... loading ...
جاوید محمود
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 57اسلامی ممالک میں صرف ایران اپنے ساتھ لبنان اور یمن کو ملا کر اسرائیل کے سامنے کھڑا ہے اور بھرپور طریقے سے فلسطینیوں کی حمایت کر رہا ہے۔ کاش دیگر اسلامی ممالک کے سربراہ شیعہ سنی کی نظر سے دیکھنے والے چشمے کو اُتار کر اس مسئلے کو صرف اور صرف مسلمانوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو فلسطین کا مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے۔ ایرانی میڈیا کی جانب سے نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر ان چیف میجر جنرل حسین سلامی ایک کمرے میں ایک بڑے سے بینر کے سامنے کھڑے ہیں اور ٹیلی فون کے ذریعے اسرائیل پر 200بیلسٹک میزائل فائر کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ پاسداران انقلاب کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے حملے میں فتح ہائپر سونک میزائلوں کا بھی استعمال کیا جو کہ صرف 12 منٹ میں اسرائیل تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایران نے کامیابی سے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا جن میں تین اسرائیلی فوجی اڈے اورموساد کا ہیڈ کوارٹر شامل تھا۔ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد ایران نے بظاہر تحمل کا مظاہرہ کیا تھا لیکن یہ تحمل ایران کے لیے شرمندگی کا سبب اس وقت بن گیا جب اسرائیل نے ایران کے قریبی اور خطے میں سب سے پرانے اتحادی حزب اللہ پر حملے کیے جس کے نتیجے میں حسن نصر اللہ اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر عباس ہلاک ہو گئے۔
ایرانی ہتھیاروں ،تربیت اور فنڈنگ نے ہی حزب اللہ کو لبنان کی طاقت ترین تنظیم بنایا تھا اور 1980کی دہائی میں پاسدارن انقلاب نے ہی اس تنظیم کو بنانے میں مدد بھی فراہم کی تھی۔ رہبر اعلیٰ اور آیت اللہ خامنائی اور پاسداران انقلاب کے زیر اثر سرکاری ٹی وی چینلز پر متعدد تبصرہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ اسماعیل ہانیہ کی ہلاکت کا انتقام نہ لینے کہ فیصلے نے اسرائیل وزیراعظم نتن یاہو کو لبنان میں ایرانی اتحادیوں اور مفادات پر حملے کرنے کی ہمت دی ۔میزائل حملوں کے بعد ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ صبرو تحمل کا وقت اب بیت چکا ہے ۔میزائل حملے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایرانی رہنماؤں کو یہ تحفظات تھے کہ اگر اسرائیلی حملوں پر چپ رہنے کے سبب ایران کو نہ صرف ملک کے عوام بلکہ مزاحمت کے محور (جس میں حماس اورحزب اللہ بھی شامل ہیں ) بھی کمزور تصور کریں گے ایران اور اسرائیل دہائیوں سے پرچھائیوں کے پیچھے رہ کر جنگ لڑ رہے ہیں اور نہ جنگ نہ امن کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس پالیسی کا اختتام ہونے جا رہا ہے۔ ایرانی حملوں کے جواب میں اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ سخت رد عمل دے گا اور وزیر اعظم نتن یاہو کہتے ہیں کہ ایران نے ایک بڑی غلطی کر دی ہے اور اس کی قیمت اسے چکانی پڑے گی۔ اس صورتحال سے ہمیں ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے امریکی حکمت عملی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
رواں برس اپریل میں صدر جو بائیڈن نے ایرانی میزائل حملوں کے بعد اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی تھی اسرائیل نے اس درخواست پر عمل بھی کیا تھا اور صرف ایک میزائل کے ذریعے وسطی ایران میں دفاعی تنصیب کو نشانہ بنایا تھا لیکن اس مرتبہ صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلون نے خبردار کیا کہ اسرائیل پر ایرانی حملے کے سخت نتائج سامنے آئیں گے اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر تمام چیزیں طے کرے گا۔ اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی میڈیا نے خبر نشر کی تھی کہ ان کا ملک چند دنوں میں ایران پر جوابی حملے کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور وہ ایران میں تیل کی ریفائنری سمیت متعدد اسٹریٹیجک مقامات کو نشانہ بنائیں گے۔ اسرائیلی حکام نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کی دھمکی دی تو پھر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا جائے گا۔ سینئر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسماعیل ہنیہ حسن نصر اللہ اور نیلفروشن کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا ہے اور یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سوئس سفارت خانے کے ذریعے امریکہ کو پیغام پہنچایا ہے کہ وہ اس معاملے میں دخل اندازی نہ کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کوئی بھی ملک جو اسرائیل کی معاونت کرے گا یا ایران کے خلاف اپنی فضائی حدود استعمال کی اجازت دے گا، اسے جائز ہدف تصور کیا جائے گا۔ مشرق وسطیٰ میں تقریبا 40ہزار امریکی فوجی موجود ہیں اور عراق اور شام میں بھی ان کی بڑی تعداد موجود ہے ان دونوں ممالک سے ایران کے حمایت یافتہ گروہ امریکی فورسز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایران کو اب خود کو کسی بھی اسرائیلی حملے کے لیے تیار رکھنا ہوگا اور امید رکھنی ہوگی کہ اس کا کھیلا ہوا جوا کام کر جائے، جب اپریل میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی کوئی بات ثابت کرنا چاہتا ہے لیکن ایران نے جیسے حملہ کیا اور اس حملے کی پیشگی اطلاع دے دی تھی اس کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ باسانی ایرانی میزائلوں اور ڈرونز مار گرائے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے اپ کی بار ایران واقعی اسرائیل کو سنگین نقصان پہنچانا چاہتا تھا ۔ایران کی پاسداران انقلاب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس حملے کا مقصد حماس اور حزب اللہ کے سینئر رہنماؤں کی ہلاکت کا بدلہ لینا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کرنے کی کوشش کی تو اس کا جواب دیں گے۔ پچھلی بار جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو سے جواب میں سخت رد عمل نہ دینے کا کہا تھا اور بظاہر انہوں نے امریکی صدر کی بات مان لی تھی لیکن آب کی بار اسرائیل میں جذبات کافی مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق وزیراعظم کی گزشتہ ٹوئٹ کو دیکھیں تو دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے بہت سخت زبان استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 50سالوں میں مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدلنے کا یہ سب سے بہترین موقع ہے ۔وہ اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی ترغیب دے رہے تھے تاکہ ایرانی حکومت کی کمر ہمیشہ کے لیے توڑ دی جائے ۔وہ اس وقت وزیراعظم تو نہیں ہیں لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ مستقبل میں دوبارہ وزیراعظم بننے جا رہے ہیں اور شاید اسی لیے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سخت موقف لینے کے قابل ہیں لیکن ان کا بیان ملک میں موجود ایک خاص مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت اسرائیل ایران میں کسی بھی جگہ حملہ کر سکتا ہے۔ چاہے وہ جوہری تنصیبات ہوں یا پیٹرو کیمیکل تنصیبات غرض یہ کہ ہر وہ شے جس پر حملے سے ایرانی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اسرائیل کی نشانے پر ہو سکتی ہے۔ منظر ڈرامہ ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ اگر ایران اور اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ ہوتا ہے تو ایران کے پاس لبنان میں حزب اللہ کی شکل میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ایک فورس ہوگی جو اس کے کام آئے گی لیکن گزشتہ دو ہفتوں میں امریکی اور اسرائیلی حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کو تقریبا ناکارہ کر دیا ہے اور اس کے نصف ہتھیاروں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ ایک طرح سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا وہ دفاعی نظام جو ان کو روکے ہوئے تھا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے ۔ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل اب رد عمل دینے میں زیادہ آزاد ی محسوس کر رہا ہے دوسری جانب جو بائیڈن ایک اور طیارہ بردار بحری جہاز بحیرہ روم کی جانب بھیج رہے ہیں جو کہ ایرانیوں کے لیے اشارہ ہے کہ اگر انہوں نے اسرائیل پر حملہ کیا تو امریکہ پر حملہ تصور کیا جائے گا ۔شاہد یہی وجہ ہے کہ لوگ اس جنگ کے نتیجے میں پھیلنے والے عدم استحکام ہنگامہ آرائی اور دیگر چیزوں کے بارے میں اپنے خوف کا اظہار کرتے آئے ہیں اور اب یہ سب ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور لگتا یوں ہے کہ فی الحال سفارت کاری کے لیے بہت کم گنجائش بچی ہے۔ موجودہ صورتحال میں اسرائیل کے مکروہ ارادے واضح نظر آرہے ہیں۔