایک آدمی اپنی تنخواہ سے ٹیکس اداکرکے باقی ماندہ وصول کرتاہے اور اب اس ٹیکس کی ادائیگی کے بعدسال بھرکے بعداس کی کمائی پرپھرسے ٹیکس اداکرناہوگایعنی ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ایک اورالگ سے ٹیکس عائدکردیاگیاہے۔
اب ایک اورظلم بھی سن لیں۔پاکستان میں اس وقت22/اعشاریہ 2ارب ٹن کے قدرتی معدنی ذخائرموجودہیں۔صرف کھیوڑہ کی نمک کی کان کاذکرکردیتاہوں،اس وقت ہم اس سے سالانہ3لاکھ70ہزارٹن نمک نکال رہے ہیں۔آپ کیلئے اور آپ کے تمام ناظرین کیلئے اس کی تفصیلات بڑی دلچسپ ہوں گی،اس کے ذخائرجہلم سے لیکرمیانوالی، کالاباغ اورکوہاٹ بہادرخیل تک پھیلے ہوئے ہیں ۔اس کی پوری لمبائی300کلومیٹر،چوڑائی30کلومیٹراورگہرائی اس کی2400فیٹ ہے،یہ ساراعلاقہ مکمل طورپرگلابی نمک سے لبریزہے۔میں یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ یہ گلابی نمک پورے کرہ ارض پرصرف پاکستان میں میسرہے اوریہ نعمت صرف اللہ نے پاکستان کوعطاکی ہے۔یہ کتنی بڑی نعمت ہے ، اللہ نے ہمیں کس قدرنوازاہے،اسی لئے ساری دنیامیں اسے پنک گولڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ میںنے اس واقعہ سنانے سے پہلے ایک ظلم کالفظ بولاتھاجوکہ ٹھیک نہیں بلکہ ہم سے ان گنت ظلم ہو رہے ہیں،اب میں پوری ذمہ داری اور دلائل کے ساتھ اس ظلم کی مختصر طورپرنشاندہی کردیتاہوں۔
پہلاظلم تویہ ہے کہ پاکستان کاازلی دشمن بھارت اس گلابی نمک کوساری دنیامیں اپنے نام سے فروخت کررہاہے۔ہم ابھی تک ”جغرافیائی ایڈینٹیکل” کے تحت اپنے اس قیمتی خزانے کورجسٹرکرواکراس کوپروٹیکٹ نہیں کرواسکے۔جغرافیائی ایڈینٹیکل قانون کے تحت یہ نمک صرف پاکستان سے نکلتاہے،اس لئے کوئی اورملک ہمارے اس قیمتی اثاثے پراپنالیبل نہیں لگاسکتا،آخرہماری کیامجبوری یانالائقی ہے کہ ہم ابھی تک اس کی رجسٹریشن میں ناکام کیوں ہیں؟کیااس کے پیچھے کوئی یہ رازتونہیں کہ اندر کھاتے کچھ افراداس کاکمیشن بنا رہے ہیں؟دوسراظلم یہ ہو رہاہے کہ روایتی کان کنی کے موجودہ خطرناک طریقہ نے جہاں نمک نکالنے والے افرادکی زندگیوں کوداؤپر لگایاہواہے،وہاں بے تحاشا نمک ضائع ہورہاہے۔میں یہاں آپ کے ناطرین کیلئے گزشتہ برس14مئی 2023میں شائع ہونے والی اس خبرکی طرف بھی توجہ دلاناچاہتاہوں کہ واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانہ میں ہمارے موجودہ سفیرمسعودسے ایک امریکی فرم نے ملاقات کرکے صرف گلابی نمک میں ابتدائی طورپر20کروڑڈالرکی فوری سرمایہ کاری کی پیشکش کی جو بعدازاں بڑھ کر 100کروڑ ڈالرتک جاسکتی ہے۔امریکی فرم نے یہ بھی بتایاکہ جدیدٹیکنالوجی کے تحت ہم2030 تک سالانہ ایک کروڑٹن تک گلابی نمک کی پیداواربڑھاسکتے ہیں۔میں آپ کویہ بتاتا چلوں کہ عالمی ماہرین کے مطابق دنیاکایہ واحدمنفرد نمک ہے جس میں بے تحاشہ قدرتی آیوڈین شامل ہے جونہ صرف کھانے میں بلکہ مختلف ادویات اورمحفوظ خوراک میں استعمال ہو سکتا ہے جوصحت کیلئے انتہائی مفیدہے پھریہ گلابی نمک مختلف مصنوعات میں استعمال ہوسکتاہے اوراس کی اپنی قدرتی خوشبو ہے جومختلف غذائی اجناس کونہ صرف محفوظ بلکہ اس کی روایتی بدبوسے بھی پاک کردیتاہے۔لیکن افسوس تویہ ہے کہ ہمارے ہاں کے کرپٹ افرادکی بدبودورنہیں ہوسکی۔
میں آج بڑی دلسوزی کے ساتھ آپ سب کے سامنے پاکستان کامقدمہ رکھ رہاہوں کہ ہماراملکی بیش بہاقیمتی خزانہ لوٹاجارہاہے،میں آپ کے توسط سے پاکستان کے اس تمام اشرافیہ سے پوچھناچاہتاہوں کہ دنیاکے20بڑے ممالک جونمک ایکسپورٹ کررہے ہیں، پاکستان کانام اس میں کیوں شامل نہیں؟دوسرایہ کہ پاکستان نے ابھی تک انڈیاکے اس غیرقانونی کام کوروکنے کیلئے کوئی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے؟یہ سوال اب تک آنے والی سب حکومتوں سے ہے کہ وہ بھی اپنے اس مجرمانہ فعل کاحساب دیں؟
تیسرایہ کہ ہم نمک نکالنے والے کان کنوں کی زندگیوں اورصحت کوجولاحق خطرات ہیں،اس پراب تک کوئی توجہ کیوں نہیں دی گئی۔ موجودہ طریقہ کارکے مطابق جونمک ضائع ہورہا ہے ،اس کے تدارک کیلئے حکومت کیوں سورہی ہے؟آخرہم اپنے قیمتی ذخائرکوبچانے کیلئے کس کاانتظارکررہے ہیں؟جدیدٹیکنالوجی کواستعمال کرنے میں ہم کیوں سستی کررہے ہیں اوراس کی ناکامی کاآخرکون ذمہ دار ہے؟ کیا یہ بڑے بڑے اشرافیہ کے مگرمچھ اپنے جاری کاروبارمیں ایسی سستی کامظاہرہ کرتے ہیں؟ہرگزنہیں،کیونکہ یہ قومی دولت ہے جس کے مالک عوام ہیں،اس لئے عوام کومعلوم ہوناچاہئے کہ ان پراس وقت کیامطالم ہورہے ہیں جس کی وہ بھاری قیمت اداکررہے ہیں۔
حکومت کاایک وزیرڈی ایچ اے کے ایک ریسٹورنٹ میں کھاناکھارہاتھا۔اس نے جب ویٹرسے کھانے کابل طلب کیاتواس نے سامنے میزپربیٹھے ایک فردکی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایاکہ انہوں نے آپ کاسارابل اداکردیاہے۔موصوف وزیرنے نوجوان سے ہاتھ ملاتے ہوئے بل کی ادائیگی کاسبب پوچھاتواس نے کہاکہ میں نے آپ کوپہچان لیاہے کہ آپ منسٹرہیں۔منسٹرنے اثبات میں سرہلاتے ہوئے اقرارکرلیا۔اس سے پیشترکہ منسٹرکچھ اورکہتاتواس نوجوان نے برملاکہا:جہاں آپ کے بجلی،گیس اورفون کے بل بھی ہم ہی دیتے ہیں،آپ کی حفاظت کیلئے ساتھ آنے والی پولیس گارڈزکی تنخواہیں بھی ہماری جیب سے جاتی ہیں تو کھانے کابل بھی سہی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر