... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں کوئی بھی حکومت ہو وہاں کے مسلمان ہمیشہ سے ہی عدم تحفظ کا شکار رہے ہیں، مودی کی حکومت میں بھی مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں، مودی سرکار کے 10 سالہ دورِ حکومت میں بھارت میں رہنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو متعدد مظالم کا سامنا رہا ہے۔ انتہا پسند مودی اپنے نام نہاد اکھنڈ بھارت کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ظلم و بربریت کی ہر حد پار کر چکا ہے، بھارت میں مسلمانوں کیخلاف ہندوؤں کے مظالم کی ایک طویل داستان ہے ،جو اب مسلمان بچوں تک منتقل ہو چکی ہے، اس حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ میں مسلمان خاندانوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، مسلمان بچوں کو ہندوبچوں کے طعنے سننے پڑتے ہیں ،رام مندر کی تعمیر کے بعد اب آپ کو یہاں سے چلے جانا چاہئے اور آپ کے پاس یہاں رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ا سکول میں ٹیچر ہمارے بچوں سے جے شری رام کے نعرے لگواتے ہیں، بھارتی مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ ہمارے پورے علاقے میں 10 فیصد سے بھی کم مسلمان خاندان آباد ہیں جنہیں شدیدامتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اونچی ذات کے ہندو مسلمانوں کو نیچ سمجھتے ہیں، انہیں اپنے گھروں میں گھسنے نہیں دیتے جبکہ نچلی ذات کے ہندو ہمارے ساتھ مذہبی تہوار تک مناتے ہیں۔ بھارتی مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے میں مندر، گردوارہ اور گرجا گھر تو ہیں مگر مسجد نہیں ہے، ہمیں عید منانے کیلئے اجازت مانگنا پڑتی ہے،ایک مسلم بچے کی والدہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو ویڈیو گیمزمیں سننا پڑتا ہے کہ دشمن پاکستانی ہیں اور بھارتی مسلمان بھارت چھوڑ کر چلے جائیں ہمیں تو مسلمان ہونے کی وجہ سے کوئی کرایے پر مکان تک نہیں دیتا کیونکہ ہندو سمجھتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ ہمیں اس بات کی تشویش ہے کہ اگر مسلمانوں پر ظلم و ستم ایسے ہی جاری رہا تو بھارت مسلمانوں کے لیے مزید غیر محفوظ ہو جائے گا، بھارت میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان اس قدر غیر محفوظ ہو چکے ہیں کہ اب انہیں اپنے بچوں کا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے ، انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
بھارت میں مودی کے دور میں مسلمان مسلسل تشدد کا شکار ہیں۔ 77 سال بعد بھی بھارت میں مقیم مسلمانوں کو پاکستانی ہونے کے طعنہ دیئے جاتے ہیں۔ مسلمان بلڈوزر مہم کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ بھارت میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کی ایک ر پورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ چند سالوں میں مودی حکومت کی ظالمانہ بلڈورز مہم کے دوران مسلمانوں کے 153000 مکانات کو مسمار اور 738000 افراد کو بے گھر کیا گیا۔بھارت کی سپریم کورٹ یکم اکتوبر کو اس سلسلے میں مختلف درخواستوں کی سماعت کرے گی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں اور متاثرہ کمیونیٹیز کو امید ہے کہ اس ظالمانہ عمل پر پابندی لگائی جائے گی۔ مسماری مہم کے دوران جس کو حکام غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی قرار دے کر جواز پیش کر رہے ہیں۔ زیادہ تر مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کو مسلمانوں کی اجتماعی سزا سمجھا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اگلی سماعت تک اس کی منظوری کے بغیر مسماری مہم کو عارضی طورپر روک دیا ہے۔ انسانی حقوق کے حامیوں کا استدلال ہے کہ یہ کارر وائیاں بغیر مناسب عمل کے اجتماعی سزا کے مترادف ہیں جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہیں۔ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں جن میں غیر قانونی حراست، تشدد اور قیدیوں کی جعلی مقابلوں میں ہلاکتیں ، لوگوں پر کھلے عام حملہ کرنے، ان کے ذریعہ معاش اور بہت سے معاملات میں ان کی عبادت گاہوں کے خلاف وسیع پیمانے مداخلت شامل ہے۔ موجودہ مودی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مزید دبانے کے لیے ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دے رہی ہے۔
بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( ار ایس ایس) نے ہندوؤں کو مسلمان اور عیسائی مذہب اختیار کرنے پر خبردار کیا اور بھارت میں ” آبادیاتی عدم توازن” روکنے پر زور دیا۔ اسی وجہ سے بھارت کی آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو آئینی تحفظات کے باوجود منظم امتیازی سلوک، تعصب اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔نریندرا مودی کی جماعت بی جے پی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مسلسل ناروا سلوک کا سامنا ہے حالانکہ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں تقریبا 15 فیصد مسلمان اور کم و بیش 80 فیصد ہندو ہیں۔ تمام خصوصی قوانین جو برسوں پہلے بنائے گئے تھے ، پولیس کے ہاتھ میں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے اور بغیر کسی سماعت کے برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں حکام نے ایسے قوانین اور پالیسیاں اپنائی ہیں جن کے ذریعے منظم طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا نشانہ جاتا ہے اور حکومت کے ناقدین کو بدنام کیا جاتا ہے۔ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آزاد اداروں، جیسے کہ پولیس اور عدالتوں میں مداخلت کر رہی ہے اور وہ قوم پرست گروہوں کو مذہبی اقلیتوں کو دھمکیاں دینے، ہراساں کرنے اور ان پر حملے کرنے پر اکساتی ہے۔ حکومت نہ صرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو حملوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ سیاسی سرپرستی اور تعصب کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔