وجود

... loading ...

وجود

تیسری عالمگیر جنگ کی بازگشت

هفته 05 اکتوبر 2024 تیسری عالمگیر جنگ کی بازگشت

حمیداللہ بھٹی

فلسطینیوں کی نسل کشی ہوتی دیکھ کربھی مسلم ممالک نے غیرجانبداری ختم نہیں کی تاکہ امریکہ راضی رہے لیکن نہ تو امریکہ اُن سے مکمل طور پر خوش ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک کے لیے اسرائیل مہلک خطرہ بنتاجارہاہے جس سے ماہرین تیسری عالمی جنگ کا خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ دراصل اسرائیل نے فلسطین ،لبنان اور شام پر حملوں کے ساتھ دیگر ممالک میں بھی ایسے افراد کو نشانہ بناناشروع کردیا ہے جنھیں وہ اپنادشمن خیال کرتا ہے کیونکہ اُسے امریکہ کی غیرمتزلل حمایت حاصل ہے۔ اِس لیے وہ کسی ملک کی آزادی وخود مختاری کو خاطر میں نہیں لاتااور پامال کرگزرتاہے۔ یہ طرزِعمل اُسے نہ صرف خطے میں یک وتنہاکرنے کا باعث ہے بلکہ تمام ہمسایہ ممالک کو خفاکرنے کا موجب ہے۔ اِس ضمن میں ایران واسرائیل بڑھتی کشیدگی سے ماہرین تیسری عالمی جنگ کا خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں ۔امریکہ میں جاری صدارتی الیکشن مُہم کے دوران بھی تیسری عالمی جنگ کی باتیں زیرِ گردش ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر تیسری عالمی جنگ شروع ہوتی ہے تو اُسے ختم کرنے اور عالمی امن بحال کرنے کے لیے کیا اقوامِ متحدہ یا کوئی اورملک فعال کردار ادا کر سکے گا ؟بظاہر حالات اِس بارے کچھ موافق نہیں لگتے۔
ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر میزائل برسائے جن سے کتنا جانی یا مالی نقصان ہوانیز اسرائیلی دفاعی تنصیبات کوتباہ کرنے کے ایرانی دعوے میں کتنی صداقت ہے؟ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اسرائیلی زرائع ابلاغ پر حکومت کی گرفت ہے اس لیے وہ بس وہی شائع کرتے ہیں جس کی حکومت اجازت دیتی ہے آزاد زرائع ابلاغ کی اسرائیل میں موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے اسی بنا پر حقائق سے دنیا لاعلم رہتی ہے اگرایرانی دعووئوں کے درست ہونے کا یقین کر بھی لیا جائے تو بھی یہ نقصان غزہ کی تباہی کے عشر عشیر بھی نہیں لیکن ایرانی میزائل حملے سے قبل ہی امریکہ میں تیسری عالمی جنگ کی باتیں کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایرانی تیاریوں کی بابت امریکہ کو آگاہی تھی اسی لیے تیسری جنگ کی باتوں کو اُچھالا گیا مگر ایران نے جب ہر قسم کے خطرے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میزائل حملہ کردیا تو اب جواب دینے کے لیے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے حالانکہ آزاد و خود مختار ملک کی آزادی وخودمختاری پامال کرنے پرایرانی جواب باعث حیرانگی نہیںمگر اِس جواب پر اسرائیلی قیادت مشتعل ہے جو اِس بنا پر غلط ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں آئے روز ہونے والی اکثر لڑائیوں کا وہ مرکزی کردار ہوتا ہے نہ صرف اُس کا وجود مسلط کردہ ہے بلکہ کئی ہمسایہ ممالک کے علاقوں پرزبردستی قابض ہے اور اب جنونی صیہونی قیادت گریٹر اسرائیل کے منصوبے پرکام شروع کر چکی ہے جو امن کے لیے نہایت خطرناک ہے اگر ایسا ہوتا ہے توکئی وجوہات کی بناپر تیسری عالمی جنگ کے خطرے کی مکمل طورپر نفی کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
دنیا میں اِس وقت کئی ممالک بیرونی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں جن میں فلسطین کا علاقہ غزہ ،لبنان،شام اور یوکرین سرِ فہرست ہیں
مگر جب عالمی ردِ عمل دیکھتے ہیں تو جانبداری نمایاں محسوس ہوتی ہے امریکہ سمیت یورپی ممالک روسی حملے کو جارحیت قرار دیتے ہیں اور اِس جارحیت کو ختم کرانے پرسب کا کامل اِتفاق ہے کیونکہ اگر یہ جنگ روس جیت جاتا ہے تو نہ صرف ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے کا امکان ہے بلکہ امریکی غلبہ متاثر ہونے کاعمل بھی تیز ہو سکتا ہے اسی لیے یوکرین کو دھڑا دھڑدفاعی امداد رہے ہیں مگریہی ممالک مشرقِ وسطیٰ میں جاری اسرائیلی حملوں کو ختم کرانے میں کوئی کردار ادا کرنے کو تیارنہیں اسرائیل چاہے جس ملک کی آزادی وخود مختاری پامال کرے یا نسل کشی جیسے انتہائی اقدامات، امریکہ اور یورپی ممالک اُس کا دفاعی حق قرار دیتے ہیں یہ ناانصافی پر مبنی رویہ ہی مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے شعلے تیز کررہا ہے اگر ظلم وناانصافی پر مبنی رویہ جلدترک نہیں کیا جاتا تو یہ تیسری عالمی جنگ پر منتج ہو سکتا ہے۔ ضرروت اِس امرکی ہے کہ ناانصافی کی حمایت کرنے کی بجائے انصاف سے کام لیا جائے تاکہ جنگ وجدل کا ماحول نہ بنے اور دنیا کو پُرامن بنانے کا مقصدحاصل ہو سکے۔
اسرائیل سائنس وٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے علاوہ ازیں اُس کی کاروائیوں کا دفاع کرنے کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک ہمیشہ پیش پیش ہوتے ہیں اسی بناپر اِتناخودسر ہو چکا ہے کہ اب کسی کوخاطر میں نہیں لاتا لیکن کیا ایران کی پُشت پناہی کے لیے کوئی ملک موجود نہیں؟ ایسا خیال کرنا غلط ہے اگر اسرائیل کو امریکی اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہے تو ایران بھی یک و تنہا نہیں بلکہ اُسے بھی روس اور چین کی حمایت حاصل ہے۔ اگر جنگ وسیع ہوتی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ عالمی طاقتیں متحرک نہ ہوں۔ امریکہ نے تو علاقے میں ابھی سے ہی افواج تعینات کردی ہیں تاکہ اسرائیل کے لیے مزید ممالک کوخطرہ بننے سے روکا جا سکے مگرموجودہ ماحول میں روس اور چین جیسی دفاعی اور معاشی طاقتوں کے لیے زیادہ دیرلاتعلق رہنا ممکن نہیں ۔جس کی وجہ سے لڑائی محدود نہیں رہے گی بلکہ بے شمار ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک جارحیت کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے امن کے اقدامات کی طرف آئیں تاکہ انسانی بقا کو لاحق خطرات ختم ہوں جنگیں ختم کرانا اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری ہے مگر جب بات طاقتور ممالک کی آتی ہے تو یہ اِدارہ اکثر ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے عالمی تنازعات حل نہیں ہورہے اوراِس اِدارے کابھی کردار محدودہوتا جارہا ہے۔ اِن حالات میں امریکہ اور یورپی ممالک کا مشرقِ وسطیٰ میں جاری لڑائی کا حصہ بننے پر روس اور چین بھی مداخلت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔اِس طرح مزید محاذکھلتے جائیں گے اور تیسری دفعہ نسل انسانی خطرات کے گھیرائو میں آ جائے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ناانصافی کی سرپرستی سے گریز کیا جائے۔
اسرائیل نے یروشلم پر 1967 میں قبضہ کیا تو اقوامِ متحدہ نے اِس مقدس شہر کوعالمی شہرقرار دیکر اپنی ذمہ داری میں لے لیا مگر پاس ہونے والی قراردادوں سے انحراف کرتے ہوئے 1980سے پروشلم کواسرائیل نے اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن یہ عالمی اِدارہ اپنی قرارداد پر عمل کرانے کی بھی ہمت نہیں کر سکااب تو صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اسرائیلی وزیربین گوین کہتاہے کہ مسجدِ اقصیٰ کو گرا کر یہودی عبادت گاہ بنائی جائے ،دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بنائی جانے والی یہودی بستیوں کو عالمی عدالت ِ انصاف نے غیر قانونی قرار دیا لیکن اِن فیصلوں پربھی ابھی تک عمملدرآمد نہیں کرایا جا سکاجس سے خطے میں ایک اوربڑی ایسی جنگ کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں جس کی لپیٹ میں دنیا کے کئی بڑے ممالک بھی آسکتے ہیں حالات کا تقاضا ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ روکنے کے لیے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کیا جائے وگرنہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں لڑی جانے والی لڑائی سے سب کچھ بھسم ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر