... loading ...
روہیل اکبر/میری بات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکر ہے کہ ملک میں قبضہ گروپوں اور نیب زدگان کے باوجود کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ سر ابھار ہی لیتا ہے جن کی بدولت پاکستان کا نام دنیا میں جگمگ کرنا شروع کردیتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے ایسے ہیرے موجود ہیں جنہیں معمولی سے تراش خراش کے بعد دنیا کے افق پر چمکدار ستارہ بنا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم ہر ابھرنے والے ہیرو کو زیرو بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں لیکن اسکے باوجود اپنے زور بازئوں سے کوئی نیزہ پھینک کر صدیوں پرانا ریکارڈ توڑ کر پاکستان کا نام بلند کرکے ارشد ندیم بن جاتا ہے تو کہیں سے تین بہنیں سبل سہیل ،ویرونیکاسہیل اور ٹوئنکل سہیل اپنی چوٹوں کے باوجود جنوبی افریقہ میں مختلف ویٹ کیٹیگریز میں مجموعی طور پر چار گولڈ میڈل حاصل کرکے تاریخ رقم کردیتی ہیں۔ اسی طرح جہانگیر خان نے6 بار ورلڈ اوپن ٹائٹل اور دس بار برٹش اوپن ٹائٹل جیت کرایک نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ بنا کر پاکستان کی عظمت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ انکے بعد اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے جان شیر خان نے بھی 8 بار ورلڈ اوپن اور 6 بار برٹش اوپن جیت کر پاکستان کو عالمی نمبر 1 بنائے رکھاہماری ہاکی چار بار ورلڈ چیمپئن رہ چکی اور ابھی چند دن پہلے مقابلے میں جانے کا کرایہ تک نہ رکھنے والے نوجوان شاہ زیب رندنے کراٹے کومبیٹ ورلڈ چیمپین جیت کراپنی کامیابی قوم کے نام کرکے دنیا اپنے نام کرلی۔ یہ سب لوگ ہمارے ا سپورٹس کے اداروں میں بیٹھے ہوئے مافیاز کی منافقت کے باوجود دنیا کو بتانے میں کامیاب رہے کہ کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
شاہ زیب رند کی کہانی سنانے سے پہلے ہاکی کا ذکر آیا ہے تو اس کی تباہی کے حوالہ سے رانا ثناء اللہ کا بیان ہی کافی ہے کہ 25سالوں سے قابض مافیا سے جان چھڑوانی ہے۔ ریڈیو ایف ایم 95پنجاب رنگ کے میرے پروگرام رائونڈ دی گرائونڈ میں سابق اولمپیئن اور کپتان محمد ثقلین ،قمر ضیاء اور شہزادہ عالمگیر نے بھی کچھ اسی طرح کی دکھ بھری باتیں بتائیں کہ ہماری اسپورٹس کی ایسوسی ایشنوں اور فیڈریشنوں میں نہ صرف قبضہ گروپ ہیں بلکہ نیب زدہ افراد بھی ہیں جن کی وجہ سے ہماری کھیلوں کا حشر نشر ہوگیا بلکہ ہم گھٹیا کام کرنے پر بین بھی ہوئے۔ ہماری ایسوسی ایشنوں نے کھلاڑی باہر بھیجنے کے نام پر ویزے بیچے اور یہ کالک وہ ابھی تک اپنے منہ پر مل رہے ہیں میں ان سب افراد کوبھی سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے کھلاڑیوں کو پرموٹ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ خاص کربلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر یار محمد رند جن کی وجہ سے شاہ زیب رند بھی دنیا کو بتانے میں کامیاب ہوا کہ ہمارا ملک صرف معدنیات ،قدرتی وسائل اور خوبصورتی میں نمبر ون ہونے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کا بھی سلطان ہے۔ شاہ زیب رند جب اپنی جیت کے بعد واپس پہنچا تو اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر اسپورٹس کا کلچر نہیں ہے حالانکہ دنیا میں سب سے ٹیلنٹڈ لوگ پاکستان میں موجود ہیں لیکن حکومت نوجوانوں کی سرپرستی نہیں کرتی۔ میں نے اپنے ذاتی خرچے پر تین مہینے تک امریکہ میں ٹریننگ کی میرا کوئی ا سپانسر نہیں تھا لیکن یار محمد رند نے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔میرے پاس امریکہ جانے کے لیے ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے اورانہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا پہلا فائٹربن گیا ہوں جس نے یہ اعزاز حاصل کیاشروع شروع میں مجھے پاکستانی ہونے کی وجہ سے زیادہ پذیرائی نہیں دی گئی مگرجب میں نے یہ اعزاز جیتا تو دنیا حیران رہ گئی۔ ابتدا میں دنیا کے بہترین کوچز نے کہا کہ یہ فائٹ نہیں جیت سکتاکیونکہ یہ دنیا کا مشکل ترین کھیل ہے۔ کل کا یہ نوجوان بچہ اتنے بڑے فائٹر جن کی مہنگی ترین ٹریننگ کے بعد اس مقابلہ میں انٹری ہوئی تھی کیسے مقابلہ کرے گا۔وہ مجھے نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن میں نے دو سال تک دن رات محنت کی اور صرف ایک ہی جذبہ تھا کہ پاکستان کا نام دنیا میں بلند کرنا ہے ۔کئی کئی دن اور رات تک صرف مقابلے کے لیے تیاریاں کرتا رہا اور کہیں ہفتوں تک سو نہیں سکا ۔دل اور دماغ میں صرف ایک ہی مقصد تھا کہ پاکستان کے لیے یہ ٹائٹل لے کر جانا ہے ۔میں پہلا پاکستانی ہوں جو یہ اعزاز لے کر وطن واپس لوٹا ہوں میرے مقابلے میں ان ممالک کے کھلاڑی تھے جہاں پانچ سے آٹھ سال کے بچوں کو سالوں تک ٹریننگ دی جاتی ہے اور یہ کام ا سکول لیول سے ہی شروع کر دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ میری اس کامیابی کے پیچھے پاکستانی قوم اور والدین کی دعائیں شامل تھیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیلنٹڈ لوگ پاکستان میں موجود ہیں لیکن یہاں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں جبکہ دیگر ممالک میں اسکول لیول سے ہی بچوں کو ا سکالرشپ دے کر مارشل آرٹ کا فن سکھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹریننگ اسٹاف اور بین الاقوامی کوچزکا نام ونشان بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میں ٹائٹل جیت گیا کیونکہ میں بڑے بڑے انعامات کے لیے نہیں لڑا بلکہ اپنی قوم کے لیے لڑا تھااگر حکومت پاکستان نوجوانوں کی سرپرستی کرے تویہ دنیا کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فائنل میچ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے ایسا لگا کہ میں ہار گیا ہوںمگر میرے دل اور دماغ نے شکست کو قبول نہیں کیا میں نے گرنے کے باوجود آخری دم تک لڑنے اور مرنے کو ترجیح دی۔ میرے مخالف نے ایک ایسا زوردار پنچ میرے سر پر مارا تھا کہ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں چلا گیا اورمیرے اوسان خطا ہو گئے مگر میرے دل اور دماغ نے کہا کہ میں پاکستانیوں کا نمائندہ ہوں۔ پاکستان کے 24 کروڑ عوام اس ورلڈ ٹائٹل کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اگر میں ہار گیا تو قوم کو کیا منہ دکھاؤں گامگر مجھے اللہ پاک نے طاقت دی قوم اور والدین کی دعاؤں کے طفیل میں اپنے مخالف پر برتری حاصل کر گیا۔میرا دل اور دماغ بار بار کہہ رہا تھا کہ شاہ زیب تم نہیں ہار سکتے ۔ تم پاکستان اور بلوچ عوام کی امید کی آخری کرن ہو، جس کے بعداللہ پاک کا کرم ہو گیا اور میں تیسرے راونڈ میں فاتح بن گیا۔ زندگی اور موت کے درمیان سے یہ ٹائٹل جیت کر لایا ہوں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتااگر کوئی دوسرا ملک ہوتا تو کئی ہفتوں تک اس ملک میں اس ٹائٹل جیتنے کی خوشی میں جشن منایا جاتاکیونکہ یورپی ممالک اس ٹائٹل کو جیتنے کے لیے اربوں روپے اپنے لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو کئی کئی سال تربیت دیتے ہیں اورمیں ایک متوسط خاندان سے تعلق اور وسائل نہ ہونے کے باوجود مارشل آرٹ کا ورلڈ ٹائٹل ان سے جیت لایا ہوں ۔مجھے امید ہے کہ جب تک پاکستان میںسردار یار محمد رند جیسے لوگ موجود ہیں اس وقت تک ہمارے نوجوان کچھ نہ کچھ کرکے اپنے ملک کا نام سربلند رکھتے رہیں گے اور انکی حوصلہ افزائی سے نوجوانوں کے اندر مایوسی کی بجائے امیدکی کرن چمکتی رہے گی۔ شاہ زیب رند کی بے مثال کامیابی پر سردار یار محمد رند نے اسے ایک مربع زرعی اراضی دیکر بڑے بڑے سرمایہ داروں،جاگیر داروں ، اسپورٹس فیڈریشنوںاور حکمرانوں کو بتادیا ہے کہ وطن سے محبت کرنے والے کون ہیں اور لوٹ مار کرنے والے کون ہیں اس موقعہ پر مجھے علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا کہ
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ساتھ ہی حضرت لعل شہباز قلندر کی نصیحت بھی یاد آگئی
طلوع سحر ہے شام قلندر
اٹھو رندو پیو جام قلندر